عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ دنوں ارسا کا اجلاس ہوا تو ممبران اُس وقت ہکا بکا رہ گئے جب چیئرمین مین ارسا راؤ ارشاد علی خاں نے سندھ کی طرف سے ممبر ارسا انجینئر زاہد حسین جونیجو کے منہ کی طرف اچانک تین رکنی فارمولے کی نقل کی فائل اور اپنا مائیک اچھال دیا-
سندھ کے ممبر زاہد حسین جونیجو اُس وقت چیئرمین ارسا جو پنجاب کی طرف سے رکن بھی ہیں کی طرف سے تونسہ پنجند کینال کھولے جانے کی تجویز پہ رائے دیتے ہوئے واضح کررہے تھے کہ یہ فیصلہ 1991ء کے واٹر اکارڈ کے خلاف ہے جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ٹی پی کینال سیلابی نہر ہے جب سیلاب ہوگا تب سیلاب کا پانی نہر میں ڈالا جائے گا دوسری صورت میں نہیں اور اُن کا کہنا تھا کہ
Three Tier Formula
1991ء واٹر اکارڈ کی خلاف ورزی ہے جس کو سندھ نے کبھی تسلیم نہیں کیا-
سرائیکی خطے کے سیاست دانوں اور سول سوسائٹی سے سوال:
انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت تربیلا ڈیم، تونسہ بیراج، مظفر گڑھ اور ڈی جی خان کینالز دریائے سندھ سے پانی کو جنوبی پنجاب سمیت اُن علاقوں کی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے فراہم کرنا تھا جو دریاؤں کی پانی کی تقسیم سے متاثر ہوئے لیکن تربیلا ڈیم کا پانی اول دن سے پنجاب کی اُن زمینوں تک بھی پہنچایا جارہا ہے جو انڈس واٹر ٹریٹی سے متاثر نہیں تھے اور پنجاب کی وردی بے وردی اشرافیہ نے سرائیکی وسیب کے علاقوں کو ایک متنازعہ کینال جو تونسہ پنجند لنک کینال کہلاتی کا لولی پاپ دیا جو آمر ایوب خان کے دور میں شروع کی گئی اور یحییٰ خان کے دور میں تعمیر ہوئی اس کینال کے بارے میں کہا گیا تھا کہ جب سیلابی پانی میسر ہوگا تو تونسہ پنجند بیراج سے پانی اس نہر میں بھیج دیا جائے گا- مگر بعد ازاں اس کو مستقل کردیا گیا-
پنجاب اریگیشن اتھارٹی ہمیشہ سے تربیلا ڈیم کے پانی کی چوری تو کرتی ہے ہی وہ پنجاب کے شیئر میں سے بھی سرائیکی وسیب کا پانی چوری کرتی ہے اور ہمارے خطے کی زمینوں کو ششماہی یا سیلابی نہروں سے پانی کی فراہمی کی کوشش کرتی ہے – جس سے سندھ سے تنازعہ پیدا ہوتا ہے –
سرائیکی خطے کے ساتھ سندھ طاس معاہدے میں سب سے بڑی زیادتی ہوئی تھی کہ اس خطے تک آنے والے دریا ستلج، بیاس اور راوی بیچ دیے گئے اور جو متبادل تجویز کیا گیا اُس میں بھی ڈنڈی ماری گئی –
ستلج ویلی پروجیکٹ جو ریاست بہاولپور کے وسائل و دولت سے تعمیر ہوا یہ پورا منصوبہ ستلج ہندوستان کو دیے جانے سے برباد ہوا اور ریاست بہاولپور کےترقی کرتے کئی ٹاؤن پسماندہ ہوگئے – دریائے بیاس کی فروخت نے بھی ریاست بہاولپور کو برباد کیا
سرائیکی خطے کی زمینوں کی سیرابی کے لیے پانی کی دستیابی کا حل سندھ کے پانی کی چوری نہیں ہے – نہ سرائیکی خطے کی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے سیلابی نہر کو زبردستی کھولنا حل ہے –
سندھ طاس ری پلیسمنٹ پروگرام کے مطابق جو پانی سرائیکی خطے کا حصہ بنتا ہے وہ دیا جائے اور پانی کی تقسیم کا جو فارمولا 1991ء میں بنا تھا اُس کے مطابق پنجاب سرائیکی خطے کو اس کا شیئر دے –
سرائیکی لوک سانجھ سمیت جتنی سرائیکی تنظیمیں ہیں وہ 1991ء کے واٹر اکارڈ کا جائزہ بھی لیں اور سرائیکی خطے کی عوام کو یہ بھی بتائیں کہ پنجاب نے وہ فارمولا طے کرتے وقت انڈس واٹر ٹریٹی سے متاثرہ علاقوں کے لیے جو ری پلیسمنٹ انتظام ہوا تھا کہیں اُس کے پانی کی تقسیم میں غیر متاثرہ علاقوں کو تو نہیں شامل کرلیا؟
اس ایشو سے بھی یہ احساس ہوتا ہے کہ سرائیکی خطے کا صوبہ بننا کتنا ضروری ہے تاکہ ارسا میں سرائیکی خطے کا نمائندہ سرائیکی خطے کے پانی کے حصے کا تحفظ کرسکے اور اسے سندھیوں سے لڑوانے کی سازش کا خاتمہ ہوسکے
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر