نومبر 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کمال کرتے ہو‘ پانڈے جی!||رؤف کلاسرا

اس کے بعد یہ جماعت نئے الیکشن افورڈ نہیں کرسکتی۔ جس وزیراعظم سے اپنا ایک وزیر برطرف نہیں ہوتا‘ ان کے بارے کہا جارہا ہے وہ پوری اسمبلی برطرف کر دیں گے۔ کمال کرتے ہو‘ پانڈے جی!

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلے یہ دھمکی وزیراعظم صاحب خود دیتے تھے‘ اس بار یہ دھمکی دینے کا کام شوگر سکینڈل کے ایک مرکزی کردار اسد عمر کو سونپا گیا ہے۔
خان صاحب نے یہ دھمکی ان دنوں دی تھی جب یوسف رضا گیلانی سینیٹ کی سیٹ پر اسلام آباد سے الیکشن لڑ رہے تھے کہ اگر حفیظ شیخ الیکشن ہار گئے تو وہ اسمبلی توڑ دیں گے۔ اس وقت کسی سیانے نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ اگر وہ یہ بیان دے دیں تو ان کی پارٹی کے ایم این ایز ڈر کے مارے گیلانی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اس دھمکی کے پیچھے راکٹ سائنس یہ تھی کہ ہر ایم این اے کروڑوں روپے لگا کر الیکشن لڑ کر اسمبلی میں پہنچتا ہے۔ وہ کبھی پانچ سال سے پہلے دوبارہ حلقے میں جا کر الیکشن نہیں لڑنا چاہے گا۔ ان کو کروڑوں روپوں کے ترقیاتی فنڈز نظر آرہے ہوتے ہیں جن میں پندرہ سے بیس فیصد تک حصہ ہوتا ہے۔ پھر پارلیمنٹ میں انہیں تگڑی تنخواہ اور مراعات الگ مل رہی ہوتی ہیں۔ بیرون ملک دورے الگ سے۔ پورے خاندان کا میڈیکل الاؤنس بھی ملتا ہے۔ رہنے کو اسلام آباد جیسا شہر میسر ہو جاتا ہے۔ دوسرا وسائل کا ایشو بھی ہے کہ پھر وہ ایم این اے دوبارہ پانچ دس کروڑ روپے خرچ کرے اور پھر اس بات کی کیا ضمانت کہ وہ یہ الیکشن جیت بھی جائے۔ پھر ان دو تین برسوں میں یعنی جب وہ سے ایم این اے بنا ہوتا ہے‘ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے لوگ اس سے بددل ہو چکے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے کام ہو جاتے ہیں تو اکثریت ناراض ہو چکی ہوتی ہے۔ مہنگائی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مسائل کا جوں کا توں رہنا بھی ایک اور وجہ ہوتی ہے۔ یہاں اب تک کوئی بھی ایسی حکومت نہیں آئی جو پانچ سال گزارنے کے بعد دوبارہ الیکشن جیت سکی ہو۔ سب حکومتیں الیکشن ہارتی آئی ہیں۔ صرف بھٹو صاحب کی حکومت ایسی تھی جس نے ستر کی دہائی میں دوبارہ الیکشن جیتا‘ لیکن اس اسمبلی کا اجلاس کبھی نہ ہوا اور مارشل لا لگا دیا گیا‘ لہٰذا سب حکومتوں اور انکے سیاسی سربراہوں کو علم ہے کہ جو کچھ ہے وہ یہی پانچ سال ہیں۔ جو مزے کرنے ہیں انہی پانچ سالوں میں کرلو۔ اسی لیے کسی وزیراعظم کو جرأت نہیں ہوتی کہ وہ اسمبلی توڑے‘ نہ ہی ایم این ایز ایسا چاہتے ہیں۔ اس طرح کی دھمکیاں صرف ڈرانے کیلئے دی جاتی ہیں کہ کبھی بجٹ پاس کرانا ہو اور ایم این ایز آنکھیں دکھا رہے ہوں تو پھر وزیر اعظم کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ یہ بات کہہ دیں‘ اس سے نتیجہ بہتر نکلے گا۔
سوال یہ ہے کہ خان صاحب نے یہ دھمکی سینیٹ کے الیکشن کے وقت بھی دی تھی‘ تو کیا حفیظ شیخ الیکشن جیت گئے تھے؟ حالانکہ اس وقت بھی یہی سمجھا گیا تھا کہ وزیر اعظم جو بات کرتے ہیں اس پر عمل کر گزریں گے اور اسمبلی ٹوٹ جائے گی‘ لہٰذا ایم ایم ایز حفیظ شیخ کو ہی ووٹ ڈالیں گے؟ اس ایک واقعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اگر معاملات زیادہ سیریس ہوں تو پھر ایسی دھمکیاں بھی کام نہیں کرتیں۔ پھر ایم این ایز پروا نہیں کرتے۔ اگرچہ بہت سارے تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ عمران خان کی یہ دھمکی کام دکھا جائے گی اور کوئی ایم این اے اپنی ہی حکومت کو سینیٹ کی اسلام آباد والی نشست نہیں ہرائے گا۔ کوئی بھی اتنا بڑا خطرہ مول نہیں لے گا۔
لیکن یوسف رضا گیلانی وہ سیٹ جیت گئے اور حکومتی پارٹی کے لوگوں نے انہیں ووٹ ڈالا‘ بلکہ خبر یہ تھی کہ کل پینتیس کے قریب حکومتی ایم این ایز نے گیلانی صاحب کو ووٹ ڈالنے کا وعدہ کیا تھا‘ لیکن بعد میں بیس کو منا لیا گیا تھا یا ٹریس کرکے حکومت کو بتایا گیاجس پر بات چیت ہوئی لیکن پندرہ سولہ نے پھر بھی گیلانی کو ووٹ ڈالا جس سے وہ جیت گئے۔ انہی حکومتی ایم این ایز نے وزیر اعظم کی دھمکی کا پول کھول دیا اور انتظار کرنے لگے کہ کب اسمبلی توڑی جاتی ہے‘ لیکن خان صاحب نے بھول کر بھی ذکر نہیں کیا۔ الٹا وزیر اعظم نے اسی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا‘ جس کو انہوں نے توڑنا تھا۔سوال یہ ہے جو کام وزیر اعظم اس وقت نہیں کر سکے جب کرنا چاہئے تھا تو اب کونسے ایسے مسائل ہیں جس کی وجہ سے اسد عمر کا خیال ہے وہ حکومت توڑ دیں گے؟فرض کریں اگر وہ حکومت توڑ بھی دیں تو کیا ان کی پارٹی دوبارہ الیکشن لڑ کر جیتنے کی پوزیشن میں ہے؟ اب اگر وہ الیکشن جیت کر دوبارہ حکومت نہیں بنا سکتی تو کیا پانچ سال مزید اپوزیشن میں بیٹھ کر نئے الیکشن کا انتظار کرے گی تاکہ وہ پھر اکثریت لے کر حکومت بنائے؟
ان تین برسوں میں پلوں کے نیچے سے کتنا پانی گزر چکا ہے۔ تین سال پہلے بھی جتنی مشکلوں سے حکومت بنائی گئی تھی وہ ہمارے سامنے ہے۔ بھان متی کا کنبہ جوڑا گیا تھا۔ چوہدریوں‘ جنہیں عمران خان پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے‘ کو ساتھ ملانا پڑا۔ ایم کیو ایم‘ جیسے وہ قاتلوں کی جماعت کہتے تھے‘ کو ساتھ ملانا پڑا۔ ہر وہ بندہ جس پر تحریک انصاف نے تبرہ پڑھا تھا‘ اسے اپنے ساتھ ملا کر وزیراعظم کا ووٹ لینا پڑا۔ طاقتوروں نے بھی مدد کی۔ پورا میڈیا اس وقت عمران خان کے پیچھے کھڑا تھا۔ سول سوسائٹی بڑی حد تک ساتھ تھی۔ نواز شریف اس وقت پانامہ سکینڈل بھگت رہے تھے اور ان کی جائیدادوں کی تفصیلات سامنے آرہی تھیں‘ لہٰذا ان واقعات سے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا تھا‘ سب حالات ان کے حق میں تھے۔ سوال یہ ہے اب اگر اسمبلیاں توڑی جائیں تو کون سے فیکٹرز عمران خان صاحب کے حق ہیں؟ اب انہی چارج شیٹس کا سامنا حکومت خود کررہی ہے‘ جو خان صاحب اپنے سیاسی مخالفیں پر لگاتے تھے۔ ڈھائی تین سالوں میں‘ اب وہ عمران خان پہنچانا نہیں جاتا جو دو ہزار اٹھارہ میں وزیراعظم بنا تھا۔ انہوں نے اس عرصے میں اپنا کیا گیا شاید ہی کوئی پورا کیا ہو۔ کون سا سکینڈل ہے جس کا سامنا ان کی پارٹی نہیں کررہی۔ اس وقت درجن بھر سکینڈلز ہیں جن میں وزیر براہ راست ملوث ہیں۔ ابھی شوگر سکینڈل میں پنجاب سے صوبائی وزرا کو نیب نے بلایا لیا ہے کہ وہ کیسے اربوں روپوں کی سبسڈی دینے میں پیش پیش تھے‘ جس سے بحران پیدا ہوا اور جہانگیر ترین، خسرو بختیار، شمیم خان اور دیگر خاندانوں نے فائدہ اٹھایا؟ جہانگیر ترین سے یاد آیا اسد عمر اس وقت اسمبلیاں تڑوانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں جب چالیس کے قریب پارلیمنٹیرینز کا گروپ پی ٹی آئی میں سامنے ابھرا ہے جو اس وقت کھلم کھلا حکومت کو چیلنج کررہا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کے پاس صرف دس ایم پی ایز ہیں اور انہوں نے پنجاب میں خان صاحب کو وختا ڈالا ہوا ہے‘ سپیکرشپ کے علاوہ دو تین وزارتیں بھی لے رکھی ہیں اور روز تڑیاں الگ لگاتے ہیں جبکہ ترین گروپ کے ساتھ تو چالیس لوگوں کا گروپ ہے۔ اس گروپ میں دس بارہ وہ ایم پی ایز بھی شامل ہیں جنہیں تحریک انصاف نے ٹکٹیں نہیں دیں تو وہ آزاد الیکشن لڑے اور تحریک انصاف کے امیدواروں کو ہرایا۔ اس طرح چالیس لوگ کھلم کھلا بغاوت پر اتر آئے ہیں۔ وہ جب سر عام خان صاحب کے سامنے جا بیٹھے ہیں تو پھر انہیں پروا نہیں کہ حکومت رہتی ہے یا جاتی ہے یا نئے الیکشن ہوتے ہیں۔ وہ سب اب اپنا مستقبل جہانگیر ترین کے ساتھ دیکھتے ہیں اور وہ تحریک انصاف سے ٹکٹیں لینے کے روادار بھی نہیں ہیں۔
جو اتنی مشکلوں‘ اور اپنے سیاسی دشمنوں سے کمپرومائز کرنے کے بعد وزیراعظم بنے ہیں اور سکینڈلز میں ملوث اپنے درجن بھر چھوڑیں ایک وزیر بھی برطرف نہیں کر سکتے بلکہ وزیروں کی وزارتیں ایک دوسرے سے بدلتے رہتے ہیں کیونکہ خطرہ ہے عددی اکثریت کم نہ پڑ جائے‘ وہ اپنی پوری حکومت برطرف کر دیں گے؟ یہ سیاسی بڑھکیں ہیں جو ہر سیاستدان مارتا رہتا ہے۔ ویسے بھی جو کچھ ڈسکہ، نوشہرہ اور اب کراچی میں تحریک انصاف کے ساتھ ہوا ہے‘ اس کے بعد یہ جماعت نئے الیکشن افورڈ نہیں کرسکتی۔ جس وزیراعظم سے اپنا ایک وزیر برطرف نہیں ہوتا‘ ان کے بارے کہا جارہا ہے وہ پوری اسمبلی برطرف کر دیں گے۔ کمال کرتے ہو‘ پانڈے جی!

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author