رانامحبوب اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملکہ پکھراج کی آپ بیتی میں سامراج اور مہاراج (2)
دستِ نمو
رانا محبوب اختر
ملکہ پکھراج ، موسیقی کے ساتھ ساتھ نرت بھاو کا قرینہ جانتی تھیں۔استاد ممن خان سے رقص سیکھا تھا ۔ممن خان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ” ممن خان پچھتر سال کے آدمی تھے۔کالا رنگ، موٹی موٹی آنکھیں، بڑی بڑی مونچھیں، گالوں پر بالوں کے بڑے بڑے گچھے، دونوں گالوں پر سیاہ چھائیاں، فربہ جسم، گول پیٹ باہر نکلا ہوا، آنکھوں پر چشمہ۔جس وقت سکھانے کے لئے گت بناتا معلوم ہوتا جیسے آسمان سے پری اتر آئی ہے”۔ نرت بھاو کا کمال یہ ہے کہ تیز لے کے ساتھ پاوں حرکت میں اور اوپر کا جسم ساکت رہتا ہے ۔استاد ممن طبلے کی تھاپ پر ناچتے تو چہرے پر مسکراہٹ، ہاتھوں اور آنکھوں میں رقص کی روشنی اور فربہ جسم ہلکا ہو کر یوں محسوس ہوتا جیسے پانی پر تیر رہا ہو۔ "رقص ایک مشکل فن ہے جیسے گانے میں "سا رے گا ما پا دھا نی سا” ہے ویسے ناچ میں ” تا تھئی را تھئی تت ” ہے”۔تیز لے کی تتکار جسم پر کنٹرول پانے کی تربیت ہے۔دلی کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ دلی میں لوگ گپیں ہانکنے کے عادی اور شیخیاں بگھارنے کے رسیا تھے۔مغل تہذیب کا اثر ہر جگہ نظر آتا تھا۔حکیم اجمل خاں کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کا لباس "دودھ کی طرح سفید چکن کا انگرکھا، پاجامہ، ململ کی ٹوپی ، سلیم شاہی جوتا۔جب گھر سے مطب آتے تو ان کا لباس دیکھ کر آدھی بیماری دور ہو جاتی۔دو تین دفعہ میں بھی ان کے پاس زکام کے لئے گئی تھی۔”دلی کی خواتین کا لباس، ٹھاٹھ باٹھ ، یکہ ، ڈولی ، گھوڑا گاڑی ، پاندان ، خاصدان اور اگال دان ان کے مرتبے کو ظاہر کرتا تھا۔ خاندانی عورتیں دعوت پر جاتیں "تو گھر سے پیٹ بھر کر کھانا کھا کر جاتیں اور دعوت میں نزاکت سے آٹھ دس چاول انگلیوں سے پکڑ کر منہ میں ڈالتیں، اگر روٹی توڑتیں تو تنکے کے برابر ، یہ ہر عورت کی ادا تھی ۔”یہ بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائی کا دلی ہے ۔ مغل تہذیب کی نشانیاں کولونیل بربادی کے باوجود باقی تھیں۔پچاس سال بعد ملکہ دوبارہ دلی گئیں۔ سات بار اجڑنے اور بسنے والا دلی پارٹیشن کے بعد زیادہ اداس تھا۔ یہ زوال ریموٹ کنٹرول کولونیل ازم اور کیپیٹل ازم کی کارستانی تھی جس نے ملکہ کو افسردہ کیا ۔وہ اگر آج زندہ ہوتیں تو ہندو مسلم فسادات ، مذہبی تعصب، بنیاد پرستی اور دائیں بازو کے انتہا پسند پاپولسٹ نریندرا مودی کے کٹھور پن سے نہ جانے ان کے دل پر کیا گزرتی ! مودی، اربان ، اردوان ، جانسن اور ٹرمپ کارپوریٹ کیپیٹل ازم ، بنیاد پرستی ، نسل پرستی اور نوآبادیاتی مائنڈ سیٹ کے ملاپ کی ارزاں تشکیل ہیں۔ ملکہ پکھراج نے "دلی” کے عنوان سے کتاب کے باب کے آخر میں انگریز کے راج کی شان و شوکت کو سراہا ہے۔ طاقت کے کولونیل بیانیے سے بنی دنیا میں بڑے بڑے لکھاری کولونیل bug سے نہیں بچ سکے اور ملکہ بھی اس کیڑے کی کاٹ سے محفوظ نہ تھیں۔کہ سامراج کی سب سے مضبوط کالونیاں غلاموں کے جسموں اور ذہنوں کے اندر قائم ہیں۔ہم نے بڑے افسروں، کہنہ مشق سیاست کاروں اور بوڑھے دیہاتیوں کو سامراج کی تعریف میں ایک ہی طرح کی باتیں کرتے سنا ہے۔قاتل سے محبت کا پیراڈائم طاقت کی چکا چوند اور مرعوبیت پر استوار ہے!
لوگ بسمل کے حال پر توجہ دینے کی بجائے،
قاتل کا منہ دیکھتے ہیں!
ملکہ اپنے اساتذہ کا ذکر بہت احترام اور محبت سے کرتی ہیں ۔لیکن تین شخصیات ایسی ہیں جن کا ذکر کرتے ہوئے ملکہ کا قلم سوزِ محبت میں ڈوب جاتا ہے۔ایک ان کے والد عبداللہ خان ہیں۔وہ جوا کھیلتے اور کھلاتے تھے اور جوے میں صولی اور دانے کے بادشاہ تھے ۔ایک واقعہ ان کے والد کی شخصیت کا احاطہ کرتا ہے۔ ان کے والد گھر میں سونے کی بجائے بیٹھک میں سوتے تھے۔ایک دن انھوں نے دیکھا کہ ایک آدمی سخت سردی میں محلے کے تنور کے پاس قمیض کے بغیر سوتا ہے۔ ان کے والد نے اپنا پورا بستر، سرہانے سمیت اس کو دے دیا اور اس کے بعد جموں کی شدید سردی میں خود اپنی گرم شال لے کر سو رہتے تھے۔ ” یہ بات چار سال کی عمر سے لے کر آج تک یاد ہے، حالانکہ مجھے کوئی راستہ یا کسی کا گھر سو دفعہ بھی جاؤں تو یاد نہیں رہتا”۔ملکہ کے والد عبداللہ خان اور ان کی والدہ کا ازدواجی تعلق آئیڈیل نہ تھا۔دوسری شخصیت جموں ریاست کے راجہ مہاراج ہری سنگھ کی ہے۔وہ بیک وقت ملکہ کے محسن اور محبوب ہیں۔ان کی شخصیت ایک قدر دان، معاملہ فہم، باذوق اور وسیع المشرب شخص کے طور پر سامنے آتی ہے۔ وہ پوجا پاٹ اور چھوت چھات کے قائل نہ تھے۔وہ کہتے تھے ” کہ مذہب اتنا کچا نہیں ہوتا کہ ہاتھ لگانے سے ٹوٹ جائے۔ایک ہی خدا ہے ، باقی سب کچھ ہمارا بنایا ہوا ہے”۔مہاراج انگلینڈ سے پڑھ کر آئے تھے کہ جموں کی ریاست بھی باقی ریاستوں کی طرح تاج کی باجگزار تھی۔انڈیا کی سینکڑوں ریاستوں نے شکست اور موت میں شکست کا انتخاب کیا تھا اور ٹیپو سلطان کی شیر کی زندگی کی بجائے گیدڑ کی زندگی گزارتے تھے۔اپنی غلامی کے دوام کو وہ برطانوی آقاؤں کو روپیہ دیتے تھے اور ایک سوداگر ریزیڈنٹ کے ماتحت رہ کر عیش کرتے تھے۔مہاراجہ پٹیالہ پرتاب سنگھ کی شخصیت اور ڈیل ڈول متاثر کن تھا۔ سات فٹ لمبے، سانولے اور خوب صورت مہاراج کا پیٹ ڈھیلا ہو کر گھٹنوں کو لگتا تھا ۔ صبح جب وہ تیار ہوتے تو نوکر ان کے پیٹ کو سمیٹ کر ململ کی پٹی سے کس کر باندھ دیتے اور اس کے اوپر اچکن پہن کر بٹن بند کر لیتے۔ اس لئے وہ سونے سے پہلے اچکن نہیں اتارتے تھے۔ یہ پیٹ کو چھپانے کا قرینہ تھا۔ وہ شراب اور افیم کے رسیا تھے۔ہر وقت بوتل ان کے ہاتھ میں رہتی اور بڑے پیگ بنا کر غٹا غٹ پیتے تھے۔ مرد شکن پٹیالہ پیگ ان کی وجہ سے مشہور ہے ۔ ان کی تیسری محبوب شخصیت ان کے خاوند سید شبیر حسین شاہ تھے۔وہ عہدے کے لحاظ سے تحصیلدار تھے جو جھنگ ، لودھراں اور ساہیوال جیسی جگہوں پر تعینات رہے۔پھر وہ ریزیڈنٹ ٹامسن کے ساتھ لاہور سے 80 ریاستوں کے انتظام میں دخیل رہے۔ ان کا عہدہ ڈپٹی کمشنر سے بھی اہم تھا۔یہ ملکہ کی زندگی کا بہترین زمانہ ہے جب وہ اپنے فن کے عروج اور ازدواجی زندگی کے سکھ سے آسودہ تھیں۔ پھر یوں ہوا کہ ان سے وہ شخص جدا ہو گیا جو ان سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔ ملکہ کی محبتیں بے رخی ہیں۔ ملکہ کو ڈارلنگ، بیگم، پھاجی اور ملکہ پکھراج کہنے والے شاہ جی رخصت ہوئے تو ملکہ کی زندگی میں اداسی چھا گئی اور شاہ جی سے بے رخی محبت کو زبان مل گئی تھی ۔گارڈن ٹاون کا آٹھ ایکڑ کا گھر بکا تو ان کی سیفی کے ایس ایم ظفر اور بیٹے نے ان کا مان توڑ دیا۔ ایوب خان کے سابقہ وزیر اور ملکہ کے داماد ایس ایم ظفر سے ملکہ شاکی تھیں ۔ ناز اٹھانے والے شبیر حسین شاہ کے جانے کے بعد ملکہ اکیلی ہو گئیں۔رشتوں اور تعلقات کے حوالے سے ملکہ کی زندگی کا نچوڑ یہ ہے کہ "اگر خاوند بیوی کو ایک دوسرے سے پیار ہو تو اس سے بڑا رشتہ کوئی نہیں” ۔ شبیر حسین شاہ کی موت نے مگر ان کی محبت کو ڈیفائن کیا ہے ۔ اب وہ ریشماں کو بلا کر بار بار ان سے یہ گانا سنتیں تھیں۔” ہائے او ربا ، نئیوں لگدا دل میرا” ملکہ کی زندگی میں یہ شکستِ آرزو اور تنہائی کا وقت ہے جسے ملکہ نے لگی لپٹی رکھے بغیر مگر دردمندی سے بیان کیا ہے۔سہل، شستہ اور رواں زبان میں لکھی اور نازک واقعات سے بھری 392 صفحات پر مشتمل ” بے زبانی زباں نہ ہو جائے ” ایک عہد کے ساتھ ساتھ انسانی رشتوں کی نازک اور پیچیدہ گرہیں کھولنے والی آپ بیتی ہے۔آخری حصہ پڑھتے ہوئے آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں کہ اس میں شبیر حسین شاہ سے جدائی کا تفصیلی ذکر ہے۔ سچ یہ ہے کہ شبیر حسین شاہ ہی ملکہ کے اصلی مہاراج تھے جن کی اچانک موت نے ملکہ کی زندگی ویران کر دی۔ ملکہ کی پوتی فرازے سید اور "آج ” کے اجمل کمال نے قحط الرجال کے اس دور میں ایسی خوبصورت شخصیت اور فنکار کی خودنوشت کا اہتمام کرکے ایک فن کار کی دلچسپ اور بھرپور زندگی کو کتاب کر کے کمال کیا ہے! فن کی دنیا کی اپنی شریعت ہے اور اس دنیا میں تلفظ ، ترنم اور تان سے ملکہ پکھراج امر ہیں کہ آواز کو موت نہیں جب کہ سامراج مر رہا ہے اور مہاراج بس یوں زندہ رہیں گے کہ ملکہ پکھراج نے ایک زندہ رہنے والی کتاب میں ان کا ذکر کیا ہے!
یہ بھی پڑھیے:
امر روپلو کولہی، کارونجھر کا سورما (1)۔۔۔رانا محبوب اختر
محبت آپ کی میز پر تازہ روٹی ہے۔۔۔رانا محبوب اختر
عمر کوٹ (تھر)وچ محبوبیں دا میلہ۔۔۔ رانا محبوب اختر
ماروی کا عمر کوٹ یا اَمرکوٹ!۔۔۔رانامحبوب اختر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر