سمیرا راجپوت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دکھانے’ کی طرف گامزن ہیں، اسی کی ایک کڑی 2020 میں لاگو کیے جانے والے سوشل میڈیا قوانین اور چند قوانین میں کی جانے والی تبدیلی ہے۔ یہ قوانین گزشتہ برس اٹھائیس جنوری کو وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا کی نگرانی کے لیے متعارف کروائے تھے، ان کا ایک مقصد سیکیورٹی اداروں اور ملکی سلامتی کے خلاف اور مذہبی منافرت پھیلانے والے مواد کو کنٹرول کرنا بھی تھا۔ ان قوانین پر جہاں بہت سے اعتراضات اٹھائے گئے وہیں ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ ان قوانین کے تحت ناصرف پاکستان میں ہومیو پیتھک صحافت یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے بلکہ عام صارفین بھی ان قوانین کی تبدیلی سے متاثر ہوں گے۔ صحافیوں کے لیے سنسر شپ قوانین نئے نہیں لیکن نئے لاگو کیے جانے والے یہ قوانین پاکستان کی معیشت کے لیے بھی خطرہ قرار دیے گئے کہ موجودہ حکومت نے ڈیجیٹل معیشت کو مستحکم کرنے کے وعدوں سے بھی یو ٹرن لے لیا ہے۔
پاکستان کی موجودہ حکومت اور بااختیارادارے مثبت رپورٹ مانگنے سے لیکر ‘سب اچھا ہو یا نہیں لیکن سب اچھا دکھانے’ کی طرف گامزن ہیں، اسی کی ایک کڑی 2020 میں لاگو کیے جانے والے سوشل میڈیا قوانین اور چند قوانین میں کی جانے والی تبدیلی ہے۔ یہ قوانین گزشتہ برس اٹھائیس جنوری کو وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا کی نگرانی کے لیے متعارف کروائے تھے، ان کا ایک مقصد سیکیورٹی اداروں اور ملکی سلامتی کے خلاف اور مذہبی منافرت پھیلانے والے مواد کو کنٹرول کرنا بھی تھا۔ ان قوانین پر جہاں بہت سے اعتراضات اٹھائے گئے وہیں ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ ان قوانین کے تحت ایسی صحافت یقینی بنانے کی کوشیش کی گئی ہے جس کا ہونا یا نا ہونا ایک جیسا ہی ہو۔ صحافیوں کے لیے سنسر شپ قوانین نئے نہیں لیکن نئے لاگو کیے جانے والے یہ قوانین پاکستان کی معیشت کے لیے بھی خطرہ قرار دیے گئے اور یہ اعتراض بھی اٹھایا گیا کہ موجودہ حکومت نے ڈیجیٹل معیشت کو مستحکم کرنے کے وعدوں سے بھی یو ٹرن لے لیا ہے۔
سوشل میڈیا قوانین آخر تھے کیا ؟
18 نومبر کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے نوٹی فکیشن جاری کیا گیا جس کے مطابق پاکستان کے وقار، سلامتی، دفاع، وفاقی وصوبائی حکومت، سوشل میڈیا پر توہینِ مذہب، مذہبی منافرت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، انٹیلی جنس ایجنسیز، سیاست دانوں، ثقافتی اور اخلاقی اقدار کے خلاف، نظریاتی اساس اور ثقافتی اقدار کے خلاف مواد بلاک کرنے کے لیے متعلقہ کمپنیوں کو پابند کیا گیا ہے۔
اس فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں متعلقہ سوشل میڈیا کمپنی یا ویب سائٹ کو مکمل طور پر بلاک کر دیا جائے گا۔
حکومتی مؤقف کے مطابق اس فیصلے سے آزادیٔ اظہارِ رائے پر کوئی قدغن نہیں لگے گی۔
رولز کا إطلاق ہونے کے 9 ماہ کے اندر اندر 5 لاکھ سے زائد صارفین رکھنے والے سروس پرووائیڈرز اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو پی ٹی اے کے ساتھ رجسٹرڈ ہونے اور پاکستان میں رجسٹرڈ دفتر قائم کرنا لازم قرار دیا گیا۔
یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر، ٹک ٹاک، گوگل پلس، لنکڈ ان سمیت سوشل میڈیا یا کسی بھی ویب سائٹ پر ہتک آمیز، گستاخانہ مواد، نازیبا تصویر شائع کرنے پر پی ٹی اے کو شکایت درج کرائی جا سکے گی۔
پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 292,293 ,294 اور 509 کے تحت غیر اخلاقی مواد پر پابندی عائد کی جا سکے گی اور غلط معلومات کی تشہیر کو بھی روکا جائے گا۔
آن لائن مواد کے خلاف کوئی بھی شخص شکایات درج کرا سکے گا۔ اتھارٹی کی جانب سے شکایت کنندہ کی حفاظت کے پیشِ نظر اس کی شناخت کو صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔ اس شکایت کو اتھارٹی کی جانب سے 30 دن کے اندر نمٹایا جائے گا۔
اتھارٹی فیصلہ جاری کرنے سے پہلے انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر، سوشل میڈیا کمپنی، ویب سائٹ مالک کو مواد ہٹانے کے لیے 24 گھنٹے کا وقت دے گی۔
ایمرجنسی کی صورت میں چھ گھنٹے میں آن لائن مواد کو ہٹانے کا حکم دیا جا سکے گا۔
انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر، سوشل میڈیا کمپنی، ویب سائٹ مالک کی جانب سے غیر قانونی مواد کو نہ ہٹانے کی صورت میں پی ٹی اے کی جانب سے اُن کے خلاف کارروائی کی جا سکے گی۔
سوشل میڈیا سے متعلق شکایت ملنے کی صورت میں پی ٹی اے ماہرین کی رائے حاصل کر سکے گا۔ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر، سوشل میڈیا کمپنی، ویب سائٹ مالک کی جانب سے معلومات تک رسائی کے حوالے سے گائیڈ لائن شائع کی جائے گی۔
سوشل میڈیا کمپنیوں کے اعتراضات
سول آزادای کو حکومت سپورٹ کرے یا نہ کرے لیکن کم سے کم معیشت کو مستحکم کرنے والے بیان پر تو سوشل میڈیا صارفین اور حکومت ایک پیج پر ہیں لیکن ان قوانین کے تحت تو حکومت خود اپنے ہی بیان پر قائم نظر نہیں آرہی جس کا اندازہ ایشیا انٹرنٹ کوئیلیشن کی وارننگ سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ ان قواعد کے نفاذ پر سوشل میڈیا کمپنیوں کو نوٹس بھی جاری کیے گئے جس پر ایشیا میں نمائندہ تنظیم ایشیا انٹرنیٹ کولیشن (اے آئی سی) جو انٹرنیٹ کی بڑی کمپنیوں فیس بک، ٹوئٹر، لنکڈ ان سمیت دیگر کئی کمپنیوں پر مشتمل ہے اور ایشیا میں انٹرنیٹ پالیسیوں پر گہری نظر رکھتی ہے، نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ تنظیم نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ پاکستان میں نئے قواعد کی موجودگی میں کام جاری رکھنا مشکل ہوگا۔ انہوں نے ان قوانین کو ‘کالا قانون قرار’ دیتے ہوئے یہ بیان جاری کیا کہ ان قوانین کے لاگو ہونے سے پاکستان کی انٹرنیٹ معیشت بہت پیچھے رہ جائے گی۔
سوشل میڈیا رولز پر عدالتی کاروائی
ان رولز کے خلاف سول سوسائٹی اور پاکستان بار کونسل کی جرنلسٹ ڈیفنس درخواست دائر کی تھی۔ جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پی ٹی اے نے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بجائے از خود رولز بنا کر عدالت میں پیش کیے جو آئین سے متصادم ہیں انہیں فی الفور ختم کیا جائے۔
ان رولز کے خلاف سول سوسائٹی اور پاکستان بار کونسل کی جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی نے درخواست دائر کی تھی۔ جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پی ٹی اے نے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بجائے از خود رولز بنا کر عدالت میں پیش کیے جو آئین سے متصادم ہیں لہذا انہیں فی الفور ختم کیا جائے۔
ان ہی رولز پر دوران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالتی فیصلوں پر بھی تنقید ہو سکتی ہے صرف فیئر ٹرائل متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ جب عدالتی فیصلے پبلک ہو جائیں تو تنقید پر توہین عدالت بھی نہیں بنتی۔ جمہوریت کے لیے تنقید بہت ضروری ہے، اکیسویں صدی میں تنقید بند کریں گے تو نقصان ہو گا۔
سماعت کے دوران عدالت نے پی ٹی اے سے جواب طلب کرلیا۔ پیر پچیس جنوری کو وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے بنائے گئے رولز پر نظر ثانی کی ہامی بھرنے کے فیصلے سے عدالت کو آگاہ کر دیا ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں سوشل میڈیا رولز کے خلاف دائر درخواست کی سماعت ہوئی۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ’حکومت سوشل میڈیا رولز پر نظر ثانی کرنے کو تیار ہے اور اس سلسلے میں پٹیشنرز اور متعلقہ سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد نظر ثانی کی جائے گی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ بنیادی حقوق سے متعلق ہے اور لگتا ہے کہ سوشل میڈیا رولز بناتے ہوئے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت نہیں کی گئی۔
سوشل میڈیا قوانین پر نظر ثانی کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل
اسلام آباد ہائی کورٹ میں وفاقی حکومت کی جانب سے رولز پر نظر ثانی کی یقین دہانی کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان کی تجویز پر سوشل میڈیا سے متعلق قوانین وضع کرنے کے لیے وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی سربراہی میں 5 رکنی کمیٹی تشکیل دی۔ اٹارنی جنرل آفس سے جاری اعلانیے کے مطابق حکومتی کمیٹی کی چیئر پرسن وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری ہوں گی جبکہ کمیٹی میں پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون ملیکہ بخاری، سینیٹر بیرسٹر علی ظفر، سیکرٹری وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اور دیگر ممبران شامل تھے۔
کمیٹی کی سربراہ شیریں مزاری نے انیس اپریل کو ٹویٹ کیا کہ “ہم نے تمام اسٹیک ہولڈرز ، وکلاء ، پٹیشنرز اور سوشل میڈیا مالکان سے چار مسلسل میٹینگز کے بعد مشاورت مکمل کرلی ہیں اب کمیٹی اپنی سفارشات پندرہ دن کے اندر جمع کروا دے گی”۔
کیا یہ سفارشات جمع کرادی گئی ہیں اور ان میں کیا مجوزہ تبدیلیاں کی گئی ہیں جب اس سلسلے میں ہم نے کمیٹی کی سربراہ شیریں مزاری ، پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون ملیکہ بخاری، سینیٹر بیرسٹر علی ظفر سے رابطہ کیا توباہمی رابطے کے باوجود وہ اس پر جواب دینے سے قاصر نظر آئے۔ جبکہ مجوزہ[4] تبدیلی کے ساتھ نئے قوائد پی ٹی اے کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے جاچکے ہیں۔
ترمیم شدہ قواعد میں اعتراضات کے برعکس بہت معمولی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
ترمیم شدہ ورژن جو اپ لوڈ کیا گیا اس میں یہ بات باور کروائی گئی ہے کہ ان قوانین کو الیکٹرانک جرائم کی روک تھام ایکٹ پیکا 2016 کے سیکشن 37
کے ذیلی سیکشن 37(2) میں دیے گئے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے منظور کیا گیا ہے۔
یہ قواعد پی ایف یو جے کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کو بھی حل کرتا ہے جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ یہ قواعد پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور وزارت آئی ٹی کو دیے گئے قانونی اختیارات سے تجاوز ہیں۔
نئے قوانین میں “کمیونٹی گائیڈ لائنز” کی تعریف تبدیل کر دی گئی ہے۔اس تعریف میں کسی بھی انفارمیشن سسٹم، ویب سائٹس اور ویب سرور کے مالکان کو خارج کر دیا گیا ہے جبکہ سوشل میڈیا کمپنیاں اور سروس پرووائیڈر اب بھی تعریف میں شامل ہیں۔
ایک اور تبدیلی لفظ شکایت کنندہ کی ہے۔ جس میں اب وزارت ڈویژن، منسلک محکمے ، سب آرڈینیٹ آفس، صوبائی یا مقامی ادارے، محکمہ یا دفاتر ، حکومتی یا قانون نافذ کرنے والے ادارے یا خفیہ ایجنسی، یا حکومت کی کنٹرول والی ملکیت یا کمپنیاں اب اس تعریف میں شامل ہیں۔
سوشل میڈیا یا سوشل نیٹ ورک کی تعریف کو بھی مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا ہے تاکہ اسے زیادہ وسیع پیمانے پر لاگو کیا جاسکے۔اس سے پہلے اس میں مخصوص پلیٹ فارمز جیسا کہ فیس بک، ٹک ٹاک، ریڈیٹ اور ٹویٹر شامل تھے۔
پاکستان کی سالمیت، سلامتی اور دفاع کو صرف پاکستان کی سلامتی میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ جو کہ آئین کے آرٹیکل 260 کے تحت دئیے گئے معنی کو پورا کرے گا۔ پاکستان کی سالمیت اور دفاع کو بھی اب الگ سے بیان کیا گیا ہے۔
سیکشن 6 (2) کے تحت سوشل میڈیا قوانین کا تازہ ترین مسودہ کسی ادارے کو حکم کی تعمیل کے لیے دیے گئے وقت میں بھی توسیع کرتا ہے۔ اس وقت کو سوشل میڈیا رولز 2020 میں دیے گئے 24 گھنٹوں سے بڑھا کر 48 گھنٹے کردیا گیا ہے۔ ایمرجنسی کی صورت میں اتھارٹی کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ایمرجنسی کی وجوہات تحریری طور پر بیان کرے۔
حکومتی اراکین اور یوٹیوبرز کا ردعمل
سابق معاون خصوصی برائے میڈیا افتخار درانی سے جب ہم نے ان قوانین پر بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ “حکومت کی جانب سے ہر شخص کو آزادی اظہار رائے کا حق حاصل ہے اور رہے گا حکومت یہ چاہتی ہے کہ کوئی بھی ایسا مواد جو صارفین کے لیے خطرہ ہو اسے ہٹانے کے لیے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے دفاتر پاکستان میں موجود ہوں جیسا کہ آپ نے حالیہ ٹک ٹاک والے ایشو پر پاکستان میں ٹک ٹاک کا کوئی نمائندہ ہی موجود نہیں تھا تو ہمیں ان اداروں کی موجودگی اس لیے بھی درکار ہے جو ناصرف نا مناسب مواد کو حکومت کے ساتھ مل کر مانیٹر کریں بلکہ اسے ریگولیٹ کرنے میں ہمارا ساتھ دیں تاکہ ہم سیٹیزنز رائٹ آف پرائوسی کو بھی یقینی بنائیں”۔
سنسر شپ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “سنسرشپ ایک فیشن ایبل ٹرم ہے پاکستان میں جتنا آزادی اظہار رائے ہے اتنا تو ویسٹ میں بھی نہیں ہے۔ہم ذمہ دار صحافت چاہتے ہیں جس میں اگر کسی شخص/ادارے کے بارے میں خبر لگائی جارہی ہے تو اس کا موقف بھی لیا جائے ایسے مواد پر حکومت کو بھلا کیا اعتراض ہوگا”۔
سمیرا لطیف جو کہ ایک صحافی ہیں اور ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ “میں صرف جرنلسٹ نہیں انٹرپرینوریل جرنلسٹ ہوں۔ میں نے اپنے یوٹیوب چینل کو مونیٹائز کرنے کے لیے بہت محنت کی ہے میں صرف کانٹینٹ ہی شوٹ نہیں کرتی بلکہ مختلف برانڈز کے ساتھ بھی اشتراک کرتی ہوں تاکہ کچھ کما سکوں۔ یوٹیوب پر کونٹینٹ بنانا اتنا آسان کام نہیں میں اسے 9 سے 5 جاب کی طرح کرتی ہوں۔ اپنے یوٹیوب چینل کے لیے اس طرح کی پلاننگ کرنی پڑتی ہے کہ لوگ ہم سے رابطہ کریں اور ہم بزنس کر سکیں”۔
سمیرا کہتی ہیں کہ “اگر میرا آپ لوڈ کیا گیا مواد میری مرضی کے بغیر ہٹایا جائے تو مجھے تکلیف ہوگی کیوں کہ بطور صحافی میں آزادی اظہار رائے کے قائل ہوں۔ اگر ہم مواد ہٹنے کی ڈر سے سیلف سینسرشپ اختیار کریں گے تو جمہوریت کا وہ حسن ہی ختم ہوجائے گا جس میں عوام کو آگاہی کا حق حاصل ہے۔ اب اگرمیں ایک ذمہ دار صحافی ہونے کے ناطے حکومت کی کوئی نا اہلی بھانپتے ہوئے ویڈیو بناوں، سوشل میڈیا پر پوسٹ بھی کردوں اور وہ لاکھوں سوشل میڈیا صارفین تک پہنچ ہی جائے تو حکومت یہ جواز رکھتی ہے کہ وہ اس ویڈیو کو فوری طور پر ہٹوا دے کیوں اور کیسے ہٹائی گئی اس کا جواب آپ کو حکومت نہیں دے گی اور ہاں اگر آپ کو جواب چاہیے ہوا تو آپ عدالت کا رخ کریں”۔
سمیرا کہتی ہیں کہ “ان یوٹیوب چینلز کو بنانے میں ہم یوٹیوبرز محنت کرتے ہیں اور میڈیا بحران کی وجہ سے ہم جیسے نئے ابھرنے والے صحافیوں کے پاس کمانے کا آخری ذریعہ صرف یہی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہیں اس طرح کے قوانین سے ہماری حوصلہ شکنی ہوگی”۔
آمنہ احسن جو کہ یوٹیوبر ہیں ان کا یوٹیوب چینل ان کی ذاتی رائے اور بک ریویوز پر مشتمل ہے۔ آمنہ کہتی ہیں کہ “میں نے بک ریویوز جیسا ٹاپک چنا جس پر مجھے یوٹیوب اور ویوورز کی جانب سے بہت ٹف ٹائم ملا کیوں کہ لٹریچر پر پاکستان میں بہت کم کام ہوا اور لوگوں کا رجحان بھی کم ہیں اس لیے مجھے کافی مشکل ہوئی”۔
آمنہ کہتی ہیں کہ “اگر آپ کا ایسا مواد جو آپ کی نظر میں غلط نہیں اسے ہٹایا جائے تو آپ کو تکلیف ہوتی ہے۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ہاں ایسی پالیسیز بننی چاہیے جو محنت کرنے والوں کو آگے لے جاسکیں۔ اس وقت جب پوری دنیا انٹرنیٹ کے ذریعے بزنس کر رہی ہے کڑوڑں کمپنیزاور سیلف اسٹارٹ اپ گھر بیٹھے اپنی مصنوعات لوگوں تک پہنچا کر منافع کما رہے ہیں۔ کروڑوں انٹرنیٹ صارفین سوشل میڈیا سائٹس پر جدید مواد اپ لوڈ کر کے روزگار کما رہے ہیں ان سائٹس کے بند ہونے سے وہ تمام لوگ واپس پتھر کے زمانے کے مطابق کاروبار کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ جس کی ایک مثال وہ لوگ ہیں جو حال ہی میں بیروزگار ہوئے یاکرونا وباء کے باعث گھروں میں بیٹھ گئے تو ان سب نے سوشل میڈیا سائٹس کو ہی اپنا ذریعہ معاش بنایا ڈیجیٹل سائیٹس بند ہونے پر حکومت کے پاس ان کے لیےذریعہ آمدن فراہم کرنے کا متبادل کیا ہے جس کا جواب بیروزگاری کے سوا کچھ نہیں”۔
سوشل میڈیا سائٹس آخر اپنا بزنس بند کیوں کریں گی؟ ترمیم شدہ قوانین کے مطابق اگر سوشل میڈیا کمپنی کسی مواد کو اڑتالیس گھنٹے میں نہیں ہٹاتی تو ریگیولیٹری ادارہ اس سائٹ کے پورے سسٹم کو ہی بند کردے گا۔ مثال کے طور پر اگر یو ٹیوب کسی مواد کو نہیں ہٹاتا تو ریگیولیٹری ادارہ گوگل کی تمام سروسز ہی بلاک کر دے گا جس سے ڈیجیٹل معیشت کو کڑوڑں کانقصان ہوگا۔عام صارفین یہ نقصان کیوں برداشت کریں گے کیوں کہ حکومت کو مثال کے طور پر پی ڈی ایم کا جلسہ ہضم نہیں ہوا اور یو ٹیوب نے وہ مواد نہیں ہٹایا اور بدلے میں حکومت نے سارا سسٹم ہی بند کردیا لیکن سماجی رابطے کی سائٹس یہ نقصان کسی صورت برداشت نہیں کریں گی۔اس قسم کے سنسرشپ قوانین حکومت یا حکومتی اداروں کو مستحکم کریں یا نہ کریں پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت کو غیر مستحکم ضرورکردیں گے۔
بشکریہ : ہمارا انٹرنیٹ ڈاٹ او آرجی
یہ بھی پڑھیں
حیات بلوچ کی ماں کے بے بس آنسو ۔۔۔سمیرا راجپوت
پاکستان میں میریٹل ریپ سے متعلق قانون ۔۔۔سمیرا راجپوت
وزیرستان کی خاتون چھاتی کے کینسر سے جنگ جیت گئی ۔۔۔سمیرا راجپوت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر