سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان کو 6ارب ڈالر کا پیکیج مکمل کرنے کے لئے 3کڑی شرائط رکھی ہیں جن میں پٹرول 160روپے لٹر، بجلی 2روپے فی یونٹ مزید مہنگی جبکہ گیس 35فیصد مہنگی کرنے کا مطالبہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ 300ارب کا سیلز ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کا بھی کہہ دیا ہے۔ ادھر وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ بجلی اورتیل کی قیمت فوری نہیں بڑھاسکتے۔ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت میں اضافے کے ساتھ ہی پٹرول 10اور ڈیزل 15روپے فی لٹر مہنگا کردیا۔ ذرا ٹھہریئے جناب ابھی ایک دن میں چیزیں مہنگی ہونے کی فہرست ختم نہیں ہوئی کیونکہ یوٹیلٹی سٹورز پر گھی کی قیمت میں بھی 19روپے فی کلو کے اضافہ کی منظوری حکومت کی جانب سے دے دی گئی ہے۔ مہنگائی کی رفتار جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اس کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کی ڈور کسی بھی لمحے ٹوٹ جائے گی کیونکہ پاکستان کے غریب عوام مہنگائی کے تابڑتوڑ حملوں کا مقابلہ کرنے کی قطعاً سکت نہیں رکھتے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک تمام حکمرانوں نے ہر مرض کی دوا قیمتوں میں اضافے کو ہی سمجھا ہے۔ موجودہ حکومت تو پچھلی حکومتوں سے بھی زیادہ چالاک نکلی اسے غالباً بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے یہی مہنگائی فارمولا سب سے بہتر نظر آتا ہے اسی لئے تو دن میں کئی اشیاء کی قیمتیں بڑھاکر عوام کو اس کی اوقات میں رکھا جاتا ہے کہ کہیں غریب عوام کو دو گھڑی سکھ کا سانس نہ میسر آجائے۔ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان جو اقتدار میں آنے کے بعد اپنے تمام تر بیانات کو ہی بھول گئے ہیں اب یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ وہ عوام کو مہنگائی کیونکر ہورہی ہے، بارے سمجھانے میں ناکام رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل آئی ایم ایف سے قرضہ نہ لینے کے دعوے کیا کرتے تھے لیکن 3برس گزرنے کے باوجود مجال ہے کہ انہوں نے کبھی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی میکانزم بنانے کی طرف بھی توجہ دی ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم کی پٹاری میں معیشت کے سدھار کے لئے سوائے وزیر خزانہ کی تبدیلی کے دوسرا کوئی آپشن ہی سرے سے موجود نہیں ہے اسی لئے تو وہ اندھادھند مہنگائی بڑے دھڑلے کے ساتھ کررہے ہیں اور بڑے پراعتماد انداز میں کہتے ہیں کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اشیاء کی قیمتیں بڑھنے کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے۔ بلاشبہ یہ بات سچ ہے لیکن یہ بھی تو سوچئے کہ وہاں کے لوگوں اور پاکستان کے لوگوں کی آمدن میں بڑا واضح فرق ہے اسی لئے تو وہاں مہنگی چیز ہونے پر عوام کی زندگیوں پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ حکومتوں کی جانب سے انہیں جو سہولتیں اور تنخواہیں فراہم کی جارہی ہیں اس میں وہ ابھی مہنگائی کا بوجھ برداشت کرسکتے ہیں۔
حکومت کی جانب سے پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران پٹرول، بجلی اور یوٹیلٹی سٹورز پر گھی اور کوکنگ آئل سمیت دیگر اشیاء کے نرخوں میں ہوشریا اضافہ نے عوام کو زندہ درگور کردیا ہے اور وہ برملا پچھلی حکومت ہی بہتر تھی کی دہائیاں دیتے نظر آرہے ہیں جبکہ اس نازک وقت میں عوام کو گھبرانا نہیں کی تلقین کرتے ہوئے ہمارے وزیراعظم حسب روایت خاموش ہیں کہ انہیں یہ بات اچھی طرح سمجھ آگئی ہے کہ عوام کی طرف سے شورشرابہ فقط ایک دو دنوں کی بات ہے کیونکہ اس کے بعد حکومت مزید کسی اور چیز کی قیمت میں اضافہ کرکے عوام کو دوسری ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادے گی۔ وزیراعظم عمران خان جو برملا یہ بات کہتے نظر آرہے ہیں کہ وہ اپنے عوام کو مہنگائی بڑھنے کے اسباب بتانے میں ناکام رہے ہیں کیا ہی بہتر ہو کہ وہ اپنی ناکامی کو تسلیم کرتے ہوئے اقتدار کو چھوڑدیں اور کسی دوسرے کو ملک و قوم کی خدمت کا موقع دیں جو کسی طور عوام کو کوئی تو ریلیف فراہم کرے کیونکہ اگر پٹرولیم، بجلی اور گھی کی قیمتوں میں حالیہ ہوشربا اضافے کے بعد حکومت کی جانب سے عوام کے خاموش ہوکر بیٹھنے کی توقع کرنا غلط ہے۔ عوام میں حالیہ مہنگائی پر جو غم و غصے کی لہر پائی جاتی ہے وہ عوام کے بدلے ہوئے تیورکا پتہ دینے کے لئے کافی ہے کہ وزیراعظم یا ان کا کوئی وزیر عوام کے دربار میں جاکر تو دیکھیں۔ عوام ان کی ایسی درگت بنائیں گے کہ انہیں چھٹی کا دودھ یاد آجائے گا۔
حکومت کی جانب سے جون میں بجٹ کے موقع پر دعویٰ کیا گیا تھا کہ اب کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا مگر سچ تو یہ ہے کہ جون کے بعد سے تواتر کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر بجٹ پر بجٹ آرہے ہیں لیکن مجال ہے کہ حکومتی معاشی ٹیم عوام کو تھوڑی سی بھی رعایت دینے کے لئے تیار ہو۔ المیہ تو یہ ہے کہ ابھی ہمارے ادھار پر پیپلزپارٹی سے مانگے جانے والے وزیر خزانہ بڑے فخریہ انداز میں کہہ رہے ہیں کہ عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا مکمل بوجھ عوام پر منتقل نہیں کیا گیا ہے یہی نہیں بلکہ بجلی اور گھی کی قیمتوں میں اضافے اور ٹیکسز کی شرح بڑھانے بارے بھی موصوف نے دور کی کوڑی لائے ہیں کہ جن کو سن کر ایک غریب شخص کا خون ہی کھولتا ہے کہ ایک طرف حکومت عوام پر روزانہ کی بنیاد پر مہنگائی کے زہر آلود کلہاڑے برسارہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے ہمارے رائل پرنس یعنی کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے نخرے پورے کرنے کے لئے نیا طیارہ اور وزراء کے لئے 46گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایک بلٹ پروف گاڑی بھی وزیراعلیٰ کے لئے خریدی جائے گی۔ یاد رہے کہ وزیراعلیٰ کے استعمال کے لئے پہلے ہی 15 بلٹ پروف و لگژری گاڑیاں اورایک عدد ہیلی کاپٹر مختص ہے۔ اطلاعات ہیں کہ روس سے خریدے گئے ہیلی کاپٹر کی اصل قیمت ایک ارب 40کروڑ ہے باقی کے اخراجات اس کی ترسیل ضروری ترامیم، کسٹم کی مد میں ادا کئے جائیں گے۔ ایک طرف ہمارے حکمرانوں کے شاہی ٹھاٹھ باٹھ ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے جبکہ دوسری طرف غریب عوام ہیں کہ جن پر مہنگائی کے کلہاڑے برسانے کا کوئی موقع حکومت سے ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔
وزیراعظم عمران خان جو خود کو عوام کا سب سے بڑا بہی خواہ تصور کرتے ہیں، موجودہ مہنگائی بارے کیا تبصرہ پیش کریں گے اور عوام کو اب کون سی صبر اور گھبرانا نہیں کی گولی دیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ وزیراعظم اوران کی کابینہ کی تمام تر توجہ غیرضروری مسائل کی طرف ہے اسی لئے تو مہنگائی کا عفریت اس قدر منہ زور ہوگیا ہے کہ اب وہ کسی کے قابو میں آنے کے لئے تیار نہیں۔ عوام کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ 3سال کسی بھی حکومت کی معاشی سمت کا تعین کرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔ انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہاہے کہ حکومت کے پاس معاشی ٹیم سرے سے ہی موجود نہیں اور نہ ہی وزیراعظم سمیت کسی کو ملک کی معیشت کو لاحق خطرات بارے تھوڑی سی بھی آگاہی ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے لیکن اس ایٹمی طاقت والے ملک میں عوام کے لئے زندہ رہنا بہت مشکل ہوگیا ہے اسی لئے تو آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ عوام اس حکومت سے یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ ہی ایٹم بم ان پر چلاکر نہ صرف اپنی بلکہ آئی ایم ایف کی بھی اچھی طرح تسلی کروادے اور پھر جو لوگ ایٹم بم چلانے کے بعد بچ جائیں ان پر حکمرانی کریں۔
عوام کو ریلیف فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن حکومت نے جس طرح سے عوامی مسائل سے نظریں چرارکھی ہیں اور اوپر سے وزیراعظم اور ان کی مغرور کابینہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی اس کے باعث یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حکومتی نمائندے احساسات سے بالکل عاری ہیں اسی لئے تو وہ نوجوان نسل جس نے تحریک انصاف کو ووٹ دے کر اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھایا تھا آج وہ شرمندہ نظر آتے ہیں ایسے میں اگر کوئی حکومت کو نادر مشورہ دیتا ہے کہ وہ دو اڑھائی ارب کا قرض لے کر ایک ارب ڈالر کی آٹا، چینی، دال، گھی اور پٹرول پر سبسڈی دے تو اس پر ماتم کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے کہ یہ واقعی نہ صرف اخلاق سے گری ہوئی بات ہے کہ پٹرول کی قیمت میں 10روپے 49پیسے کا ریکارڈ تاریخی اضافہ درحقیقت ہر چیز کی قیمتوں میں خطیر اضافہ ہوگا۔ اب ان عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ وہ شخص جس کی آمدنی ہی صرف 10سے 12ہزار روپے ماہانہ بنتی ہو وہ کس طرح مہنگائی کے عفریت کا مقابلہ کرپائے گا۔یہ وہ سوال ہے جس کے بارے میں حکومت کو کچھ تو سوچنا چاہیے۔ایسا محسوس ہوتاہے کہ وہ یہ بات اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ یہ ان کی پہلی اور آخری باری ہے اس لئے بھی وہ اپنے اقتدار کی مدت مکمل کی اولین پالیسی پر عمل پیرا ہیں ان کو اس بات کی ذرا برابر پروا نہیں کہ عوام کیا کریں گے کیونکہ اب عوام کو ماضی کے حکمرانوں کی غلطیوں کا نتیجہ ہے کہہ کر مزید بیوقوف حکومت نہیں بناسکتی۔ ایک ہفتے میں تین مرتبہ بجلی کے نرخ بڑھاکر حکومت نے عوام کو ’’ریلیف‘‘فراہم کیا ہے اس کی ماضی میں کہیں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اسی طرح صرف 3ماہ میں 35روپے سے زائد پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ بھی ایک نیا ریکارڈ ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے کپتان نے مہنگائی کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں اور اپنا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں لکھوالیا ہے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔ عوام کے بدلے ہوئے تیور کو اگر اپوزیشن نے ہلکی سی چنگاری دی تو اس میں سب کچھ جل کر بھسم ہوجائے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ حکومت مصر کے تحریر اسکوائر کے واقعہ کو کسی صورت نظرانداز نہ کرے کہ جب ایک ٹھیلے والے نے مہنگائی سے تنگ آکر اپنے ٹھیلے کو آگ لگادی تھی۔ اس سے پہلے کہ کوئی المیہ جنم لے اور ملک دشمن طاقتیں اس افراتفری، بے یقینی کے ماحول کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں، بہتر یہی ہوگا کہ وزیراعظم اپنی معاشی ٹیم کی ناکامی تسلیم کریں اور عوام کو کسی نہ کسی طرح بس ریلیف فراہم کریں،یہی وقت کی پکار ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر