گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید عمرانی صاحب نے میری سوچوں کو پڑھ لیا۔ چارپائی پہ تکیہ کی ٹیک لگاتے ہوئے کہنے لگے، گلزار صاحب! آپ کو بان کی بُنی ہوئی چارپائی کی زحمت اس لیے دی، کیونکہ بان سخت ہوتا ہے اور اس کی یہی سختی کمر درد کی بیماری سے چھٹکارا دیتی ہے۔ ایک وقت تھا لوگ گرمیوں میں بان کی چارپائیاں صحن میں ڈال کر سوتے تھے۔ اگر بان پر سونے سے پہلے پانی ڈالا جا تا تو وہ اے سی کی طرح ٹھنڈک دیتا تھا۔ چنانچہ بان پر پانی کا ہلکا چھڑکاؤ کرکے گرمی کو بھگایا جاتا تھا۔ روائتی "کنیرے” مونجھ۔کوندر۔مزری اور پٹھے کا بان استعمال کیا کرتے تھے۔ گلزار صاحب! میں نے سنا ہوا ہے کہ مونجھ کے کا بان ٹھنڈا اور بہت آرام دہ ہوتا ہے۔ جتنی بھی قدرتی چیزیں ہیں، ان میں اللہ پاک کی حکمت ہوتی ہے۔ لیکن ہم نے قدرتی چیزیں چھوڑ کر مصنوعی چیزیں بنا لی ہیں۔ جب آپ فطرت کے خلاف چلیں گے تو پھر بیماریاں ہی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اب ہر کوئی تیز رفتاری کی رتھ پہ سوار قدرتی اور فطری چیزوں کے استعمال کو ترک کر کے اپنی مرضی سے خود کو بیماریوں کی آماجگاہ بنا رہا ہے۔ بالکل سچ کہا عمرانی صاحب۔ اب ان چیزوں کے ساتھ ساتھ ان سے منسلک پیشے بھی متروک ہوتے جاتے ہیں۔ ان پیشوں سے منسلک کاریگر بھی اب ڈھونڈے نہیں ملتے۔
عمرانی صاحب! چارپائیوں کو چھوڑیں اب تو گھروں کے باورچی خانوں میں بھی تابنے اور پیتل کی دیگچیاں، منگریاں، گلاس، لوٹے، کٹورے استعمال میں نظر نہیں آتے۔ اب یہ برتن، ٹفلون، ایلومونیم اور پلاسٹک کے یا شیشے کے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ گلی، محلوں میں ” پانڈے قلعی کرالو” کی صدا اَب تو سنائی ہی نہیں دیتی۔ عمرانی صاحب! پہلے چونکہ باورچی خانے کا ہر برتن قلعی کیا جاتا تھا اس لئے پیشہ ور قلعی گر گلیوں میں ہفتے یا مہینے میں دو، چار بار آواز لگاتے گذرتے تھے۔ جن گھروں کو اپنے برتنوں کو قلعی کروانے کی ضرورت ہوتی تھی قلعی گر وہیں گلی میں اپنا ساز و سامان بچھاتا تھا۔ کوئلوں کی آگ ایک بڑی سی انگیٹھی میں جلاتا تھا۔ انگیٹھی کے ساتھ چمڑے کی بنی ہوئی ایک دھونکنی لگاتا تھا۔ چند گھنٹوں میں میلے کچیلے تابنے اور پیتل کے برتنوں کو چاندی کی طرح چمکدار بنادیتا تھا، اپنا معاوضہ لیتا تھا اور دوسرے محلے میں آواز لگانے چلا جاتا تھا۔ اَب تو ہمارے بچے انگیٹھی کے تصور سے بھی مانوس نہیں ہیں۔ قلعی گر کے پیشے کو تو یہ نسل جانتی ہی نہیں۔
چارپائی پہ ہم دونوں بیٹھے رسمی باتوں میں مشغول تھے۔ موسم انتہاہی خوشگوار تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی پورب کی ہوا چل رہی تھی، بلکہ فطرت کے رازوں سے لبریز ٹھنڈی ہوا مست آنچل کو اوڑہے کسی سجی سجائی حسینہ کی طرح تھی جو خود نمائی کی مہک سے اتراتی ہوئی اور اپنی خوبصورتی، تازگی، شگفتگی پر خود نازاں ہو کر سرسبز آنگن میں اٹھلاتی پھر رہی ہو۔ ہوا کے جھونکوں سے خَجی کی شاخیں جھولتے ہوئے دل پزیر آواز پیدا کر رہی تھیں۔ تین چار فاختائیں اور دو تین کووے کبھی شاخوں پر کبھی برآمدے کی چھت پر اٹھکیلیاں کر رہے تھے۔ اس سارے ماحول سے آنکھوں کو ٹھنڈک اور دماغ کو تازگی مل رہی تھی۔ مضبوط تخیل کے لوگوں کے ساتھ بھی عجیب و غریب مسائل ہوتے ہیں، وہ ایک جگہ پر موجود ہو کر بھی اپنے آپ کو کہیں اور پاتے ہیں، کبھی صدیوں پیچھے تو کبھی برسوں آگے۔ میں نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا عمرانی صاحب! کہاں کھو گئے؟ سر جھٹک کر کہنے لگے، گلزار صاحب آپ کو یاد ہے ماضی میں کس طرح عید کے بعد دوست ایک دوسرے کو بڑے ذوق و شوق سے وصول ہونے والے عید کارڈ دکھاتے تھے؟ لوگ اپنے کمروں میں بنی کانس پر ان کارڈوں کو سجاتے تھے؟ کتنی چاہ سے ایک دوسرے کو عید کارڈ بھیجتے تھے۔ رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی بازاروں میں عید کارڈزکے خصوصی اسٹالز سج جاتے تھے۔ ہر کوئی منفرد عید کارڈ خریدنے کی سعی کرتا۔ بعدازاں اُس پر خوب صورت لکھائی میں عید کے حوالے سے اشعار لکھے جاتے تھے۔۔ کیا محبت بھرا زمانہ تھا۔ خلوص تھی، محبت تھی۔ چند لمحوں کے لیئے عمرانی صاحب خاموش ہو گئے۔۔ میں کہنے لگا عمرانی صاحب یقین کریں عید کارڈ کی روایت کا ختم ہونا ٹیکنالوجی یا مہنگائی کے سبب نہیں بلکہ اب کسی کے پاس اتنا وقت ہی نہیں رہا کہ وہ عید کارڈ خریدنے بازار جائے اور پھر اسے اپنے عزیزوں کو پہنچائے۔ اب نہ وہ زمانہ رہا، نہ عید کارڈز بھیجنے کا رواج۔ وہ محض کارڈز نہیں تھے جو ہم اپنے پیاروں کو بھیجتے تھے، بلکہ اس میں چھپا پیار اور خلوص، جو تیز رفتار زندگی میں اب کہیں کھو گیا ہے اور جو ان عید کارڈز کے ساتھ ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرتا تھا۔ اب صرف یہ خوب صورت یادیں رہ گئی ہیں۔وہ یادیں بھی اب اس پوسٹ کارڈ کی مانند ہیں، جس کے ایک طرف خوبصورت تصویر اور دوسری طرف اداس تحریر ہوا کرتی تھی۔
(جاری ہے)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر