نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سدھرشن بھوٹانی||رسول بخش رئیس

جب میرے دوست پروفیسر پارتھا گھوش نے دہلی کے سفارتی حلقوں کے ذریعے ایمبیسیڈر سدھرشن بھوٹانی کا اتا پتا پوچھا تو بھوٹانی سے ان کا رابطہ ہو گیا اور میرا پیغام پہنچا دیا گیا۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چند ماہ پہلے دہلی میں وفات پا گئے۔ کچھ عرصہ پہلے دہلی میں اپنے ایک دوست سے بات کی کہ سدھرشن اور ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر سریندر بھوٹانی سے رابطہ بحال کرنا ہے‘ کافی عرصہ ہو گیا تھا‘ فون یا پیغامات کا تبادلہ نہ ہو سکا تھا۔ بھوٹانیوں کا تعلق راجن پور سے تھا۔ ان سے ملاقات کے بارے میں کچھ دیر بعد‘ پہلے کچھ اور تفصیلات۔ پاکستان آزاد ہوا تو دو طرفہ ہجرت اور خونریزی نے ایسی صورتحال پیدا کر دی کہ کچھ حصوں میں اقلیتوں کا اکثریت کے ساتھ رہنا مشکل ہو گیا۔ میری پیدائش پاکستان بننے کے چند ماہ بعد ہوئی۔ بچپن میں ہی سرائیکی وسیب کی ہندو آبادی کے قصے‘ کہانیاں اور کچھ المناک داستانیں سننے میں آئیں۔ یہ لوگ زیادہ تر شہروں اور قصبوں میں رہتے تھے۔ تعلیم‘ تجارت‘ ریاستی اور حکومتی محکموں میں بہت آگے‘ اور زیادہ تر متمول اور آسودہ حال تھے۔ کوشش کی گئی کہ ضلع ڈیرہ غازی خان سے ہندوئوں کا انخلا منظم طریقے سے ہو‘ کہیں فوج اور زیادہ تر پولیس کی نگرانی میں۔ جن دو دوستوں کا ذکر کیا ہے‘ ان کے والد جگن ناتھ بھوٹانی راجن پور میں مشہور وکیل تھے۔ ان کی کمیونٹی نے کچھ ٹرک دے کر انہیں روجھان مزاری روانہ کیا کہ لوگوں کو بحفاظت لے آئیں۔ یہ فاصلہ چالیس میل کے قریب بنتا ہے۔ قافلہ رات کے وقت روانہ ہوا تو راستے میں بلوائی بندوقیں لے کر تیار بیٹھے تھے۔مقامی لوگوں کے مطابق پولیس حملہ آوروں سے ملی ہوئی تھی۔ طے یہ پایا تھا کہ ہندوئوں کو قتل کر کے ان کا مال و اسباب لوٹ لیا جائے گا۔ فائرنگ شروع ہوئی تو حفاظت پر مامور جگن ناتھ بھوٹانی مارے گئے۔وہ اس وقت تینتالیس سال کے تھے۔ دو بیٹے‘ دو بیٹیاں اور بیوہ تو ہندوستان چلے گئے‘ وہ کہیں پنجاب کی مٹی کا حصہ بن گئے۔
بات آگے بڑھانے سے پہلے اب میں بھوٹانیوں سے ملاقات کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ دس پندرہ سال پہلے میں دہلی میں کسی کانفرنس میں شریک تھا۔ جب میں اپنی تقریر ختم کرکے بیٹھا‘ بحث مباحثہ ہوا‘ اور ہمارا پینل اختتام پذیر ہوا تو سدھرشن صاحب‘ جو عمر میں بارہ سال مجھ سے بڑے تھے‘ اپنا تعارف کرانے لگے: میں ایمبیسیڈر سدھرشن بھوٹانی ہوں اور ہم راجن پور سے ہجرت کرکے ہندوستان آئے تھے۔ یقین جانیں مجھے تو ایسا لگا کہ میرا کوئی بچھڑا ہوا بھائی نصف صدی بعد اچانک مل گیا ہے۔ ہندوئوں کی ہجرت اور المناک قتل کے بارے میں تو سن رکھا تھا‘ اور کچھ جانکاری بھی کی تھی‘ مگر واقعہ میں ہلاک ہونے والے کا نام کسی کو معلوم نہ تھا‘ البتہ لوگ مدن موہن کو یاد رکھے ہوئے تھے کہ اس کی گولی سے بلوائیوں میں کم از کم ایک جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ ہم گلے ملے اور لان کے ایک کونے میں بچھی کرسیوں پر بیٹھ کر ماضی کے دھندلکوں میں کچھ روشنی تلاش کرنے کی غرض سے اپنی ماردی زبان سرائیکی میں گفتگو کرنے لگے۔ جو کچھ میں نے سن رکھا تھا‘ بیان کیا تو سدھرشن جی نے کہا کہ وہ تو ان کے والد صاحب تھے۔ وہ کوئی زیادہ بات اس واقعہ کے بارے میں نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کافی کریدا کہ انہوں نے کہاں کہاں تعلیم حاصل کی اور کیسے ان کی والدہ محترمہ نے بچوں کو سنبھالا‘ اور وہ کیسے ہندوستان کے سفیر کے عہدے تک پہنچے۔ کافی دیر ہو چکی تھی‘ اگلے دن ملنے کا وعدہ کرکے چلے گئے۔
ہاں یاد آیا جب ہم محوِ گفتگو تھے تو سریندر بھوٹانی بھی آئے اور اپنا تعاف کراکے باتوں میں شامل ہو گئے۔ اگلے دن ایمبیسیڈر سدھرشن ”کھوسلا کمیشن‘‘ کی رپورٹ کے وہ اقتباسات بھی میرے لئے لے آئے‘ جن میں ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں ہندو مہاجرین کے ساتھ جو واقعات پیش آئے‘ وہ درج ہیں۔ اس رپورٹ میں ہلاکتوں کو بڑھا چڑھا کر لکھا گیا ہے۔ کم از کم میری محدود تحقیق کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ ظلم و تشدد کی آندھی‘ جو برصغیر میں اس وقت چلی تھی‘ لاکھوں معصوم لوگوں کی زندگیاں نگل گئی تھی۔ کس نے زیادہ لاشیں اٹھائیں‘ کون زیادہ لٹا‘ کس کے گھر‘ تجارت اور زندگیاں برباد ہوئیں۔ ان سوالوں کے جواب تلاش کرنا شروع کریں تو دل دہل جاتا ہے۔ میں مورخ تو نہیں ہوں‘ لیکن سیاسیات کے حوالے سے میری رائے یہ ہے کہ برطانوی تسلط ختم ہوا تو سامراجی ریاست کا شیرازہ ہی بکھر گیا۔ دو نئی مملکتوں میں استعداد ہی نہیں تھی کہ وسیع پیمانے پر جاری قتل و غارت کو روک سکتیں۔ ریاستی نظام دھڑام سے گرا تو لوگوں میں چھپی حیوانیت کھل کر سامنے آ گئی۔ ریاست اور آج کی قومی ریاستوں کے خلاف تنقید تو بہت ہوتی ہے مگر اس بات کا ادراک بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہے کہ اگر کہیں بھی ریاستی نظام تباہ ہو جائے تو معاشرے میں مذہب‘ فرقہ‘ زبان اور علاقہ کے تعصبات لے کر آبادیاں ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔ برطانیہ نے جس جلد بازی میں ذمہ داریوں سے سبکدوشی اختیار کی اس سے فسادات کو ہوا ملی۔ ہزاروں سال کے رشتے‘ زبان و ثقافت کے بندھن اور بھائی چارے نفرت کی آگ میں آناً فاناً بھسم ہو گئے۔
جب میرے دوست پروفیسر پارتھا گھوش نے دہلی کے سفارتی حلقوں کے ذریعے ایمبیسیڈر سدھرشن بھوٹانی کا اتا پتا پوچھا تو بھوٹانی سے ان کا رابطہ ہو گیا اور میرا پیغام پہنچا دیا گیا۔ اس وقت وہ بہت علیل تھے۔ اسی حالت میں ڈاکٹر نریندر کو ہدایت کی کہ وہ مجھے فوراً برقی پیغام بھیجیں۔ سکائپ پر ہم نے کئی سالوں کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی‘ مگر بہت کچھ کہنا سننا باقی رہ گیا۔ چند ہفتے بعد ہی سدھرشن جی آنجہانی ہو گئے۔ راجن پور کا یہ خاندان دہلی کے قریب گڑگائوں میں آباد ہوا۔ دیگر فرید آباد‘ دہلی‘ انبالہ اور جالندھر میں مقیم ہو گئے۔ سدھرشن نے نرملا کالج سے ایم اے انگریزی کیا۔ مقابلے کے امتحان میں امتیازی پوزیشن حاصل کی اور فارن سروس کو منتخب کیا۔ کئی ممالک کے سفیر رہے۔ اگلے دن سریندر نے بتایا کہ1985 میں سدھرشن کو پاکستان میں ہائی کمشنر تعینات کرنے کی پیشکش ہوئی تھی۔ جب اپنی اکلوتی بیٹی سے مشورہ کیا تو یہ آفر ٹھکرا دی۔ ان کا کہنا تھا کہ جس ملک کو ہم چھوڑ آئے ہیں‘ وہاں اب کیا جانا۔
سریندر بھوٹانی صاحب سے واٹس ایپ پر بات ہوتی رہتی ہے۔ سرائیکی میں بات کرتے ہیں۔ حیران ہوں ‘ انہوں نے جب پاکستان چھوڑا اس وقت ان کی عمر چار سال تھی۔ تاحیات ان کی والدہ محترمہ اپنے بچوں سے سرائیکی زبان میں بات کرتی رہیں۔ وہ تقریباً ہر دوسرے روز اپنی بہنوں سے مادری زبان میں بات کرتے ہیں۔ جغرافیہ بدل گیا اور زندگیوں کی ترکیب بھی‘ مگر ہمارے خطے سے ہجرت کرنے والی پہلی نسل نے آبائی زبان و ثقافت کو ہر جگہ اور ہر حال میں گلے سے لگائے رکھا۔ اپنی ماں کی زبان سے زیادہ کون سی زبان میٹھی اور پیاری ہو سکتی ہے؟ بھوٹانیوں نے تو اپنی ماں سے محبت کا حق ادا کر دیا۔ ماضی میں ہندوستان کے نہ جانے کتنے چکر لگے‘ کئی دفعہ ڈیرہ اسماعیل خان اور ملتان سے گئے خاندانوں کی نئی نسل کے کچھ مردوخواتین سے ملاقات ہوئی۔ بہت اصرار کرتے تھے کہ میں ان کے گھر جائوں‘ ان کے والد اور بزرگ رشتہ دار میری زبان میں بات کرکے بہت خوش ہوں گے۔ افسوس کہ ہر دفعہ وقت کی کمی آڑے آ جاتی رہی۔ کاش میں ان کی خواہش پوری کرتا ۔ سوچتا ہوں‘ وقت کے طوفان کے تھپیڑے ہمیں کہاں سے دھکیل کر کہاں پھینک دیتے ہیں۔ کیا کیا خواب‘ کیا کیا یادیں اور نہ جانے کتنے المیے دلوں میں سموئے دنیا کے لاکھوں‘ کروڑوں بھوٹانی زندگیاں گزارتے ہیں۔ سدھرشن جی سے چند ملاقاتیں ہوئیں‘ دبے الفاظ میں کہا کہ ہم نے اس المیے کا ذکر کبھی نہیں کیا‘ صبر سے سب کچھ جھیل کر زندگی کی دوڑ میں آگے نکل گئے۔ سریندر کو راجن پور آنے کی دعوت دی۔ اب وہ کئی دہائیوں سے پولینڈ میں آباد ہیں۔ کہا ”گزر گئی گزران‘ نہ جھونپڑی نہ مکان‘‘۔ معافی چاہتا ہوں‘ یہ بھی تو ہمارے ہی لوگ تھے۔ میرے دل میں تو ہمیشہ میرے ہی رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author