نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جھوٹ کی فیکٹریاں||حیدر جاوید سید

تازہ کالم میں انہوں نے سدھائے ہوئے بیوروکریٹ کی طرح بھٹو صاحب پر الزامات کی بارش کردی۔ ہمارے دوست رانا شرافت علی نے تبصرہ کیا

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک شیخ رشید کے دعوے کم تھے کہ اب الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریٹائرڈ سیکرٹری کنور دلشاد بھی دعوے ’’بھورنے‘‘ لگے۔
تازہ کالم میں انہوں نے سدھائے ہوئے بیوروکریٹ کی طرح بھٹو صاحب پر الزامات کی بارش کردی۔ ہمارے دوست رانا شرافت علی نے تبصرہ کیا
’’کنور کے کالم سے تو یہ لگتا ہے کہ فیلڈ مارشل ایوب کا ڈفر تھا 34سال کا لڑکا اسے بیوقوف بناتا رہا‘‘۔
کنور دلشاد اور شیخ رشید ایک ہی وقت میں ایک طلباء تنظیم کے صدر رہنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ شیخ ایک سے زائد بار ٹی وی چینلوں میں کہہ چکے کہ ’’میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی پاکستانمسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا صدر رہا ایک بار کہا کہ مسلسل تین سال 1969ء سے 1971ء تک صدر تھا‘‘۔ اب کنور صاحب دعویدار ہوئے۔
موصوف کا شمار ان سرکاری افسروں میں ہوتا ہے جو ہر آمر کے درباری رہے اور فیض پایا۔ کہتے ہیں ایوب کی بھٹو سے پہلی ملاقات گوہر ایوب کے ساتھ ہوئی۔ گوہر ایوب بھٹو کو ملوانے لائے تھے ابا حضور سے۔
ہوسکتا ہے یہ بات درست ہو پھر وہ بھٹو کون تھا جو سکندر مرزا کی کابینہ میں ایوب کے ساتھ وزیر تھا۔ دونوں پہلے نہ ملے ہوں تو یقیناً وفاقی کابینہ کی تقریب حلف برداری میں ضرور ملے ہوں گے اور کابینہ کے اجلاسوں میں بھی۔
اب کنور صاحب چونکہ بڑے افسر کے طور پر ریٹائرڈ ہوئے ہیں یقیناً غلط بیانی نہیں کرتے ہوں گے ویسے وہ اپنے حلقہ احباب خصوصاً ہم عصر افسروں میں ازلی کھڑوس اور جھوٹے کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
کھڑوس انہیں یار بیلی افسر کیوں کہتے تھے یہ وہی بتاسکتے ہیں۔ انہوں نے ایوب کی وفات سے تین دن قبل ہوئی ملاقات کی سرخی سجاکر کالم لکھا اور خوب گل افشانیاں کیں۔
ایسا لگتا ہے کہ وہ چوبیس گھٹنے ایوب کے ساتھ ہی بسر کرتے تھے۔
ایسا ہے تو پھر وہ بھٹو کی اس عاشقہ صادقہ بارے میں بھی جانتے ہوں گے جس کے ذوالفقار علی بھٹو سے عشق کے چرچے ایوبی دور میں اسلام آباد میں زبان زد عام رہے۔ اب چونکہ اس عشق کا راوی بھی ایک طرح سے کنور دلشاد جیسا ہی ہے اس لئے وہ بھی ناقابل اعتبار ٹھہرا۔
کنور اس لئے کہ انہوں نے اپنی ’’تاریخی‘‘ معلومات کی ابتدا میں ایک جھوٹ سے کی، جھوٹ یہ ہے کہ وہ 1969ء میں پاکستان مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی صدر تھے۔ پہلے تو صدر ہونے کا جھگڑا نمٹا لیجئے کیونکہ شیخ رشید کا دعویٰ صدارت بھی اس سال بلکہ اگلے دو برسوں کا بھی ہے۔
اب اگلی بات کرتے ہیں۔ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن سال 1976ء میں محمد حنیف رامے نے اس وقت بنوائی جب وہ مسلم لیگ کے چیف آرگنائزر تھے۔ پاکستان بننے سے قبل والی آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن قیام پاکستان کے بعد تحلیل کردی گئی تھی۔ 1974ء میں البتہ سندھ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن بنی تھی جس کے صدر ادریس چودہری تھے بعد میں اسے رامے صاحب والی ایم ایس ایف میں ضم کردیا گیا۔
اس نئی ایم ایس ایف کے بہت سارے سابق صدور اب بھی حیات ہیں۔ نعیم رضا نازو اس کے پہلے مرکزی صدر تھے۔ اسلم زار ایڈووکیٹ اور ریاض فتیانہ بھی صدر رہے۔
شیخ رشید نعیم رضا ناز کے مقابلہ میں صدارت کے امیدوار تھے لیکن انتخابات سے ایک شب یا یوں کہہ لیں الیکشن سے پہلی شب وہ اپنی ’’عادتوں‘‘ کے ہاتھوں خوار ہوئے اور رات اڑھائی بجے مسلم لیگ ہاوس ڈیوس روڈ کے لان میں بیٹھ کر دستبرداری لکھ کر دے گئے تھے۔
خیر چھوڑیں اس بات کو عرض صرف یہ کرنا تھا کہ جھوٹ بولنا ہو تو پہلے اِدھر اُدھر دیکھ کر اچھی سی تیاری کرلینی چاہیے۔
کنور دلشاد نے جس بات پر کالم کی عمارت اٹھائی جب وہی جھوٹ ہے تو باقی کالم کی حقانیت کیسے مان لی جائے۔ دوسرا جھوٹ بھٹو سے ایوب کی گوہر ایوب کے توسط سے ملاقات ہے۔ تیسرا جھوٹ تاشقند کانفرنس کے حوالے سے انہوں نے تحریر فرمایہ۔
یہ ان کا ذاتی انکشاف ہے مگر حوالہ موجود نہیں پھر اس کانفرنس میں ایوب اور بھٹو دو ہی پاکستانی نہیں تھے وفد میں اور لوگ بھی شامل تھے۔ بھارتی وفد بھی وزیراعظم شاستری کی قیادت میں تھا کوئی پاکستانی نہ لکھتا کسی وجہ سے بھارتی وفد کا کوئی فرد یا اس کی روایت پر 1965ء کی جنگ پر لکھی گئی کتابوں میں سے کسی ایک کا مصنف ہی لکھ دیتا کہ تاشقند کانفرنس میں جنگ بندی کے لئے پاکستان نے جو پہلا ڈرافٹ پیش کیا اس میں مسئلہ کشمیر کا ذکر نہیں تھا۔
ایوب اپنے وزیرخارجہ پر ناراض ہوئے پھر روسی صدر نے ایوب کے ترلوں منتوں پر ترس کھاتے ہوئے کشمیر کو بطور مسئلہ ڈرافٹ میں شامل کرلیا۔
یہ بات واقعتاً درست ہوتی تو بھٹو کی بوٹیاں اور کفن نوچ کر سیاست کرنے والے رجعت پسند اور جرنیل شاہی کے لے پالک تو آسمان سر پر اٹھالیتے۔
وہ کہتے ہیں نا سیانا کوا گندگی پر بیٹھتا ہے اور درباری افسر خود کو باخبر ثابت کرنے کے لئے رابطوں، ملاقاتوں، واقعات کی ایسی فرضی کہانیاں سناتا ہے جو صرف اس کی ذاتی” تاریخ ” کا حصہ ہوتی ہیں۔
ان تین عدد سکہ بند جھوٹوں جن کی نشاندہی اس تحریر نویس نے بالائی سطور میں کی ہے، سے یہ طے ہے کہ کنور دلشاد کی اگر کچھ باتیں درست بھی ہوں تو بھی انہوں نے پہلے جھوٹ پر عمارت اٹھاکر مزید دروغ گویاں کیں اس لئے ان کا کالم تاریخ کے کوڑے دان کا رزق ہی بن سکتا ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ ایوب خان سے ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد جن طلباء نے آخری ملاقات کی ان کے نام جاوید ہاشمی سے پوچھ لیجئے اس فہرست میں شیخ اور کنور دونوں نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author