رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو عالم گیر صداقتوں میں سے ہے کہ جو آپ اگاتے ہیں اور کھاتے پیتے ہیں‘ اس سے آپ کی ثقافت کے رنگ بنتے اور سنورتے ہیں۔ ثقافت کسی بھی علاقے‘ خطے یا ملک کی ہو‘ اس میں اشیا پیدا کرنے‘ استعمال میں لانے کے طریقوں سے لے کر گھروں کی تعمیر‘ فنون‘ ادب‘ تعلیم‘ موسیقی اور کھیتی باڑی تک سب چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ موسموں کا بھی ثقافت سے بہت تعلق ہے۔ محلِ وقوع اور آب و ہوا‘ دونوں مخصوص قسم کی فصلیں کاشت کرنے کا میلان پیدا کرتے ہیں۔ بحیرہ روم کا خطہ زیتون کی کاشت کے لئے مشہور ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اس کے ارد گرد کے ممالک میں زیتون کا تیل اور پھل‘ دونوں کثرت سے استعمال کئے جاتے ہیں۔ جزیرہ نما عرب کے پکوان اپنی نوعیت کے ہیں۔ اسی طرح روس اور شمالی یورپ کے ممالک کے مرکزی کھانے ان کے موسمی ماحول کے مطابق تاریخی طور پر لوگوں کی عادت کا حصہ بنے ہیں۔ ایران میں لوگ ہماری طرح چائے نوش نہیں کرتے‘ جسے ہم قہوہ کہتے ہیں‘ وہ ابال کر کپوں میں انڈیلتے ہیں اور اس میں چینی یا دودھ کی ملاوٹ ہرگز نہیں کرتے۔ افغانوں کا بھی یہی طریقہ ہے۔ پاکستانی چائے کی اب اپنی شناخت ہے‘ دودھ میں کڑھی‘ گرم اور ہر کپ میں چینی کے کئی چمچ۔ اسے کڑک چائے کہتے ہیں۔ اکثر آپ نے لوگوں کو کہتے سنا ہو گا‘ ‘ذرا کڑک چائے بنانا‘۔ ایسی چائے بنانا بھی ایک فن ہے‘ جس کے بارے میں پھر کبھی۔ میں بات آموں کی کرنے لگا تھا کہ اس کا تعلق بھی زمین کی ساخت اور موسموں سے ہے۔
یہ پھل ہمارے جیسے گرم علاقوں میں کاشت کیا جاتا ہے۔ یہ تو کہنے کی ضرورت نہیں کہ سرد موسموں کے پھل اور ہوتے ہیں۔ جنوبی پنجاب‘ سرائیکی وسیب میں زندگی کے ابتدائی سال گزارے‘ تو آموں سے دلچسپی فطری بات تھی۔ مجھے یاد ہے‘ اور یہ بھلا میں کیسے بھول سکتا ہوں کہ سکول سے گھر دوپہر کے کھانے کے لئے جاتا تو آج کے موسم میں تازہ مکھن سے چپڑی روٹی اور ایک آم‘ میرے منتظر ہوتے‘ اور ساتھ ثابت پیاز‘ جسے میں چارہائی کی باہیں پر رکھ کر زوردار مکے سے توڑتا۔ ہمارے علاقوں میں تب دوپہر کے لئے کوئی سالن تیار نہیں کرتا تھا۔ چپاتی لسی‘ پیاز‘ آم اور جولائی اگست میں کھجوروں کے ساتھ کھاتے۔ صرف آم ہی نہیں کھجوروں کے درخت بھی سرائیکی وسیب کی ثقافت میں نمایاں ہیں۔ میرے گھر میں تب چار کھجور کے اور ایک بیری کا درخت تھا۔ اب ایک بھی نہیں ہے۔ یاد آیا کہ جامعہ پنجاب کے زمانے میں پنجاب کے دیگر علاقوں سے آئے ہوئے دوستوں کو بتاتا کہ ہم آم اور کھجور سے دوپہر کی روٹی کھاتے ہیں‘ تو وہ مذاق اڑاتے۔ پُرانی روش کے لوگ ہیں‘ ہماری عادتیں کھانے پینے میں بھی پُرانی ہیں۔
آموں کے سیزن میں صبح کا ناشتہ اب بھی ایک آم اور روٹی کے ٹکڑے سے کرتا ہوں۔ شہری بابوئوں کا انداز ذرا مختلف ہوتا ہے کہ سلائس پر مکھن چپکا کے‘ جار میں بند آم یا دیگر پھلوں سے تیارکردہ مربّے کا لیپ کرتے ہیں۔ ہم دیہاتیوں کو آسان اور سادہ طریقہ پسند ہے۔ میرے گھر اور زمین پر آم کا کوئی درخت نہ تھا‘ بلکہ چالیس سال پہلے تک سارے قریبی علاقوں میں آم کے شاید چند پیڑ تھے۔ بازار میں پھل فروش راجن پور سے ٹوکروں میں بھرے آم خرید کر لاتے۔ راجن پور آم کے باغات میں گھرا چھوٹا سا قصبہ تھا۔ اب وہ باغات کہیں نظر نہیں آتے۔ ہر طرف شہر کا پھیلائو ہے۔ نئے محلے‘ تنگ گلیاں‘ بے ہنگم مکانات اور بازاروں نے سرسبز باغوں کی جگہ لے لی ہے۔ بچپن میں ہی دل میں ایک کسک تھی کہ میرے گائوں میں آموں کا کوئی باغ نہیں۔ اس کی وجہ سے بھی میں آگاہ ہو چکا ہوں۔ اس علاقے میں کچھ بڑے بڑے زمیندار تھے‘ زیادہ تر آبادی مزارعوں کی تھی۔ ان زمینداروں کے وسیع رقبے ان کی کفالت کے لئے کافی تھے۔ ایوب خان کی زرعی اصلاحات نے بڑے بڑے زمینداروں کی زمین تقسیم کر کے بے زمین کاشتکاروں میں تقسیم کیں۔ ہمارے شہری دانشور اور خصوصاً وہ جن پر کتابی نظریات کے جن کا سایہ تھا‘ کہتے ہوئے نہ تھکتے کہ اس ملک میں کبھی زرعی اصلاحات‘ جس سے مراد زمین کی تقسیم کی حد مقرر کر کے وافر رقبہ بے زمین مزارعین میں تقسیم کرنا ہے‘ کبھی نہیں ہوئیں۔ دو دفعہ ہو چکا ہے‘ بھٹو کے زمانے میں محدود پیمانے پر۔ پاکستان کے دیگر حصوں کے بارے میں وثوق سے کہتا ہوں کہ نیا زمیندار طبقہ پیدا ہوا‘ اور اس کی غالب اکثریت مقامی ہے۔ میں خود بڑا زمیندار نہیں‘ ادنیٰ درجے کا ہوں۔ آم کے باغات کا اتنا ثمر تھا کہ اپنی آمدنی سے بچت کی اور بنجر زمینیں سستے بھائو چالیس سال قبل خریدیں اور کچھ تقریباً بیس سال پہلے۔ بالکل بنجر‘ ایک انچ تک آباد نہ تھا‘ ریت کے ٹیلے تھے یا شور زدہ دائمی غیر آباد‘ ناقابلِ کاشت۔ یہ بات میں فخر سے نہیں کہہ رہا بلکہ اس نیت سے کہ میرے جیسے لاکھوں کاشت کاروں نے محنت اور لگن سے ملک کی زرعی پیداوار میں اضافہ کیا ہے۔ مجھے جو بھی ملتا ہے‘ اس سے میں بے حد خوش ہوں‘ بہت کچھ مل جاتا ہے‘ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں۔
تقریباً پچیس سال پہلے آموں کا باغ لگانا شروع کیا۔ میں نے اور میرے دو دوستوں سردار قدرت عزیز مزاری اور حاجی لعل بخش ملانہ نے تقریباً ایک ساتھ ہی آم کی کاشت کاری شروع کی۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے کہ کہاں کہاں سے ہم پودے لے کر آتے‘ اور سال کے آخر تک ہماری ناتجربہ کاری یا پانی کی کمی کی وجہ سے نصف سے کہیں زیادہ خشک ہو جاتے۔ میرے دونوں دوست اب ہم میں نہیں‘ اپنے باغات ورثے میں چھوڑ گئے۔ شروع میں ہمارے تین باغ تھے‘ اب جہاں تک یاد پڑتا ہے‘ پانچ چھ کے قریب ہیں۔ دیکھا دیکھی اور زمینداروں نے بھی آم کے باغات لگانا شروع کر دیئے۔ اپنی شہری دوستوں کے لئے عرض کرتا چلوں کہ آم کا پیڑ لگانے سے لے کر پالنے اور جوان کرنے تک بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ موسمی تبدیلیوں نے اور زیادہ مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ آندھیاں‘ بے موسمی بارشیں اور زیادہ یا کم سردی کا دورانیہ بھی پیداوار پر منفی اثرات ڈالتے ہیں۔ کچھ بھی ہو‘ ہمارا تو یہ شوق بھی ہے اور ثقافت بھی۔ آموں کی لذت‘ ان کی مختلف رنگت‘ اپنا اپنا ذائقہ‘ بناوٹ اور سائز کی سحر انگیزی کا لطف ہی اور ہے۔ جو باغ چند ایکڑ سے ربع صدی پہلے شروع کیا تھا‘ اب آہستہ آہستہ پھیل رہا ہے۔ اطراف میں بھی اور اوپر کی طرف بھی۔ اس سارے ڈرامے کا مرکزی کردار میں خود نہیں بلکہ محمد اقبال رئیس ہیں جو میرے قریبی دوست ہیں اور عزیز بھی۔ اجازت دے رکھی ہے کہ فون پر احکامات حاصل کرتا رہوں۔ خوش قسمت ہوں کہ ان کی اعانت حاصل ہے‘ ورنہ لاہور اور اسلام آباد میں بیٹھ کر تو باغبانی نہیں ہو سکتی۔ آج کے زمانے میں بہت آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ آم کے کاشت کار سندھ میں ہوں یا ملتان میں رابطہ آسان ہے‘ اور رہنمائی اور تعاون میں کوئی بخل نہیں کرتا۔ نئی اقسام اور کاشت کاری کے جدید طریقوں کے بارے میں ایک دوسرے سے بڑھ کر مدد کرتے ہیں۔ بہت مہربان ہیں۔
اچھی خبر یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے سندھڑی اور ملتانی چونسے کو عالمی سطح پر پاکستان کے نام کروانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ اسی طرح اور کئی ایسی ہماری اقسام ہیں‘ جو اکثر ان کے دریافت کرنے والے اور ترقی دینے والے مقامی کاشت کاروں کے ناموں پر ہیں۔ میرا مقصد آپ کی توجہ آپ کی معلوم اور پسندیدہ قسموں سے ہٹانا نہیں‘ مگر آموں کی نمائش کا موقع ملے تو آپ پُرانے ذائقے بھول جائیں۔ کاشت کاری‘ زراعت اور درختوں کا اگائو‘ پیسہ اور ذریعہ آمدنی تو ضرور ہیں‘ مگر ہمارے لئے تو یہ عشق‘ جنون اور ثقافتی ورثہ ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر