نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اب کورونا کے ساتھ ہی جینا ہوگا!||سارہ شمشاد

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان ایک طویل عرصے تک لاک ڈائون افورڈ نہیں کرسکتا اور اب جبکہ کورونا وبا کو ڈیڑھ برس کا عرصہ ہونے کو آیا ہے تو ضروری ہے کہ حکومت اپنی پالیسیاں کورونا کو مدنظر رکھ کر بنائے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حکومت کی جانب سے 8مئی سے 16مئی تک کے لاک ڈائون کے نتیجے میں کرونا کا زور انشاء اللہ ضرور ٹوٹ جائے گا لیکن اس کے لئے عوام کو بھی اپنے حصے کی قومی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا چاہیے اور عیدالفطر کے مبارک موقع پر سماجی میل جول اور سماجی فاصلوں کو ضرور برقرار رکھیں اور گھروں سے غیرضروری طور پر نکلنے سے گریز کریں کیونکہ یہی ایک طریقہ ہے جس سے ہم کورونا کو شکست فاش سے دوچار کرسکتے ہیں اور جتنا جلدی کرونا ہماری زندگیوں سے جائے گا ہم اتنا ہی جلدی معمول کے مطابق زندگیاں دوبارہ سے گزارنا شروع کردیں گے۔ اگرچہ این سی او سی نے انتباہ جاری کرتے ہوئے تمام صوبائی حکومتوں سے کرونا ایس او پیز پر سنجیدگی سے عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ صرف حکومتی لاک ڈائون کے نفاذ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکتے اس کےلئے ہر شخص کو انفرادی سطح پر اپنے حصے کا فرض ادا کرنا چاہیے اور بطور شہری ہم سب کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اگر اب بھی ہم نے احتیاط نہ کی تو صورتحال انتہائی گھمبیر ہوسکتی ہے اور خدانخواستہ ہمسایہ ملک بھارت جیسا معاملہ بھی ہوسکتا ہے اس لئے شہریوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آج کی تنگی ہمارے بہتر کل کے لئے ہے۔ تاجر حضرات کو بھی سمجھنا چاہیے کہ مشکل کی اس گھڑی میں اپنے نفع نقصان کی بجائے بطور ایک ذمہ دار شہری کے طور پر سوچیں کیونکہ اگر ہم تھوڑا عرصے مزید احتیاط سے کام لے لیں گے تو ملک میں جلد ہی معمول کی سرگرمیاں شروع ہوجائیں گی۔ اس لئے ان مشکل حالات سے نمٹنے کے لئے ہر کوئی ایس او پیز پر عمل کرکے اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالے۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا نے کورونا وبا کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے اور وہ ایس او پیز پر ایک باوقار قوموں کی طرح زندہ رہنے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہوگئے ہیںاور وہاں ان کے ممالک بھی کھولنا شروع ہوگئے ہیں اسی طرح اگر ہم پاکستانی بھی کورونا ایس او پیز کو فالو کریں اور اپنی قومی ذمہ داریوں کا ادراک کریں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کی بھی رونقیں بحال ہوجائیں گی۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جو زیادہ عرصے تک لاک ڈائون کا متحمل نہیں ہوسکتا تو ایسے میں حکومت پر لازم ہے کہ وہ عوام کو ذہنی طور پر اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار کرے کہ اب ہمیں کوروناکے ساتھ ہی زندہ رہنے کا ڈھنگ سیکھنا ہوگا اور اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ جتنا جلدی کورونا ایس او پیز کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال لیا جائے۔ تاہم ادھر حکومت کی کورونا وبا کنٹرول کرنے کی حکمت عملی کی تعریف نہ کرنا بڑی زیادتی ہوگی کہ اس نے بہترین انداز میں معاملات کو ہینڈل کیا۔ اگرچہ ابھی بھی بہت سے معاملات ایسے ہیں جن میں بہتری کی گنجائش پائی جاتی ہے ان میں کورونا ویکسین لگانے کی شرح میں تیزی سے اضافہ کیا جانا بے حد ضروری ہے یہی نہیں بلکہ مقامی طور پر بھی کورونا ویکسین بنانے کی تیاریاں زوروشور کے ساتھ شروع کردینی چاہئیں کیونکہ جتنی تیزی سے عوام کو کورونا ویکسین لگے گی اتنا ہی کورونا کے وار ٹوٹیں گے۔
تاہم دوسری طرف حکومت پر بھی لازم ہے کہ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہونے کے بعد کہ کورونا 5، 7برس تک کہیں نہیں جانے والا تو اپنے تمام تر ترقیاتی فنڈز صرف اور صرف کورونا ویکسین کے لئے رواں برس مختص کردینے چاہئیں کیونکہ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک اپنی پوری آبادی کوویکسین لگانے کا ہدف رواں برس مکمل کرلیں گے جبکہ کورونا کی تباہ کاریوں کا سوا ارب کی آبادی کا شکار ملک 2022ء تک یہ اہداف پورا کرنے کا اعلان کرچکا ہے جبکہ ہمارے ہاں جس رفتار سے کورونا ویکسین لوگوں کو لگائی جارہی ہے اس کے مطابق تو 22کروڑ کی آبادی کو ویکسین لگنے میں کئی برس لگ جائیں گے اور یوں پاکستان کی بڑی تعداد کو ایک طویل عرصہ تک کورونا ویکسین لگنے کا انتظار کرنا پڑے گا اس لئے ضروری ہے کہ حکومت پوری آبادی کو فری ویکسین لگوانے کے لئے تمام تر وسائل کو بروئے کار لائے تبھی جاکر حقیقت پسندانہ طریقے سے کورونا سے نمٹنے کی جامع حکمت عملی کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ حکومت ابھی سے کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد کے تحت بازاروں، مارکیٹوں، تعلیمی اداروں کے لئے بھی ایک جامع لائحہ عمل مرتب کرے۔ بازاروں، مارکیٹوں کے لئے پہلے ہی محدود اوقات کار جو مقرر کررکھے ہیں ان میں ایس او پیز پر عملدرآمد کے لئے فوج سے ایک طویل عرصے کے لئے مدد طلب کی جائے جو سول انتظامیہ کے ساتھ مل کر عوام کو ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ تاجر برادری کے ساتھ بھی وزیراعظم ایک میٹنگ بلاکر انہیں حکومت سے تعاون کی اپیل کریں اور ساتھ ہی انہیں عوام اور اپنے کسٹمرز کی زندگیوں کی حفاظت کے لئے ماسک اور سماجی فاصلے برقرار رکھنے کو ہرممکن طور پر یقینی بنایا جائے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان ایک طویل عرصے تک لاک ڈائون افورڈ نہیں کرسکتا اور اب جبکہ کورونا وبا کو ڈیڑھ برس کا عرصہ ہونے کو آیا ہے تو ضروری ہے کہ حکومت اپنی پالیسیاں کورونا کو مدنظر رکھ کر بنائے۔ بازاروں، مارکیٹوں، گروسری سٹورز، کنسٹرکشن، آفسز اور پرائیویٹ سیکٹر کے لئے جامع اور مربوط پلان پیش کیا جائے کیونکہ ہوٹل انڈسٹری ہو یا دیگر شعبے کورونا سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں اور 2کروڑ سے زائد لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں جبکہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے تو کورونا سے اس حد تک متاثر ہوئے ہیں کہ کئی بڑے ادارے بھی بند ہوگئے ہیں جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمین کو آدھی تنخواہوں پر ٹرخایا جارہا ہے اگرچہ سرکاری تعلیمی ادارے بھی بند ہیں لیکن حکومت انہیں سوائے ٹریولنگ الائونس کے باقی پوری پوری تنخواہ ڈیڑھ برس سے ادا کررہی ہے جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمین کو پہلے ہی پوری سوری تنخواہیں دی جاتی ہیں اور رہی سہی کسر کورونا کے دنوں میں آدھی تنخواہ وہ بھی بطور احسان سمجھ کر دینے نے نکال دی ہے۔
ایک ایسے دور میں جب ملازمتیں سرے سے موجود نہیں ہیں پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے ملازمین کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا چارہ باقی نہیں رہ جاتا اس لئے حکومت وقت پر لازم ہے کہ وہ تمام تر حالات و واقعات کا جائزہ لے کر مستقبل کے لئے کورونا حکمت عملی مرتب کرے۔ اگر یہاں پر کورونا سے سب سے زیادہ تمام شعبوں کی فہرست مرتب کی جائے تو اس میں تعلیمی شعبہ سرفہرست ہوگا جو تقریباً ڈیڑھ برس سے ہی بند ہے۔ پچھلے برس بھی امتحانات لئے بغیر بچوں کو پروموٹ کردیا گیا جبکہ رواں برس وزیر تعلیم شفقت محمود ہر صورت امتحان لینے کا کئی مرتبہ عزم کرچکے ہیں لیکن اس تمام تر صورتحال میں ایک بات جو مجھ سمیت ہر باشعور شہری کے لئے باعث تشویش ہے کہ ان دو برسوں میں پاس آئوٹ ہونے والے طلبا کی قابلیت کیا ہوگی اس لئے ضروری ہے کہ حکومت کورونا کے ساتھ ہی جینا ہوگا کی حکمت عملی مرتب کرے اور ہر شعبے کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایس او پیز مرتب کئے جائیں اور ان کے نفاذ کے لئے فوج سے مدد طلب کی جائے کیونکہ اگر کورونا وبا ایک دو برس مزید ختم نہیں ہوتی تو کیا تعلیمی ادارے اور دیگر کئی اہم شعبے مزید بند رہیں گے تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ پاکستان پہلے ہی بدترین بیروزگاری کا شکار ہے، مزید اضافہ اس کے لئے کسی ایٹم بم سے کم نہیں ہوگا اس لئے ضروری ہے کہ حکومت عوام کو کورونا کے ساتھ ہی جینا ہوگا بارے ذہنی طور پر تیار کرے اور انہیں ہر قیمت پر ایس او پیز فالو کرنے کا پابند بنائے تاکہ وطن عزیز میں معمول کی سرگرمیاں جلدازجلد بحال کی جاسکیں کیونکہ حالت نزع کی شکار پاکستانی معیشت کسی قسم کا مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتی اس سے پہلے کہ آتش فشاں پھٹے حکومت کورونا کے ساتھ ہی جینا ہوگا پروگرام کے ساتھ نئی پالیسیاں اور اصول و ضوابط مرتب کرے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author