نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

من موجی ۔ قسط -6||گلزار احمد،وجاہت علی عمرانی

گلزار احمد خان اور وجاہت علی عمرانی کی مشترکہ قسط وار مکالماتی تحریر جو دریائے سندھ کی سیر پہ مبنی ہے۔ جس میں تاریخی، ثقافتی، ماضی اور روائتی باتیں قلمبند کی گئی ہیں ۔

گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیلگوں آسمان اور سندھو دریا کا بیٹ مادیت پر ستی سے بھر پور زندگی کے ہنگاموں سے پاک تھا۔ قدرتی مناظر کے ساتھ مست بادلوں بھرے ہوا کے خمار آلود جھونکے تھے اور ہم تھے۔ فطرت کی رعنائیاں اپنے پورے جوبن پر رقص کناں تھیں۔ میں بھی فطرت خدا کا عاشق وہ بھی خدا کے اس کے نظاروں کا عاشق۔ ہمارے کچھ ہی فاصلے پر دریا بہہ رہا تھا۔ پرسکون ماحول میں دریا کی آواز نے ایک طلسماتی احساس پیدا کیا ہوا تھا۔ ہمیں اپنے اپنے اندر جھانکنے کا موقع ملا جو شہری زندگی کی گونا گو مصروفیات اور آلودگی سے بھرپور فضا میں بہت کم ملتا ہے۔ شہروں میں فضائی آلودگی کے ساتھ ذہنوں کی بھی آلودگی ہے۔ یہاں لوگ ایک دوسرے کے خلاف دلوں میں اس قدر کینہ، نفرت اور دوسرے منفی جذبات رکھتے ہیں کہ فضا بھی بوجھل ہو جاتی ہے۔ماضی کو یاد کرتے کرتے دریا کے پانی کے قریب آ گئے۔ ڈوبتے سورج کی لالی دریا کے پانی میں قوس و قزح کے رنگ انڈیل رہی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر عمرانی صاحب کہنے لگے، گلزار صاحب! سورج کی لالی جب پانی میں جھلکتی ہے تو تھکے ہوئے دماغ کو راحت ملتی ہے۔ کسی اور چیز کا خیال اس وقت پاس ہی نہیں آتا۔ اس وقت آرام اور سکون نصیب ہوتا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں جب اسی دریائے سندھ کے راستے سے ہمارے آباء و اجداد کی کشتی اپنے علاقوں سے نکل کر جب پہلی دفعہ یہاں آئی ہوگی تواس ویران لیکن دلکش بیٹوں کے دیدار نے ان کے مغموم دل کو کتنا حوصلہ دیا ہوگا۔ گھر سے دور گھر آنے کے احساس نے انہیں تسکین ضرور پہنچائی ہوگی۔ یہ حقیقت اور سچ ہے کہ قدرت کی خوبصورتی انسانی روح پر کئی راز آشکار کرتی ہے۔ یہاں آ کر لگا کہ ہم جس لاحاصل دوڑ میں لگے ہیں، اس نے ہماری روحوں کو مردہ کر دیا ہے۔ دریائے سندھ میں بہنے والا پانی نہ جانے کتنی صدیوں سے اسی رفتار سے رواں دواں نہ جانے کتنے راز اپنے اندر سموئے ہوا ہے۔
مغرب کی اوور ڈوبتا سورج آہستہ آہستہ ہمیں کرنوں سے فیض یاب کر رہا تھا، آسمان پر کہیں بادل تھے کہیں سے نیلا آکاش جھانک رہا تھا بادلوں کے آوارہ غول مست ہاتھیوں کی طرح نیلگوؤں فضاؤں میں دھمال ڈھالتے نظر آرہے تھے نیلے آکاش پر بادلوں کی اٹھکھیلیاں زمین پر بھی دھوپ چھاؤں کے بہار رنگ مناظر پیش کر رہی تھیں میرے سامنے میلوں دور تک کہیں دھوپ کہیں چھاؤں نے عجیب ست رنگی منظر پیدا کیا ہواتھا۔ عمرانی صاحب پائنچے اوپر کرتے ہوئے اپنے دونوں پاؤں دریا کے پانی میں ڈال کر تسکین حاصل کرنے کی غرض سے وہیں بیٹ پر بیٹھ گئے۔ عمرانی صاحب! آپ نے بالکل بجا فرمایا، آپ نے کشتیوں کے سفر کی بات کر کے مجھے اسی شینھ دریا میں چلنے والے ایس ایس جہلم پر کئے گئے اپنے درجنوں سفر یاد دلا دیئے، میں نے دریا کے پانی کے قریب بیٹ پر ”پلتھی” مار کے بیٹھتے ہوئے کہا۔ اچھا؟ ایس ایس جہلم سے آپکی یادیں وابستہ ہیں؟ جی بالکل، ایک دو نہیں بلکہ درجنوں یادیں۔۔ عمرانی صاحب کہنے لگے پھر تو میں گزارش کروں گا کہ اپنی یادیں بتانے سے پہلے مجھ کچھ اس کی تاریخ بھی بتا دیں۔ کیونکہ میں جانتا ہوں ہوں کہ آپ جیسا مستند و محکم مورخ کوئی اور نہیں۔۔ میں ہنستے ہوئے کہنے لگا، نہ کرو عمرانی صیب ” نیں تاں میں فخر اچ آ ویساں ”۔ اس بات پر ہنسنے کے علاوہ دونوں کے پاس کوئی دوسری راہ نہیں تھی۔۔۔
عمرانی صاحب! آپ نے کہا تو پھر سنیں، 451ٹن وزنی، ایک سو پچاس فٹ لمبے، چونتیس فٹ چوڑے عرشے، لمبی چمنی، عقب میں لگی چوڑے پھل والی چرخی سے چلنے والا یہ ایس ایس جہلم جہاز 1935میں صوبہ سرحد کی صوبائی حکومت نے اسے پنجاب حکومت سے خریدا۔ ایس ایس جہلم جہاز ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنی آمد سے لے کر 1985 میں پختہ نئی پُل کی تعمیر تک مسلسل دریائے سندھ کے دونوں کناروں کے درمیان رابطے کا واحد زریعہ رہا۔ کیونکہ دریائے سندھ کا دونوں کناروں کے درمیان پاٹ تقریبا 12 سے 16 میل تھا۔ دریا کے دائیں اور بائیں کنارے سامان کی ترسیل اور سفر کی کافی مشکلات پیش آتی تھیں اور ایسے حالات میں یہ جہاز اہلیان ڈیرہ اسماعیل خان، دریا خان اور بھکر کے لیئے بہت بڑی نعمت تھا۔ ہاں عمرانی صاحب یاد آیا، 1982 میں اس کے انجن نے آگ پکڑ لی تھی اور جہاز کے کئی کل پرزے تباہ ہو گئے تھے، مرمت کر کے اسے دوبارہ چلنے کے قابل بنا دیا گیا تھا۔ 1985میں مستقل طور پر لنگر انداز ہونے کے بعد ایس ایس جہلم دریا کے دائیں کنارے مڈوے ہوٹل اور انڈس ہوٹل کے درمیان تفریحی مقام پر بحثیت ثقافتی اور علاقائی ورثہ جلوہ افروز تھا۔مگر سیر کرنے والے لوگ صرف ایک طائرانہ نظر ڈال کر گزر جاتے تھے اور اکادکا ڈیرے وال اس کے کھلے عرشے پہ جا کر دل بہلانے کے ساتھ ساتھ ہاتھوں میں پکڑے اس وقت کے قیمتی کیمرے یو شیکا وغیرہ سے اپنی فوٹو بنواتے۔
عمرانی صاحب! میری اس جہاز کے ساتھ انمٹ یادیں وابستہ ہیں، جو ہمیشہ میرے شعور کو قوس و قزح کی طرح رنگین بناتی رہتی ہیں۔ بچپن میں مجھے لاہور کے ایک سکول داخل کیا گیا تو ڈیرہ اسماعیل خان سے لاہور پہنچنے پر دو دن لگتے تھے جو سفر اب چھ گھنٹے کا ھے۔ اس سفر کا دلچسپ پہلو یہی ایس ایس جہلم جہاز تھا جو دریا خان اور ڈیرہ کے درمیان دریائے سندھ کے بیس کلو میٹر فاصلے کو طے کرتے پورا دن لگا دیتا۔ اس جہاز کے نچلے عرشے میں مال مویشی ساز وسامان اور کچھ لوگ ہوتے اور اوپر والے عرشے میں مسافر۔ کبھی کبھی اوپر والے عرشے میں بارات جا رہی ہوتی تھی تو گانے واے ڈھول والے اورجھومر ڈانس والے بھی اپنے فن سے محظوظ کرتے۔ جب جہاز دریا کے کنارے سے روانہ ہوتا تو ایک خاص قسم کا ہارن بجایا جاتا جسے ہم کُوک کہتے تھے۔ جو سارے شہر کو سنائی دیتی اور دل کو بھاتی تھی کہ اب جہاز روانہ ہورہا ہے، پیارے گلے مل رہے ہیں اوراپنوں سے جدائی کا وقت شروع ہو گیا۔بعض بچوں عورتوں کی آنکھیں نمناک ہوتیں کیونکہ اُس زمانے میں جدائی کافی لمبی ہوتی تھی۔ اسی ایس ایس جہلم جہاز کا کپتان جانو جہاز چلانے کے علاوہ ٹوٹی ہڈیاں جوڑنے کا بھی ماہر تھا۔دور دور سے لوگ اپنے پیاروں کی ٹوٹی ہڈیوں کا علاج کروانے اس کے پاس آتے تھے۔ ایک دفعہ بچپن میں میری دائیں بازو کی ہڈی کریک ہو گئی تو میرے بابا جان مجھے جانو کپتان کے پاس لے گئے۔جانو کپتان نے ہڈی جوڑ کر پٹی باندھ دی اور بابا کو کہا آٹے کا گرم حلوہ پکا کر بازو کے ارد گرد لپیٹ کر پٹی باندھنی ہے۔ چنانچہ ماں نے خالص گھی میں حلوہ پکا کر بازو پر لگایا اور کس کر پٹی باندھ دی۔ جب ماں ذرا ادھر ادھر ہوتی تو ہم دوست ملکر اسی کسی ہوئی پٹی کو کھول کر اس میں لپٹا حلوہ کھالیتے اور دوبارہ پٹی باندھ دیتے۔ میری ماں میرے بازو پہ تقریباً بیس دن حلوہ باندھتی رہی اور ہم پٹیاں کھول کھول کے حلوہ کھاتے رہے۔ پتہ نہیں یہ حلوہ کھانے کی کرامت تھی یا جانو کپتان کا فیض نظر تھا آخر میرا بازو ٹھیک ہو گیا اور ہم حلوے سے محروم ہو گئے۔ عمرانی صاحب بلآخر 25جولائی 1999 کے دن تیز آندھی اور طوفان کی وجہ سے ڈیرہ اسماعیل خان کا یہ ورثہ اپنے عرشے پہ پانی بھر جانے سے ڈوب گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ وقت صرف انسان ہی کو نہیں بلکہ تاریخی ورثوں کا بھی حسرتوں کا مزار بنا دیتا ہے۔
(جاری ہے)

About The Author