مظہر اقبال کھوکھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ہاں سیاست میں نعرے ہوتے ہیں یا پھر نعروں پر سیاست ہوتی ہے۔ کبھی قرض اتارو ملک سنوارو کا نعرہ ، کبھی سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ ، کبھی روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ ، کبھی روشن پاکستان کا نعرہ، کبھی تعلیم صحت اور روزگار کا نعرہ اور ان سب کے ساتھ ساتھ احتساب کا نعرہ۔ احتساب کا نعرہ ایک ایسا نعرہ ہے جو ہر حکومت اقتدار میں آنے سے پہلے بھر پور انداز میں لگاتی ہے اور اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے اسے فراموش کردیتی ہے۔ حالانکہ نعرے اور حقیقت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا مگر بدقسمتی سے پاکستانی قوم آج تک اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکی یہی وجہ کہ وہ ہر نعرے کو حقیقت سمجھ کر اس پر اندھا دھند یقین کر لیتی ہے اور ہر حقیقت کو نعرہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتی ہے یہی وجہ ہے حکمرانوں نے گزشتہ 70 سالوں سے نعروں میں الجھا کر قوم کو حقیقت سے دور کر رکھا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حکومتیں بننے سے حکومتیں ٹوٹنے تک ، پارٹیاں بکھرنے سے پارٹیوں کی تخلیق تک ، پالیسیاں بننے سے ان پر عمل درآمد تک ، حکومتوں کے لیے انتخابات سے حکمرانوں کے انتخاب تک نہ تو جمہور کا کوئی کردار ہے نہ جمہوریت کا کوئی عمل دخل۔ ایسے میں وہ لوگ کیا خاک احتساب کریں گے جو خود قابل احتساب ہوں۔ جنرل مشرف نے احتساب کا نعرہ لگایا تو پوری قوم مشرف کے ساتھ کھڑی ہوگئی مگر جب اقتدار کی ہوس نے آئین قانون اخلاقیات اصول اور احتساب کو پاؤں تلے روندا تو وہ تمام مبینہ چور لٹیرے ایوان صدر میں موجود تھے جنہیں جیل میں ہونا چاہئے تھا یہی تو المیہ ہے کہ یہ قوم 70 سالوں سے ہر نعرے کے پیچھے چل پڑتی ہے مگر جب وقت گزرتا ہے تو معلوم پڑتا ہے کہ قوم وہیں کی وہیں کھڑی ہے جہاں سے چلی تھی یہ مفادات کا چکر ہی ہے جس میں ہمیشہ اس قوم کے ساتھ چکر چلا کر حکمران اپنا وقت پورا کرتے ہیں اور اس ملک اور قوم کا وقت ضائع کرتے ہیں۔
چور چور کی کہانی پاکستان مسّلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے شروع کی جو طویل عرصہ اقتدار میں رہنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی شدید ترین حریف بھی رہی ہیں تاہم وقت نہ انہیں ساتھ تو ملایا مگر آج بھی ان کی آنکھ مچولی جاری ہے مسلم لیگ نے ہمیشہ احتساب کے بڑے بڑے دعوے کئے مخالفین پر مقدمات بنے سیاسی حریفوں کو جیل ہوئیں احتساب کمیشن بھی بنایا گیا مگر حاصل وصول کچھ بھی نہیں ہوا پیپلز پارٹی کی قیادت تمام مقدمات میں بری ہوگئی۔ مگر اس حقیقت کو تو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ کرپشن اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے اور آج بھی ہے ہر دور میں پڑے پیمانے پر کرپشن ہوتی رہی ہے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمران اور ان کے حواری قومی دولت کو شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کرتے رہے اور قومی خزانے کو لوٹ کر بیرون ممالک میں دولتوں کے انبار لگائے گئے مگر احتساب ہمیشہ نعروں میں رہا۔
2018 کی انتخابی مہم اور اس قبل کنٹینر کے علاوہ اپنے ہر جلسے، خطاب اور پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ہمیشہ کڑے اور بے رحمانہ احتساب کے دعوے کرتے رہے ہیں اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے وعدے کرتے رہے ہیں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لوگوں نے ان پر اعتماد کیا کہ شاید تیسری قوت کے طور پر آنے والے عمران خان واقعی کڑے اور شفاف احتساب کی بنیاد ڈال کر قوم کو کرپشن کی لعنت سے بچا لیں مگر تین سال گزرنے کے باوجود آج جب احتساب کے حوالے سے موجودہ حکومت کی کارکردگی تلاش کرنے کی کوشش کریں تو احتساب بھی صرف اتنا ہی دکھائی دیتا ہے جتنا اس ملک میں تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ ملک کی لوٹی ہوئی دولت کتنی واپس لائی گئی اور کتنے بڑے چوروں کو سزا ہوئی یہ بات تو آج تک معلوم نہیں ہوسکی مگر وزیر اعظم آج بھی کہ رہے ہیں کہ یہ چوری بچانے کے لیے متحد ہوئے ہیں مجھ سے این آر او مانگ رہے ہیں میں انہیں کبھی این آر او نہیں دوں گا اچھی بات ہے این آر او نہیں دینا چاہئے مگر کرپشن کے کیسز میں کسی کو سزا تو ہونی چاہئے یہاں تو تمام مبینہ چور کمزور کیسز کی وجہ سے ضمانتوں پر رہا ہیں یا پھر بری ہوتے جارہے ہیں اور وزیر اعظم آج بھی کہ رہے ہیں کہ میں انہیں نہیں چھوڑوں گا۔
وطن عزیز میں کرپشن ختم نہ ہونے ، چوروں لٹیروں کو سزائیں نہ ہونے اور حقیقی طور احتساب نہ ہونے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے احتساب کے اداروں کو ہمیشہ مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف احتساب کا عمل مشکوک رہا بلکہ کمزور کیسز کی وجہ سے ہمیشہ ملزمان کو عدالتوں سے ریلیف ملتا رہا آج بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے پاکستان تحریک انصاف نے کرپشن کے خلاف اور احتساب کے حق میں جتنے مضبوط دعوے کئے تھے عدالتوں میں ان کے کیس اتنے ہی کمزور ثابت ہوئے۔ احتساب کا عمل اس وقت تک موثر ثابت نہیں ہوسکتا جب تک احتساب کی شفاف اور بلا امتیاز کارروائی کا آغاز نہیں کیا جائے گا پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو احتساب کے حوالے سے اپنی تین سال کی کارکردگی کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینا چاہئے کیونکہ کے اب تک کی صورتحال میں احتساب کا نعرہ محض نعرہ ہی رہا ہے اور یہ نعرہ اس وقت تک حقیقت میں تبدیل نہیں ہوسکتا جب تک اپنے پرائے سب احتساب کے شکنجے میں نہیں جکڑے جائیں گے اور عملی طور پر ملک کی لوٹی ہوئی دولت چوروں اور لٹیروں کے حلق سے نہیں نکالی جائے گی اب اگلے دو سال میں پاکستان تحریک انصاف کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اب بھی اگر حکومت احتساب کے عمل کو شفاف موثر اور غیر جانبدار بنانے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر احتساب کا آغاز نہ کر سکی تو پھر اسے یاد رکھنا چاہئے کہ ووٹ کی پرچی بھی تو احتساب کی پرچی ہے حکمران نہیں کریں گے تو پھر عوام تو کریں گے۔
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی