نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گلگت بلتستان پر منڈلاتے خطرات||حیدر جاوید سید

عصمت اللہ معاویہ کو قومی دھارے میں لانے کے لئے شریف برادران کی کاوشیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سابق وزیراعلیٰ حفظ الرحمن نے ہی شہباز شریف کے توسط سے بات آگے بڑھائی اور عصمت اللہ معاویہ کو معاف کرکے ’’قومی دھارے‘‘ میں شامل کیا گیا تھا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیدر جاوید سید
کیا اسے محض ایک اتفاق سمجھا جائے کہ افغان منظرنامے میں در آتی تبدیلیوں کی ’’ہوا‘‘ کے ساتھ ہمارے یہاں پوشیدہ ’’اثاثے‘‘ بھی کونوں کھدروں سے نکل کر حسب سابق سرگرم ہوتے دیکھائی دے رہے ہیں۔
’’اثاثوں‘‘ کی ایک سرگرمی تو وہی ہے کہ افغانستان میں جہاد شروع ہوچکا ہے۔ امریکہ شکست کھاکر بھاگ نکلا ہے۔ اسلامی لشکر غالب آرہا ہے۔ عنقریب اسلامی حکومت قائم ہوجائے گی۔ اس اسلامی حکومت کے حوالے سے ہمارے کامریڈ حضرت مولانا فضل الرحمن بھی بڑے ’’اتاولے‘‘ ہیں۔
چندوں اور افرادی قوت کا کاروبار کرنے والوں کے لئے کمائیوں کا موسم شروع ہوچکا۔ گرے لسٹ میں چونکہ ہمیں مزید ایک سال قیام کرنا ہے اس لئے ان سرگرمیوں سے چشم پوشی میں کوئی ’’برائی‘‘ بھی نہیں۔
ہمارے کچھ محب وطن دوست بھی ان دنوں بڑے جذباتی ہوئے تجزیے ٹھوک بجارہے ہیں ان پر پھر بات کریں گے۔
فی الوقت یہ کہ گلگت بلتستان میں چند سال قبل اس وقت کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کے پرجوش تعاون سے دو ساتھیوں سمیت جیل سے فرار ہونے والے طالبان کمانڈر حبیب الرحمن کچھ دن قبل 2019ء کا ایک ’’معاہدہ امن‘‘ ہاتھ میں پکڑے ضلع دیامر میں منعقد ہونے والے جرگہ میں نمودار ہوئے اور پرجوش تقریر پھڑکانے کے بعد ایک پریس کانفرنس بھی کرڈالی۔
کمانڈر حبیب الرحمن اور اس کے دو ساتھی 2015ء میں جیل سے فرار کروائے گئے تھے۔ اس کے فرار کے وقت بھی انگلیاں مسلم لیگ (ن) کے مقامی وزیراعلیٰ حفیظ الرحمن پر اٹھی تھیں۔ یہ فراری کمانڈر چیلاس میں مسافر بسوں سے شناختی کارڈ دیکھ کر اتارنے کے بعد قتل کئے گئے۔ 10افراد کے مقدمہ قتل سمیت، غیرملکی سیاحوں کے قتل کے مقدمہ میں بھی ملوث تھے۔ کہا یہی جاتا ہے کہ حبیب الرحمن، حافظ حفیظ الرحمن (سابق وزیراعلیٰ گلگت بلتستان) اور کالعدم و سابق پنجابی طالبان کے سابق امیر عصمت اللہ معاویہ تینوں ذاتی دوست اور فکری ہم خیال ہیں۔
عصمت اللہ معاویہ کو قومی دھارے میں لانے کے لئے شریف برادران کی کاوشیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سابق وزیراعلیٰ حفظ الرحمن نے ہی شہباز شریف کے توسط سے بات آگے بڑھائی اور عصمت اللہ معاویہ کو معاف کرکے ’’قومی دھارے‘‘ میں شامل کیا گیا تھا۔
2015ء میں جب کمانڈر حبیب الرحمن اپنے ساتھیوں سمیت گلگت کی ایک جیل سے فرار ہوا تو اس ’’کہانی‘‘ میں وزیراعلیٰ (اس وقت) حافظ حفیظ الرحمن کا اہم کردار تھا۔
اسے فرار کروانے میں مقصد حفیظ الرحمن کے سیاسی مخالفوں کو ’’کینڈے‘‘ میں رکھنا تھا اپنے دور اقتدار میں حافظ حفیظ الرحمن نے جیل سے فرار ہونے والے کمانڈروں کے حوالے سے تحقیقات میں خاطر خواہ دلچسپی نہ لی بلکہ اپنے مفرور دوست حبیب الرحمن کے ایما پر کالعدم تحریک طالبان کے ایک گروپ سے فروری 2019ء میں ایک ایسا معاہدہ کیا جس پر گلگت بلتستان کی آبادی کے دو بڑے طبقات کو تو اعتراض تھا ہی لیکن علاقے میں سرگرم عمل سیاسی جماعتوں نے بھی اسے مسترد کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ اس معاہدہ کا مقصد سرکاری طور پر عسکریت پسندوں کو ٹارگٹ کلنگ کے اختیارات دینا اور پاکستان سے گلگت آنے والی قومی شاہراہ کو مستقل طور پر عسکریت پسندوں کا اڈہ بنادینا ہے۔
گلگت بلتستان میں اب تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ 2015ء میں جیل سے فرار ہوا مفرور عسکریت پسند کمانڈر جولائی 2021ء میں تقریباً 6سال بعد منظرعام پر آیا اور آتے ہی ایک جرگہ کرنے کے ساتھ پریس کانفرنس بھی کردی۔
عسکریت پسندی سے متاثرہ علاقے میں مفرور کمانڈروں کا اچانک منظرعام پر آنا اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ گزشتہ روز بی بی سی نے اس پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی۔
دیامر اور گلگت کے صحافی اور دوسرے لوگ بھی حیرانی سے مفرور کمانڈروں کے منظرعام پر آنے کے بعد سوالات پوچھ رہے ہیں۔
اب یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ "زمین و آسمان” کو 6سال مفرور رہنے والے کمانڈر اور اس کے ساتھیوں کا کچھ پتہ نہیں تھا اور اب بھی وہ ’’بے خبر‘‘ تھے۔
اہم سوال یہ ہے کہ اس مفرور کمانڈر کا ایک ایسے وقت میں منظرعام پر آکر سرگرمیوں کا آغاز کرنا جب افغانستان میں طالبان کی فتوحات کے ڈنکے بجائے جارہے ہیں کیا معنی رکھتا ہے۔
ثانیاً یہ کہ ان سارے معاملات کے باوجود متعلقہ اداروں نے ابھی تک کوئی نوٹس کیوں نہیں لیا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں اور معمولی اختلافات پر غداری کے مقدمے درج کروانے والی گلگت بلتستان کی نوکر شاہی (بیوروکریسی) کیوں دم سادھے ہوئے ہے؟
مرحوم و مغفور نیشنل ایکشن پلان کے پسماندگان کس ٹھنڈے مقام پر سرگرمیاں گزار رہے ہیں؟
یہ سوال ایسے ہیں کہ ان کا جواب ضرور تلاش کیا جانا چاہیے اس طرح اس الزام کی بھی تحقیقات کروائی جانی چاہئیں کہ 2015ء میں جیل سے فرار ہونے والے کمانڈر اور اس کے ساتھیوں کو سابق وزیراعلیٰ حفیظ الرحمن نے اپنے اقتدار کے آخری دن تک بھرپور تحفظ فراہم کیا اور اس کے چند ساتھیوں کو گلگت بلتستان میں ٹھیکوں سے بھی نوازا۔
بہرطور اصل میں تو تحقیقات اس دیرینہ مطالبہ کی ہونی چاہئیں کہ درجنوں افراد کے قتل کے متعدد مقدمات میں نامزد ملزم اپنے ساتھیوں سمیت 2015ء میں جیل سے کیسے فرار ہونے میں کامیاب ہوا اور یہ کہ اس وقت کی حکومت نے فراریوں کو گرفتار کرنے کی بجائے ’’مٹی پاو‘‘ پروگرام پر کیوں عمل کیا۔
آخری بات یہ ہے کہ جیل سے بھاگے مفرور کمانڈر اور اس کے ساتھیوں کے منظرعام پر آنے اور جرگہ و پریس کانفرنس میں جدید اسلحہ کی نمائش سے پورے علاقے میں خوف و ہراس کی جو فضا پیدا ہوئی ہے اس کے تدارک کے لئے موثر اقدامات کس نے کرنا ہیں؟
سچ کہیں تو مجھے جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار کے آخری ایام کے وہ سیاہ دن مسلط ہوتے دیکھائی دے رہے ہیں جب ایک وفاقی وزیر قاسم شاہ کی قیادت میں لشکر جہاد کے لئے گلگت پہنچا تھا۔ خدا کرے اب ایسا نہ ہو مگر ضروری یہ کہ گلگت بلتستان حکومت اور وفاقی اداروں کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ دینا ہو گی۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author