سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ دنوں نشتر میڈیکل یونیورسٹی ملتان کی طالبہ مریم اسلم خان ایک بدترین ٹریفک حادثے کا شکار ہوکر اپنی زندگی کی بازی ہار گئی۔ مریم ایم بی بی ایس تھرڈ ایئر کی طالبہ تھی کہ صبح یونیورسٹی جاتے ہوئے ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی ٹریکٹر ٹرالی اور رکشہ کے حادثے کا شکار ہوگئی۔ پاکستان کی ہونہار بیٹی مریم کو اچھے نمبروں کے باعث کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور میں داخلہ ملا بیٹی کو اپنی والدہ کی تنہائی برداشت نہ ہوسکی اور پھر اس نے نشتر میڈیکل یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ یاد رہے کہ مریم کی والدہ چونکہ جامعہ زکریا شعبہ ایجوکیشن میں پروفیسر ہیں ۔ مریم کی موت کو کسی صورت ایک معمول کا حادثہ قراردے کر نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے لیکن جب امیر شہر اپنی ذمہ داریوں سے نظریں چرائیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں بشمول ٹریفک وارڈنز اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کی بجائے چالان کے ٹارگٹس پورے کرنے لگیں تو پھر اس طرح کے واقعات معمول کی کارروائی بن جاتے ہیں۔ میں بحیثیت شہری امیر شہر سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ وہ کیونکر اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔صبح جب سکول، کالجز اور دفاتر کا آغاز ہوتا ہے تواس وقت ٹریکٹر ٹرالیوں کی ملتان کی گلی نما سڑکوں پر روانی سے ٹریفک کا جام ہونا معمول ہے۔
مریم کی موت کو محض ایک ٹریفک حادثہ قرار دینا کسی طور پر درست طرز عمل نہیں ہوگا کیونکہ اگر اب بھی ملتان کی ٹریفک کا قبلہ درست کرنے کے لئے اقدامات کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو نتائج انتہائی سنگین اور خوفناک صورت اختیار کرسکتے ہیں۔ بلاشبہ ملتان کی آبادی میں پچھلی دو دہائیوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے جس کے باعث ملتان شہر جس کی سڑکیں پہلے ہی آبادی کے لحاظ سے ناکافی ہیں اب تو محض گلیوں کی صورت اختیار کرچکی ہیں۔ اگر میں یہاں ملتان کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر بات کروں تو شاید قلم کی سیاہی خشک ہوجائے لیکن بات ختم نہیں ہوگی۔ اب شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب ملتان کی خونی سڑکوں پر کوئی حادثہ رونما نہ ہوتا ہو۔ مسلم لیگ (ن) نے یہاں پر میٹرو چلانا تو انتہائی ضروری سمجھا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ اس اہم نکتہ کی طرف توجہ نہیں دی کہ کیا ملتان کی خستہ حال اور تنگ سڑکیں میٹرو کی متحمل ہوپائیں گی یا نہیں۔ ملتان کی مصروف ترین بوسن روڈ ہو، خانیوال یا پھر معصوم شاہ روڈ، سب کی حالت پہلے ہی انتہائی پتلی ہے۔ معصوم شاہ روڈ پچھلے کئی مہینوں سے ادھڑا پڑا ہے مجال ہے کہ ملتان انتظامیہ کو اتنی زحمت ہوئی ہو وہ کئی مہینوں سے ادھڑی سڑکوں کی مرمت کی طرف توجہ دے۔ابھی چند ہفتے قبل ملتان میں خدا خدا کرکے ایک بارش کیا ہوئی کہ پورا شہر ہی اس میں ڈوب گیا۔ سڑکیں جو پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں ایسے میں جگہ جگہ بڑے بڑے گڑھے ہونے کے باعث عوام کی زندگیاں مشکل کا شکار ہوکر رہ گئیں۔ گیلانی دور میں ملتان میں فلائی اوورز کے نام پر پلیاں تو ضرور بنیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ ان پلیوں کو بناتے وقت پانی کے نکاس کی ضرورت کو محسوس ہی نہیں کیا گیا یہی وجہ ہے کہ بارش کے بعد آدھا ملتان تو ویسے ہی ڈوب جاتا ہے بالخصوص رشید آباد فلائی اوور کی تو حالت ہی انتہائی خراب ہوجاتی ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ یہ فلائی اوور تو شہر کو واضح طور پر بارش کے بعد دو حصوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ عیدگاہ سے لے کر چوک کمہارانوالہ تک ٹریفک کا خانیوال روڈ پر جام رہنا تو معمول کی کارروائی ہے اور وہ سفر جو 15منٹ میں طے ہوجانا چاہیے اب وہ 40سے 45منٹ میں طے ہوتا ہے۔ ایک تو ملتان کی سڑکیں پہلے ہی ہمارے حکمرانوں کے دماغوں کی طرح تنگ ہیں اوپر سے ہیوی ٹریفک جس میں ٹریکٹر ٹرالیاں، ٹرک اور دیگر ہیوی ٹریفک بلاروک ٹوک دفتری اور سکولوں کے اوقات میں گزرنے سے زندگی مزید سخت ہوکر رہ جاتی ہے۔ ہیوی ٹریفک کے شہرمیں سے گزرنے کے لئے وقت مقرر ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ شہر میں ہر وقت ہیوی ٹریفک گزرتی ہے جس کے با عث ٹریفک جام ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔
کچھ عرصہ قبل ٹریفک وارڈنز نامی فورس کا قیام ٹریفک کی روانی کو بہتر بنانے کے لئے عمل میں لایا گیا تھا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ یہ پڑھے لکھے نوجوان بھی پولیس کے رنگ میں رنگے گئے اور آج ان کی توجہ اگر کسی بات پر ہے تو وہ صرف اور صرف چالان ٹارگٹ کو مکمل کرنا ہے اسی لئے تو جابجا ٹریفک وارڈنز کھڑے نظر تو آتے ہیں لیکن وہ زیادہ تر موبائل استعمال کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ اگر ٹریکٹر ٹرالی سکول، کالج اور دفتری اوقات میں شہر کی سب سے زیادہ رش والی سڑکوں پر آئے گی تو ٹریفک حادثات ہونگے لیکن یہ سب کچھ روکا نہیں جاسکتا۔ آخر کب تک اور کتنی مریم اپنی زندگی کی بازی ہارتی رہیں گی اور کب تک ایک ماں کی گود اجڑتی رہے گی۔
آج اگر پروفیسر ارم کی گود اجڑی ہے تو اس کا ذمہ دار درحقیقت امیر شہر ہے جو اپنے فرائض منصبی پر دھیان نہیں دے رہا۔ اگرچہ رکشہ ڈرائیور کی تیزرفتاری اور جلد بازی نے بھی اس حادثے میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا ہے لیکن جب ٹریفک ڈیوٹی پر متعین افسران اپنے فرائض انجام نہیں دیں گے تو ایسے واقعات کوئی بڑی بات محسوس نہیں ہوتی جس کےباعث عوام کا یہ مطالبہ بھی کچھ غلط نہیں کہ اگر ٹریفک وارڈنز ٹریفک کے بہائو کو کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں اور ملتان کے شہریوں نے منٹوں کا سفر گھنٹوں میں کرنا ہے اور ایسے ہی ایک ماں کی مریم نے ٹریفک حادثے میں مرنا ہے اور اس قوم نے ایک ہونہار بیٹی اور اعلیٰ پائے کی ڈاکٹر سے محروم ہونا ہے تو پھرا یسے ادارے کو قومی خزانے پر بوجھ بنانے کی بجائے اسے بند ہی کردینا چاہیے کیونکہ اگر اس ادارے نے اپنے فرائض منصبی ایمانداری سے ادا کرنے کی بجائے قومی خزانے کا ضیاع کرنا ہے تو ایک ایسا ملک جہاں کی عوام کو 9.2فیصد کے حساب سے مہنگائی کا عذاب بھگتنا پڑرہا ہو اور جہاں شرح نمو 4فیصد تک پہنچ گئی ہو تو بہتر یہی ہوگا کہ اس ادارے کو بند کرکے اس کا بجٹ مہنگائی کو کنٹرول کرنے صرف کیا جائے کہ چلو عوام کو کسی طور ہی سہی مہنگائی سے تو نجات ملے۔
میں ذاتی طور پر پروفیسر ارم کو جانتی ہوں وہ ایک انتہائی شفیق خاتون ہیں اور اپنے سٹوڈنٹس سے اتنی محبت کرتی ہیں جوکہ ایک بہترین استاد کی نشانی ہے۔ آج کل کے دور میں ایسا استاد ملنا بڑا مشکل ہے۔ یہ بی زیڈ یو کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے پاس پروفیسر ارم کی شکل میں ایک گوہر نایاب موجود ہے جس پر جتنا فخر کرے وہ کم ہے مگر میں تکلیف میں ہوں کہ ایک ماں جو اپنی مریم پر جان نچھاور کرتی تھیں اس ماں کے کلیجے کو کیسے سکون اور چین آئے گا۔ بحیثیت مسلمان پروفیسر ارم اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ موت برحق ہے لیکن ان کی یہ خواہش کہ ان جیسی دوسری مائوں کی مریم محفوظ رہے اور وہ کسی ٹریفک حادثے کا شکار نہ ہو، کسی طور بھی غلط نہیں۔ مریم کی موت کے ذمہ دار امیر شہر ہیں جو اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ مریم اپنے رب کے پاس چلی گئی۔ بے شک ہم سب کو اسی کے پاس جانا ہے لیکن مریم کے خون سے کس کے ہاتھ رنگے ہیں اس بارے ارباب اختیار کو ضرور سوچنا چاہیے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ملتان کی گلی نما سڑکوں کو آبادی اور ٹریفک کے بہائو کے مطابق پہلی فرصت میں کشادہ کرنے کی تیاریاں کی جائیں اور ہیوی ٹریفک کے دن کے وقت شہر میں داخلے پر مکمل طور پر پابندی عائد کی جائے اسی طرح تیزرفتاری پر چالان کے ساتھ کچھ عرصے کے بعد لازم و ملزوم کروانے کے لئے قانون سازی کی جائے۔ اسی طرح رکشہ والوں کو بھی اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ چند لمحوں کے چکر میں لوگوں کی زندگیوں کو کسی صورت دائو پر لگانے کا حق نہیں رکھتے۔ اور اب ٹریفک وارڈنز چاہتے ہیں کہ عوام ان کے لئے اچھے جذبات رکھیں۔ جیسا کہ میں ٓذاتی طور پر سمجھتی ہوں کہ سخت ترین گرمی اور سردی کے دنوں میں موسم کی سختی کو برداشت کرنا کوئی معمولی بات نہیں اور ہمارے کئی ٹریفک وارڈنز اپنے فرائض دلجمعی سے ادا کررہے ہیں لیکن بات شعبے کی عزت پر آئے تو فرائض منصبی کو ایمانداری کے ساتھ ادا کرنے کو اپنی پہلی ترجیح سمجھنا چاہیے۔ ضروری ہے کہ امیر شہر ملتان کی ٹریفک کا مسئلہ ارباب اختیار کے سامنے نہ صرف اٹھائیں بلکہ اس کے حل کے لئے بھی سنجیدہ کوششیں کریں وگرنہ نہ صرف حادثات کو روکنا آنے والے دنوں میں انتہائی مشکل ہوجائے گا بلکہ اس کی تمام تر ذمہ داری ملتان انتظامیہ پر ہی عائد ہوگی۔ اس سے پہلے حالات کسی تلخی کو جنم دیں، حقائق کا جائزہ لینا بے حد ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر