گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید کی چھٹیوں کے دوران کورونا بحران کے سبب پورے ملک کی حالت ابتر تھی اور کورونا کے پیش ِ نظر عائد کی گئی سختیوں کے سبب لوگوں کا بیشتر وقت گھروں میں ہی گزر ا۔ اسی کورونا بحران کے سبب بیشتر افراد مالی پریشانی سے بھی دو چار ر ہے۔ ویسے بھی عید کا دن بہت خاص ہوتا ہے۔ عید کے تعلق سے بچوں اور خواتین میں کافی جوش ہوتا ہے، لیکن اس مرتبہ حالات کافی مختلف تھے۔
عید کے چوتھے دن تقریباً 5 بجے کے وقت جب دھوپ مدہم ہو رہی تھی اور زمستانی ہوا شام کے سرمئی آنچل سے اٹھکیلیاں کر رہی تھی۔ اچانک گھر کے مرکزی دروازے سے اطلاعی گھنٹی نے اپنی آواز بلند کی۔ جب دروازہ کھولا تو بے ساختہ لبوں پر مسکراہٹ جاری ہوئی اور دونوں بازو آگے بڑھا کر محترم وجاہت علی عمرانی کو گلے لگایا۔ بے شک پُرخلوص اور نیک سیرت دوست کسی نعمت الہیٰ سے کم نہیں ہوتے۔ یاد رکھیں دوستی کے لیے ہم عمر، ہم طبقہ، ہم زبان، ہم ذات ہونا ضروری نہیں، ہم خیال ہونا ضروری ہے، اور اگر خوش قسمتی سے چند ایک ایسے دوست میسر ہوں جن سے آپ کی عادات، نظریات و مشاغل سب ملتے ہوں تو کیا ہی کہنے۔ اور ساتھ ہی وہ اور آپ ایک دوسرے کے لیے غیرمشروط خلوص رکھتے ہوں تو نعمت سے کم نہیں۔ بلا شبہ وجاہت عمرانی جیسی علمی ادبی اور فکری شخصیت سے دوستی میرے لیے نعمت سے کم نہیں۔
میں نے وجاہت عمرانی سے شکوہ کرتے ہوئے کہا! نہ آپ نے آنے کی خبر دی، نہ کوئی سندیسہ بھیجا، نہ فون اور نہ واٹس ایپ اور سیدھا دروازے پر پہنچ گئے۔ مشترکہ قہقہے نے ہم دونوں کے چہروں پہ مسکراہٹ بکھیر دی۔ عمرانی صاحب ! اب وہ دور کہاں، جب کالا کوا منڈیر پہ بیٹھا کائیں کائیں کرتا کسی کے آنے کا سندیس دیتا تو دلوں میں خوشی اُمڈ آتی۔ سائیکل کی گھنٹی یا گھوڑے کی ٹاپ ابھی بہت دور ہوتی کہ کوے کے سندیس پر ہی گھروں میں سوجی کی بھونائی شروع ہوجا تی کہ یقین ہوتا کوئی آرہا ہے۔ سوجی بھوننے کی خوشبو گھر کی دہلیز پار کرتی اور آنے والا مہمان صحن عبور کرتا۔ لیکن عہدِ جدید اور اُس کے آزار۔ عہدِ جدید میں لوگوں کے گھر بڑے اور دل چھوٹے ہوگئے ہیں۔ کچی مٹی کی جگہ سیمنٹ نے کیا لی کہ دل بھی پتھر ہوگئے۔ آپ نے اپنے آنے کی اطلاع نہیں دی تو نہ آپ کے لیئے خصوصی سویاں پکائیں اور نہ سوجی کا حلوہ۔ ایک بار پھر ہم دونوں کا مشترکہ قہقہ فضا میں بلند ہوا۔
وجاہت عمرانی کا بڑی گرمجوشی سے ہاتھ پکڑ کر اندر لے جانے کے لیے مہمان خانے کا دروازہ کھولا تو موصوف نے فرمائش کر ڈالی کہ گلزار صاحب! آج آپ کے ائرکنڈیشنڈ ” بھورے” میں صوفے پر نہیں بلکہ اسی صحن میں لگی واحد ”خَجی” (کھجور) کے سائے میں چارپائی پر دیسی طریقے سے بیٹھوں گا۔ اب فرمائش ہو وجاہت عمرانی کی تو بندہ کیسے انکار کر سکتا تھا۔ فورا ”خجی” کے نیچے چارپائی بچھائی۔ سردیوں میں استعمال کرنے کی وجہ سے چارپائی کے داہنی کونے سے تھوڑا سا بان ادھڑا ہوا تھا۔ ماہِ رمضان میں بہت کوشش اور تلاش کیا کہ کوئی ” کنیرا” مل جائے تاکہ اس کو بنوا سکوں، آج کل چارپائیاں بُنوانا بھی جان جوکھوں کا کام ہے۔ کیونکہ ماضی میں تو چارپائی بننے والے دوسرے تیسرے دن گھر کے باہر آواز لگاتے گزرتے تھے، لیکن اب چارپائی کا رواج کہاں؟ اگر کسی گھر میں چارپائی ہو گی بھی تو وہ لوہے کی پائپوں کی ویلڈ کی ہوئی اور پلاسٹک والی نوار سے بُنی ہوئی ہوگی۔ جو مزہ لکڑی اور بان کی بُنی ہوئی چارپائی میں ہے اس کی مثال نہیں۔ مہنگی سے مہنگی سٹیل و فائبر کی کرسیاں اور میز ہوں مگر دھوپ میں چارپائی پر بیٹھ کر کھانے کا مزہ ہی اور ہے۔ اسی طرح گرمیوں میں اس بان والی چارپائی پہ کسی درخت کے سائے میں بیٹھ کر روح ”ہولی” ہو جاتی ہے۔ یقین کریں جب بھی چارپائی پر بیٹھتا ہوں تو عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کا مشہورگیت گنگنانے لگتا ہوں۔ ” پیپل دی چھاں ہووے، وانڑں دی منجی ہوے۔ سر ہیٹھاں بانھ ہووے۔
(جاری ہے)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر