حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغانستان کا بگرام ایبربیس خالی کرنے سے امریکی انخلا کا ایک حصہ مکمل ہوا۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کہتے ہیں ’’امریکی انخلا عجلت میں ہوا، نتائج ہمیں بھگتنا پڑیں گے‘‘۔ یہ بھی ارشاد ہوا کہ کوشش کررہے ہیں کہ تمام افغان دھڑے آپس میں بیٹھ کر مفاہمت کریں۔
‘‘ ادھر نوجوان پشتون دانشور گل رحمان ہمدرد نے ہمیں متوجہ کرتے ہوئے کہا ’’آپ لوگ افغان طالبان کو ایک دھڑا کیوں کہتے لکھتے ہیں وہ تو ریاست کے باغی ہیں‘‘۔
دوست محمد درانی نیوزی لینڈ میں مقیم افغان طالب علم ہیں۔ ان کے خاندان نے افغانستان پر طالبان کے اقتدار کے برسوں میں ہجرت کی سیکنڈری اور یونیورسٹی تعلیم پشاور سے حاصل کی۔ اب نیوزی لینڈ میں مقیم ہیں۔ گزشتہ شب ان کی ای میل موصول ہوئی۔ انہوں نے لکھا
’’سید صاحب افغان منظرنامے کے عنوان سے اب تک لکھی گئی اقساط پڑھ لی ہیں۔ سوشل میڈیا کا یہ فائدہ ضرور ہے کہ رابطے رہتے ہیں معلومات ملتی رہتی ہیں۔
میں اپنے زمانہ قیام پشاور کے برسوں سے آپ کو جانتا ہوں اب سوشل میڈیا کے توسط سے آپ کی تحریریں پڑھنے کو مل جاتی ہیں۔
میں درانی پشتون ہوں۔ طالبانائزیشن سے متاثرہ خاندانوں میں سے ایک خاندان کا فرد میرے دادا ڈاکٹر نجیب اللہ شہید کی حکومت میں اہم منصب پر تھے۔ طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا تو ہمارے خاندان کو ہجرت کرنا پڑی۔ پاکستان ہماری پناہ گاہ بنا میں نے اور میرے بہن بھائیوں نے آپ کے وطن میں پرورش پائی، تعلیم حاصل کی، یہ شکر گزاری تاحیات رہے گی۔
میرا شکوہ یہ ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کی امیدوں کا مرکز ایک بار پھر افغان طالبان ہیں آپ کی ریاست کی پالیسی بھی یہی ہے لیکن طالبان ایک باغی گروپ کے طور پر ابھرے، افغانستان پر قبضہ کیا۔ ڈاکٹر نجیب اللہ سمیت ہزاروں افغانوں کو شہید کیا۔ پاکستان، امریکہ اور سعودی عرب کی آنکھوں کا تارا بنے۔ اس پالیسی نے پاکستان کو کیا دیا۔ اور اب بھی آپ لوگ یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ باغی گروہ دھڑا نہیں ہوتا۔
کیا پاکستان کی ریاست کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو وہی مقام دینے کو تیار ہے جو افغان طالبان کو دیتی ہے؟
براہ کرم اپنی حکومت اور پالیسی سازوں کو متوجہ کیجئے کہ افغان طالبان افغانستان کے نمائندے ہیں نہ سو فیصد پشتونوں کے۔ یہ تو ایک عفریت ہے۔ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغان عوام کو کرنے دیا جائے‘‘۔
گل رحمان ہمدرد پاکستانی پشتون ہیں اور دوست محمد درانی افغان پشتون۔ آپ دونوں کی آراء پڑھ چکے۔ یہ فقط دو نوجوانوں کی رائے نہیں بلکہ افغانستان اور پاکستان کے پشتونوں کی نئی نسل کی رائے ہے۔ کیا ہم اسے نظرانداز کرکے آگے بڑھ سکتے ہیں؟ ہمارے پالیسی سازوں کو کچھ وقت نکال کر اس پر غور کرنا چاہیے۔
امریکی بگرام ایئربیس خالی کرگئے، ہمارے ذرائع ابلاغ کے ایک حصہ نے کہا
’’امریکیوں کے جاتے ہی بگرام ایئربیس پر لوٹ مار شروع ہوگئی، افغان حکومت لاعلم تھی‘‘۔
کیسے لاعلم تھی سب جانتے تھے کہ امریکہ 2 جولائی کو بگرام ایئربیس خالی کردے گا انخلا کے شیڈول کے مطابق افغان امور کی معمولی سی شُد بُد رکھنے والا بھی اس امر سے آگاہ تھا۔
بات پھر وہی زمینی حقائق سے لاعلمی اور ایک خاص فہم کے پروپیگنڈے کو آگے بڑھانے کی ہے۔ دو دن قبل قومی اسمبلی کے ایوان میں پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کو عسکری حکام نے بریفنگ دی۔
وزیراعظم حسب عادت اس اجلاس میں شریک نہیں تھے۔ وہ اس اجلاس سے قبل قومی اسمبلی میں ایک جذباتی تقریر پھڑکاچکے تھے۔ بریفنگ میں کہا گیا پاکستان پرامن اور مستحکم افغانستان کا خواہش مند ہے۔
ابتری کی صورت میں 5سے 7لاکھ مہاجرین کی آمد متوقع ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ابتری کے ذمہ داروں کو ہمارے یہاں نجات دہندہ اور ہیرو بناکر پیش کیا جارہا ہے۔
کہا جارہا ہے اشرف غنی حکومت غیرنمائندہ ہے۔ طالبان کیسے نمائندہ ہوگئے۔ وہ کیسے اقتدار میں آئے؟
یقیناً جواب میں آپ وہی باتیں سنیں گے جو پچھلے 25برسوں سے ہمیں پڑھائی رٹائی جارہی ہیں۔
افغان عمل اور موجودہ صورتحال کے حوالے سے ہماری تحریروں اور تجزیوں سے اہم ترین بات یہ ہے کہ خود افغان کیا کہتے ہیں۔
جواد ایثار افغان دانشور ہیں انہوں نے ایک تفصیلی مضمون لکھا ہے۔ اگلے کالم میں ان کی طویل تحریر کے چند اقتباسات کالم کا حصہ بناوں گا۔ فی الوقت یہ ہے کہ وائٹ ہاوس سے دنیا کوبتایا گیا ہے کہ امریکہ اپنے فضائی آپریشن اب امارات، قطر یا بحری بیڑے سے کرے گا۔ یہ کہا جارہا ہے کہ کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کے لئے امریکہ، ترکی اور پاکستان مل کر کام کریں گے۔
اس کی وضاحت ہماری طرف سے آنی چاہیے۔
وزیراعظم کی پھڑکتی تقریر اور قومی سلامتی کمیٹی کو عسکری حکام کی بریفنگ پر اچھلتے کودتے نعرہ ان مردوخواتین کو مبارک ہو کہ امریکہ نے بچوں سے عسکری مشقت ’’چائلڈ سولجر‘‘ لینے والے ملکوں کی فہرست میں ترکی کے ساتھ پاکستان کو بھی شامل کرلیا ہے۔ ثبوت کے طور پر انہوں نے اپنی رپورٹ کے ساتھ چند ویڈیوز بھی جاری کی ہیں۔
ترکی اور پاکستان نے اس الزام کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔ ہمارے دفتر خارجہ نے اس امریکی الزام کے جواب میں جو کچھ کہا وہ اپنی جگہ بجا لیکن ویڈیوز بارے کیا ارشاد ہے؟
سرِتسلیم خم کہ امریکی الزام کا مقصد پاکستان پر کچھ پابندیاں لگوانا ہے اور یہ کہ اقوام متحدہ کے امن مشنوں سے پاکستان کو باہر کرنا۔ لیکن یاد رہے کہ یہ وضاحتی بیان ناکافی ہے۔
ہم تو تواتر کے ساتھ ان سطور میں عرض کرتے آرہے ہیں کہ امریکی ہمیں دوست نہیں تنخواہ دار ملازم سمجھتے ہیں۔ ملازمت سے نکالتے وقت یا سالانہ ترقی روکنے کے لئے بھونڈی الزام تراشی فائل کا حصہ بنائی جاتی ہے۔
وزیر اطلاعات فواد چودھری کے بیان پر باردیگر غور کیجئے۔ ’’امریکی انخلاء عجلت میں ہوا نتائج ہمیں بھگتنا پڑیں گے‘‘۔
میرا خیال ہے کہ امریکیوں کو احسان فراموش یا وعدہ شکن قرار دینے کی بجائے اب ہمیں اپنی پالیسیوں اور اداوں دونوں کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے اس جائزے کے بیچوں بیچ اس امر کا بطور خاص خیال رکھنا ہوگا کہ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا ایک حالیہ انٹرویو (گزشتہ کالم میں اس کا تذکرہ کرچکا) ہمارے خلاف مضبوط استغاثہ کا کام دے سکتا ہے۔
مناسب ہوگا وفاقی وزراء بولنے سے پہلے سوچ لیا کریں۔ ویسے سوچنا سمجھنا اس حکومت میں رواج نہیں پاسکا، ہر شخص ہرفن مولا بننے کے چکر میں ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر