حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’دلبری کے راز سے واقف ہونا ہی بندگی کی حقیقت کو جان لینا ہے، اس راز سے جو واقف ہوا پھر دلبر کا ہوگیا۔ اب دلبر کی مرضی ہے رکھے یا بلالے۔ راز پانے والے کی مرضیاں بھی اپنی نہیں رہتیں‘‘۔
میں حیرانی سے فقیر راحموں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اسے ہو کیا گیا کچھ بہکی بہکی باتیں نہیں کرنے لگا عین ان سموں مجھے حسین بن منصور حلاجؒ یاد آئے۔
حلاجؒ کہتے ہیں
’’ہم ہیں تم ہو تم ہو اور ہم ہیں بس ہم ہی تو ہیں اب تم کہاں ہو؟‘‘
حلاجؒ اپنے انہی خیالات کی وجہ سے دجلہ کے مغربی کنارے مصلوب کئے گئے۔ مصلوب کئے جانے سے قبل انہوں نے کہا
’’واقف اسرار ہستی ہوں جانتا تھا سولی چڑھایا جائوں گا لیکن وہ عاشق ہی کیا جو قربان نہ ہو‘‘۔
فقیر راحموں بولے شاہ جی
’’جو واقف راز ہائے دلبری ہوتے ہیں وہ نہیں ہوتے ہوتا راز ہے دلبری کا‘‘۔
عرض کیا، وارث شاہ کہتے ہیں
"بھید والے صندوق کے تالے کی چابی جو سنبھال کر نہیں رکھتے وہ مارے جاتے ہیں‘‘۔
جواب ملا
’’صرف اتنی بات پر مارے نہیں جاتے معاملہ کچھ اور ہوتا ہے۔ ہوش مندی سے دیوانگی اچھی ہوتی ہے، سب کہہ بھی رہااور کچھ کہا بھی نہیں‘‘۔
اب کیا ایسی ہی صورت ہے۔ چار اور ہوش مند ہیں یا دیوانے؟
فقیر راحموں بولے دونوں خال خال ہیں، زیادہ وہی ہیں جو خواہشوں کی گرفت میں اٹے نفس کے گھوڑے پر سوار ہیں۔
ایک تو یہ فقیر راحموں اوٹ پٹانگ سی کتابیں پڑھتا اور باتیں کرتا ہے مجھے تو کبھی کبھی اس سے خوف آنے لگتا ہے۔ اب کہہ رہا ہے کہ راز ہائے دلبری پالینے کے دعوے کرنے والوں کو قربان گاہ پر حلاجؒ و سرمدؒ کی طرح ثابت قدم رہنا چاہیے۔
دلبری کے راز کیا ہیں۔ بھلا جو من میں آباد ہو اس کا بھی کوئی راز ہوتا ہے؟
حافظ شیرازیؒ کہتے ہیں
’’ساقی کی مست نگاہی نہیں پیمانے میں انڈیلنے والے کے ظرف کا امتحان ہوتا ہے کم ظرفوں کو تو میخانہ کی دہلیز پر ہی نہیں اترنا چاہیے‘‘۔
حافظ ہی کہتے دیکھائی دیتے ہیں
’’اے میرے دلبر تجھ سے سوا کون مجھے میرے اصل میں جانتا ہے، میں نے بھی جب سے تجھے سمجھا ہے پھر کہیں اور اٹھ کر بھی تو نہیں گیا‘‘۔
فقیر راحموں نے یاد دلایا کہ مرشد کریم سید بلھے شاہؒ کہتے ہیں ’’اُس تک جانے کے لئے اپنے اندر سے گزرنا پڑتا ہے‘‘۔
بات یہی ہے اجلی اور کھری، وہ رہتا ہی من میں ہو تو اپنے اندر سے گزرنا تو پڑے گا ہی ورنہ تلاش میں دربدر بھٹکتے رہنا ہی ہے۔
آدمی بھٹک ہی تو رہا ہے اپنے اصل کو پانے کے لئے۔ ایک دن ہم نے فقیر راحموں سے پوچھ ہی لیا، یہ اصل کیا ہے؟
جواب ملا بڑے آئے پڑھاکو، اب اونٹ پہاڑ کے نیچے آیا ہے، پھر ساعت بھر کے وقفے سے کہنے لگے،
’’شاہ جی، اصل ہے، محبت، ایثار اور حق بندگی‘‘
محبت یہ ہے کہ طمع و لالچ سے بچ رہا جائے۔ ایثار اپنے حصے کی روٹی میں دوسرے کو شریک کرنا ہے۔ حق بندگی یہ ہے کہ تلخ نوائی سے محفوظ رہا جائے۔
باقی سب چھان بورا ہے اگر گلی میں پھیری والا چند دنوں کی تاخیر سے آئے تو یہ چھان بورا نہ صرف کالا ہوجاتا ہے بلکہ اس میں کیڑے بھی پڑجاتے ہیں۔
محبت، ایثار اور حق بندگی چھان بورا بننے اور پھیری والے کے تاخیر سے آنے کے سبب ہونے والے انجام سے محفوظ رکھتے ہیں۔ یہاں تک پہنچے تھے کہ فقیر راحموں کہنے لگے،
شاہ جی "
سمجھنے والی بات فقط اتنی ہے کہ سب راکھ ہے، یہی راکھ تعمیر میں کام آتی ہے، آدمی ہو کہ سر جھکانے کی جگہ دونوں میں ایک اس سے تعمیر ہوا ایک اس سے تعمیر کرتا ہے‘‘۔
یار تونے کچھ زیادہ پڑھ پڑھا نہیں لیا۔ میں نے فقیر راحموں سے دریافت کیا۔
اس نے ہنس کر کہا، پڑھتے ہم دونوں ہی ہیں فرق بس اتنا ہے تم حرف جوڑ کر رزق کماتے ہو میں سوچتا ہوں۔
سوچتا یہ ہوں کہ جب لفظ معانی سے خالی نہیں ہوتے تو بندہ معانی سے خالی کیوں ہوگا۔
کچھ تو ہے اس تخلیق کا سبب۔ یہی سبب جاننا ضروری ہے راز ہائے دلبری یہی ہے،
کبھی ڈھول بجتا ہو تو اس کے ردھم پر غور کرنا، ردھم نہ ہو تو سر دھکنے لگتا ہے اس کے شور سے۔
زندگی میں اگر محبت، ایثار اور حق بندگی نکال دو تو باقی شور ہے آدمیوں کی باتوں کا بالکل ویسا جیسا جنگل میں تیز ہوائوں سے پیدا ہوتا ہے۔
تنہا مسافر کو تو اس شور سے خوف آنے لگتا ہے۔
عرض کیا وہ جو سرمد کہتے ہیں
’’خواہش طالب کی ہوتی ہے حکم مطلوب کا‘‘۔
غلط سمجھے تم یہاں، فقیر راحموں نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔ سرمد کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ‘
خواہش طالب کی ہوتی ہے رضا مطلوب کی۔ طالب تو رضاوں کے حصول کے لئے کوشاں رہتا ہے۔ راز ہائے دلبری سے پردہ ہی تب اٹھتا ہے جب رضائیں خرید لی جائیں”۔
عین ان لمحوں میں مجھے سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم یاد آئے فرماتے ہیں
’’وہ ہے اس لائق کہ خوف و طمع کے بغیر اس کے ہونے کا اقرار کیا جائے‘‘۔
ایک بار پھر حافظ شیرازیؒ سے ملتے ہیں وہ کہتے ہیں
’’میخانے میں ہوئے سودے زیادہ پائیدار ہوتے ہیں‘‘۔
میخانے میں ہوئے سودے کچھ عجیب بات نہیں۔
ہرگز نہیں، فقیر راحموں بولے،
خود شناسی کے بغیر بھاو تاو نقصان کا باعث بن سکتا ہے تم بھی نا دیر سے بات سمجھ پاتے ہو وہ بولے،
"حرف پڑھ لینا کافی ہے نا یاد رکھنا لازم ہے معانی معلوم ہوں اور یہ بھی کہ دلبر چاہتا کیا ہے‘‘
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر