عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوعشرے گزر گئے اور پتا بھی نہیں چلا کہ حسنین جمیل اپنی افسانوں کی تیسری کتاب لیکر آدھمکا ہے۔ اس دوران وہ دنیا کے نو ملک گھوم چکا ہے اور اب وہ خود کو ایک سکّہ بند لکھیک خیال کرتا ہے۔ مجھے اس نے اپنے افسانوں کی تیسری کتاب بھیجی اس کا نام اسی کتاب میں شامل ایک افسانے کے نام پہ ہے ۔ نام ہے "ہجرت”۔
یہ دسمبر کے آخری دن تھے اور جنرل مشرف کے مارشل لاء کو لگے تیسرا مہینہ چل رہا تھا۔
سخت سردی پڑ رہی تھی اور سرشام لاہور شہر میں دھند اترنا شروع ہوتی تو رات گئے تک حد نگاہ صفر ہوجایا کرتی تھی۔ میں سورج غروب ہونے کے وقت ہفت روزہ جدوجہد کے دفتر واقع 7 ایجرٹن روڑ سے نکلا اور فلیٹیز ہوٹل کے سامنے سے پیدل چلتا ہوا چئیرنگ کراس اور اس سے آگے مال روڑ پہ چلتے چلتے دیال سنگھ مینشن پہنچا اور وہاں پہ بنے پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے دفتر کی سیڑھیآں چڑھتا گیا- دفتر پہنچا تو کامریڈ عامر سہیل نے میرا آگے بڑھ کر گرم جوشی سے استقبال کیا اور میں ایک کرسی پہ بیٹھ گیا- تھوڑی دیر ہمیں بات چیت کرتے ہوئی تھی کہ ایک نووارد داخل ہوا۔
عامر سہیل نے اسے بھی گلے سے لگایا اور وہ نووارد نوجوان میرے ساتھ پڑی کرسی پہ بیٹھ گیا- کامریڈ نے پہلے میرا تعارف کرایا اور پھر اس نوجوان ک تعارف کراتے ہوئے کہا کہ اس کا نام حسنین جمیل ہے اور ترقی پسندوں کی صف مں یہ نیا نیا بھرتی ہوا ہے۔ اسے بنیادی طور پہ کہانیوں کے لکھنے کا شوق ہے اور ویسے یہ صحافت کرنے کے لیے پل تول رہا ہے۔ ہم عامر سہیل کے پاس سے رات کے نوبجے اٹھے اور باہر آئے تو ہر طرف دھند ہی دھند تھی، ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا لیکن مال روڈ پہ فوگ لائٹس نے دھند کو ہی دھندلا بنا رکھا تھا۔
حسنین جمیل نامی وہ نوجوان میرے ساتھ ہی تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ اب میرا کہاں جانے کا ارادہ ہے تو میں نے اسے بتایا کہ میں لارنس باغ جاؤں گا اور اس مہینے سے جڑی اپنی کچھ یادوں کو اسی باغ میں تلاش کرنے کی کوشش کروں گا۔
میری بات سن کر وہ نوجوان پھڑک اٹھا اور کہنے لگا کہ میں بھی ساتھ چلتا ہوں۔ ہم فٹ پاتھ پہ ہولیے اور میں نے حسنین جمیل سے پوچھا کہ کہ کیا اسے پتا ہے کہ ہمارے پیچھے داتا صاحب کے پاس گھوڑا ہسپتال کے قریب ایک ہندؤ ہاسٹل ہوا کرتا تھا اور وہاں کرشن چندر نے رہائش رکھی ہوئی تھی اور کرشن چندر اس ہاسٹل سے نکل کر مال روڈ پہ آتا اور اولڈ کیمپس ، ٹولنٹن مارکیٹ، پرانی انار کلی، وائی ایم سی اے ہال، جی پی او ، لاہور ہائیکورٹ کے سامنے سے گزرتا ہوا، اس فٹ پاتھ پہ خراماں خراماں چلتا ہوا لارنس باغ تک جاتا تھا جس پہ اس وقت ہم چل رہے ہیں۔ حسنین جمیل نے کہا کہ نہیں اسے نہیں پتا۔ میں نے کہا تقسیم سے پہلے اور تقسیم کے بعد نجانے کون کون اس سڑک کے کنارے پیدل خراماں خراماں چلتا ہو لارنس باغ تک پہنچتا ہوگا۔
مجھے ان کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے اور ان کی سرگوشیاں مرے کانوں میں گونجتی ہیں اور میں چشم تصور ایک ایسا منظر پینٹ کرنا چاہتا ہوں جس میں، میں نوین کلاس میں داخلہ لینے والے بھگت سنگھ کو پہلی بار مال روڈ کی سڑک پہ عظیم الشان عمارتوں کے درمیان حیرت کی تصویر بنے دکھاؤں۔ ہم ریگل چوک سے سے پہلے تھوڑے فاصلے پہ وین گارڈ بکس شاپ کے ساتھ اندر کو جاتے ہوئے گلی کے پاس سے کزرنے لگے تو میں نے حسنین جمیل کو کہا کہ ٹھہرو، یہ گلی دیکھو یہ تمہیں سیدھا لکشمی مینشن لے جائے گی اور تم منٹو کے گھر سامنے بنے پارک میں خود کو پاؤگے۔ لاہور شہر اکیلا ہی ظاہری حیات سے سرفراز لوگوں کے ساتھ سانس نہیں لیتا بلکہ یہ اپنے اندر ان آتماؤں اور روحوں کو بھی سموئے ہوئے ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ بھی چلتی ہیں۔ ہم یہ باتیں کرتے کرتے لارنس باغ پہنچ کئے۔
میں نے حسنین جمیل کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ لیے لیے ایک اونچی پہاڑی پہ جا پہنچا جہاں پہ کئی درخت تھے لیکن ان میں ایک درخت بالکل سیدھا کھڑا ہوا تھا – میں نے جیب سے ایک چھوٹی سی ٹارچ نکالی اور اس کی روشنی درخت کے تنے کی طرف کی ، اس پہ ایک نیم پلیٹ لگی ہوئی تھی جس پہ درخت کا نام بدھا لکھا تھا اور یہ براذیل سے لاکر یہآں لگایا گیا تھا۔
میں اسے بدھا درخت کی دوسری سمت لے گیا اور وہاں تنے پہ چاقو سے تنے کی چھال تراش کر دو نام لکھے ہوئے تھے۔ حسنین جمیل ان ناموں کو پڑھ کر اچھل پڑا اور ایک نام بارے پوچھنے لگا کہ وہ ہستی کون تھی؟ نام کیا تھا؟ کیا کرتی تھی اور اس ہستی کا یہاں آپ کے نام کے ساتھ لکھے ہونے کا کیا مطلب ہے۔ میں اسے اس جڑھائی پر کافی سارا اگے لے گیا اور ایک جگہ پہ میں نے کئی ایک درختوں پہ کندہ ایسے ہی نام اسے دکھائے۔
دسمبر کے آخری دنوں میں جب تعلیمی اداروں میں دس دن کی چھٹیاں ہوجایا کرتی تھیں تو ہم سرکاری ہاسٹل سے پرائیویٹ رہائش گاہوں میں منتقل ہوجایا کرتے تھے۔ وہ ہستی ورکنگ ویمن ہاسٹل میں اپنی ایک سینئر کولیگ کے پاس رہا کرتی اور میں راتوں کا آخری حصّہ کبھی ایبٹ روڈ پہ بنے رسالہ جدوجہد کے دفتر میں فرش پہ بستر لگاکر گزارتا تو کبھی شیل پاشا کے چیمبر میں اورکبھی فٹن روڈ پہ سی ایم کے پی کے دفترمیں تو کبھی جین مندر میں بنے پی پی پی کے دفتر میں راتیں گزارا کرتا تھا۔ اورراتوں کا بیشتر حصّہ اس ہستی کے ساتھ اس باغ میں گزرا کرتا تھا۔
وہ دن عجب سرشاری کے ہوا کرتے تھے اور ایسے لگت تھا کہ ایک رات ایسی ضرور آئے گی جب وہ اور میں بدھا کے درختوں میں بدل جائیں گے جو آمنے سامنے ایستادہ ہوں گے جن کی شاخیں ایک دوسرے کے ساتھ گلے مل رہی ہوں گی۔ وہ شاید کرسمس کی رات تھی جس رات نجانے ہم کس طرح کے وجد میں تھے کہ پاس ایک بیل سے پھول کے ساتھ لگے موٹے سے خار کو ہم نے پھول سے الگ کیا اور پہلے اس ہستی نے اپنی کلائی سے جھلکتی سبز رنگ کی رگوں دو نمایاں رگوں میں سے ایک رگ میں اس کانٹے کی نوک کو گھسایا اور اس سے قطرہ قطرہ نکلتے سرخ لہو سے موٹے سے تنکے کو بھگویا اس سے نوٹ بک سے پھاڑے ہوئے ایک صفحے پہ امجد اسلام امجد کی نظم کی پہلی سطریں لکھیں اور پھر وہ صفحہ میری طرف بڑھایا میں نے بھی ایک رگ ميں وہ خار چبھویا اور چند قطروں کے ساتھ تنکے کو ڈبویا اور اگلی سطریں لکھ ڈالیں اور پھر وہ ترنم سے تھوڑی اونچی آواز میں اس نظم کو پڑھنے لگی ۔۔۔۔ آخری چند دن دسمبر کے ۔۔۔۔۔۔۔۔
بھئی خواہشوں کا نگار خانہ کیسا ہوتا ہے اور اس میں کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں اس کا احساس مجھے اس ہستی کی سبز آنکھوں میں جھانکنے سے ہوا کرتا تھا اور ہر رات ہم یہ تمنا کرتے کہ رات کبھی ختم نہ ہوں۔ میں حسنین جمیل کو یہ سب سنا رہا تھا تو اس کی آنکھوں میں خواہشوں کے چراغ جلتے میں نے دیکھے تھے۔ وہ اس رات تین گھنٹے میرے ساتھ بیٹھا رہا اس دوران ہم نے کامریڈ عامر سہیل کا دیا ہوا لنگر پانی نوش کرڈالا تھا اور مجھے لگتا تھا کہ میں اسقدر ہلکا پھلکا ہوگیا ہوں کہ وہآن درختوں کے درمیاں اڑتا پھر رہا ہوں۔ شاید اس سے ملتی جلتی کیفیت حسنین جمیل کی بھی ہوگی۔ خیر اس نے تین گھنٹوں بعد وہاں سے اٹھنے کا ارادہ کیا، میں نے اسے اجازت دی اور ساتھ نہ آنے پہ معذرت کی۔ یوں یہ پہلی ملاقات اپنے اختتام کو پہنچی اور کچھ عرصہ بعد مجھے ڈاک سے حسنین جمیل کے افسانوں کی کتاب موصول ہوئی۔
ميں نے وہ سب پڑھے یہ کافی مشقت بھرا کام تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مجھ پہ حسن عسکری کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اور میں عسکری صاحب کی فکشن خاص طور پہ افسانے پہ کہی رائے کو حرف آخر سمجھا کرتا تھا۔ عسکری صاحب کو ادب سمیت ہر شعبے میں میڈیکوری سے شدید نفرت تھی اور ان کا کہنا تھا کہ خلاقیت اور میڈیکوری دو متضاد چیزیں ہیں ان کا اجتماع کم ازکم ایک جگہ پہ نہیں ہوسکتا۔ اسی زمانے میں میں نے تازہ تازہ ایذرا پاؤنڈ، ٹی ایس ایلیٹ اور آئی اے رچرڈز کو پڑھا تھا اور یہ سب مجھے ادب پہ تنقید کے دیوتا لگتے تھے کیونکہ عسکری صاحب بھی ایسا ہی سمجھتے تھے –
اب بھلا جس کے دماغ پہ بابو گوپی چند جیسے افسانوں کا خمار چڑھا ہو اسے ایک میڈیکور اور نوآموز کی کچی زیادہ اور پکّی کم کہانیوں نے کیا متاٹر کرنا تھا- میں اپنی اس کیفیت اور جذب کے ساتھ حسنین جمیل کی کہانیوں پہ کچھ لکھتا تو اس کی دوستی کو کھو بیٹھتا اور یہ ان دنوں میرے سے ہو نہیں سکتا تھا۔ سو تھوڑی دیر کے لیے میں احمد ندیم قاسمی بن گیا اور ان کے لکھےدرجنوں فلیپ میں سے ایک مشترکہ فارمولا دریافت کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ جیسے احمد ندیم قاسمی اپنے تنقیدی وجدان کو اور اچھے اور برے فکشن کے ساتھ ساتھ اچھی اور بری شاعری کی کمال تمیز رکھنے کے باوجود میڈیکوری سے سرزد ہوئے "افسانہ نما/کہانی نما” اور "شاعری نما” چیزوں پہ تعریفی فلیپ لکھ ڈالتے تھے ایسے ہی ميں نے فلیپ نما مضمون لکھ مارا۔ اب مجھے یاد نہیں کہ وہ کون سے اخبار کے ادبی صفحے پہ شایع ہوا تھا لیکن مجھے یہ یاد ہے کہ حسنین جمیل اسے پڑھ کر بہت خوش ہوا تھا اور اس کے بعد وہ جب بھی مجھے ملتا تو اس فلیپ نما مضمون کا تذکرہ کرتا اور شکریہ بھی ادا کرتا۔
میں اندر ہی اندر تھوڑا شرمندہ بھی ہوتا اور کئی بار دل کرتا کہ سچ بول دوں لیکن ایسا کہنے کی ہمت اکٹھی کرنے جرآت نہیں ہوتی۔ ہماری گاہے بگاہے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ میں ہفت روزہ ہم شہری لاہور میں اسٹاف رپورٹر کے کام کرنے لگا اور وہاں دفتر میں آتے جاتے ملاقات رہتی اور ہر ہفتے میری لکھی کوئی رپورٹ، ڈائری، فیچر جب ہم شہری میں چھپتا تو وہ اکثر مجھے کال کرکے داد دیتا۔ پھر وہ انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان میں تھوڑا عرصہ کے لیے ملازمت کرنے لگا اور عاصمہ جہانگیر کا سیکرٹری ہوگیا۔ عاصمہ جہانگیر نے جب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی مرکزی صدارت کا الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا۔ عاصمہ جہانگیر حامد خان گروپ کے مدمقابل تھی اور ان کے خلاف کئی ایک صحافی تکفیری مہم چلاتے ہوئے پائے گئے یہاں تک کہ عاصمہ جہانگیر کے خلاف احمد نورانی اور اعتزاز سید جیسے صحافی بھی بھی سرگرم تھے۔ میں نے اس پوری مہم کے دوران نہ صرف ویکلی ہم شہری لاہور میں ان کو کاؤنٹر کیا بلکہ روزنامہ "آج کل” لاہور، روزنامہ خبریں ملتان مین بھی اپنے کالموں اور تجزیے بھی عاصمہ جہانگیر کے حلاف مذہبی کارڈ کے استعمال کا خوب رد کیا۔
پھر حسنین جمیل نے ہی مجھے بتایا عاصمہ جہانگیر مجھ سمیت ان چند صحافیوں کے حق میں ایک تقریب کا اہتمام کررہی ہیں جنھوں نے حقائق پہ مبنی ان کے الیکشن کو رپورٹ کیا تھا۔ میں اس تقریب میں شریک ہوا -اس کے بعد بھی حسنین جمیل سے ملاقاتیں ہوتی رہیں اور پھر پتا چلا کہ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین پنجاب کی لاہور برانـچ کا جنرل سیکرٹری مقرر ہوگیا۔ ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ جاری و ساری رہا اور اس دوران اس نے ایک کتاب اور اپنے افسانوں کی مارکیٹ میں متعارف کرادی۔ اب کہیں تین سال بعد اس کے افسانوں کا مجموعہ "ہجرت” کے نام سے چھپ کر آگیا ہے۔ یہ افسانوی مجموعہ شومئی قسمت ایک ایسے وقت میں مجھے ملا جب میں "گاہے گاہے باز خوانی این قصہ ہائے پارینہ را” کے تحت ایک طرف تو درجن بھر ناول (نئے اور پرانے ) پڑھنے میں مصروف تھا تو ساتھ ساتھ میں فکشن یے باب پہ وارث علوی کے مضامین کا دوبارہ مطالعہ کرنے بیٹھ گیا تھا- اجتہادات روایات کی روشنی میں ، جدید فکشن پہ تنقید اور نئے افسانہ نگاروں کے بارے میں وارث علوی کی رائے کو دوبارہ سے پڑھنے لگا تھا۔ وارث علوی نے فکشن میں میڈیکوری کی جو درگت بنائی تھی اس دوران حسنین جمیل کے افسانوں کے مجموعے "ہجرت” کا مجھے موصول ہونا اور اس کا پڑھنا ایک ایسی مشقت تھی جس بارے میں فساد کے ڈر سے کچھ بھی کہنے سے گریز کررہا ہوں۔
ان کے تیسرے مجموعے پہ فلیپ خالد فتح محمد نے لکھا ہے جن کے تین ناول اور چند ایک افسانے میں نے پڑھ رکھے ہیں اور وہ بھی آتے میڈیکوری کی ہی صف میں ہیں لیکن وہ میڈیکوری بھی بنت کے اعتبار سے بہت ہی اچھی ہے۔ لیکن انہوں نے فلیپ میں جو کچھ لکھا ہے اس سے مجھے ان کے جیئنن ادیب ہونے پہ شک ہوگیا ہے۔ میں حسنین کی تیسری کتاب پہ کچھ بھی لکھنے سے گریز برتتا رہا اور نہیں چاہتا تھا کہ ان کے باب میں اس طرح کی انڈرسٹیندںگ سے کام لیکر لکھوں جیسے انھوں نے عباس زیدی کے ناول ” کفار مکّہ” پہ تبصرہ لکھا تھا۔ انھوں نے جس حسیّت کے ساتھ پرانے ترقی پسند ادیبوں اور ان کے ادب پہ تبصرے بازی کی تھی ایک بار تو جی چاہا تھا اس سے ملتی جلتی حسیّت کے ساتھ لکھ ڈالوں۔
ترقی پسند حسّیت کا دعوے دار "یوتھیا حسّیت” کا شکار کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ سوال بھی مجھے حسنین جمیل کے باب میں کافی تنگ کرتا رہا ہے-ویسے آج کل وہ اپنے افسانہ نما شذروں میں اپنے کرداروں کی حالت "ایک جھٹکے میں اس نے آنکھیں کھول دیں” اور "جھٹکے سے اس نے آنکھیں بند کرلیں” جیسے جملوں کے زریعے سے بیان کرتا ہے۔
"اینٹ ” سے لیکر "میرا بھگوان مجھے لوٹا دو” میں کل 12 افسانہ نما شذرے میں نے جس مشقت کے ساتھ پڑھے یہ مجھے ہی پتا ہے۔ اس بے لذت گناہ کا ارتکاب کرتے ہوئے مجھے خوشی اس بات کی ہوئی کہ جتنی گھٹیا کہانی کی کرافٹنگ میں کرتا ہوں، اس سے کہیں زیادہ اسفل میرا دوست حسنین جمیل کرتا ہے۔ منٹو کا خیال تھا کہ اردو ٹائپ رائٹر سے عظیم خیالات تحریر ہوتے ہیں اور بڑا افسانہ لکھا جاسکتا ہے اور اوپندرناتھ اشک اور کرشن چندر اس لیے افسانہ نگاری کی معراج کو نہیں پہنچ پائے کہ وہ آنے کی نب والے قلم سے گھس گھس کرتے ہیں-
میں اور حسنین جمیل کتنے بدقسمت ہیں کہ ہم اچھی اور جدید نسل کے لیپ ٹاپ رکھتے ہوئے بھی کس قدر ارزاں اور اسفل کہانی نما اور افسانہ نما شذرے لکھتے ہیں۔ ہم پہ نجانے کس کی پھٹکار پڑی ہے اور کس صاحب کرامت کی بدعا لگی ہے کہ ہمارے کھاتے میں ایک بھی اچھی کہانی نہیں ہے جسے ہم اپنے ادیب ہونے کے ثبوت کے طور پہ پیش کرسکیں۔ اچھا فکشن لکھنے کے باب میں اب ہر صحافی تو شوکت صدیقی نہیں ہوسکتا نا۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ میرا صحافی دوست حسنین جمیل میرے "آ بیل مجھے مار” جیسے اس تبصرے (بلکہ تبرا کہیے) کے بعد میرے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر