نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دھندے ہی دھندے ہیں صاحب!||حیدر جاوید سید

پچھلی شب ایک مہربان کا ارشاد ہوا سب مقدر کا لکھا ہے۔ عرض کیا مقدر کا لکھا ہے تو قاتل کو سزا کیسی۔ گالی دینے والے سے نفرت کیوں؟

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واپسی کی تیاریاں جاری ہیں، بہنوں کی قدم بوسی کرلی، دوستوں سے مل لیا۔ ایک سفر گزشتہ روز خانیوال کا کیا آج شام پھر خانیوال جانا ہے، سیدی عباس کوثر زیدی نے تین دہائیوں سے اوپر بچھڑے دوستوں کی ملاقات کا اہتمام کررکھا ہے۔
دوست ہی تو زندگی ہیں جتنے پرانے ہوں اتنی بڑی نعمت ہوتے ہیں۔
گزشتہ روز کی خانیوال یاترا میں عباس کوثر زیدی نے پرانے دوست ذوالقرنین حیدر سے رابطہ کرایا۔ ذوالقرنین حیدر مجھ سے بات کرکے حیران ہوئے۔
حیرانی کی وجہ دریافت کی تو بولے یار شاہ جی! وہ حاجی جاوید گوندل نے تو مجھے برسوں قبل یہ بتایا تھا کہ فلاں صاحب نے اطلاع دی ہے کہ شاہ جی قتل ہوگئے ہیں۔
عرض کیا حاجی گوندل کو غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ جن کا وہ نام لے رہا ہے اس برادر عزیز سے تقریباً روزانہ ہی رابطہ ہوجاتا ہے براہ راست نہ ہو تو سوشل میڈیا کے میدان میں کسی کی پوسٹ پر کمنٹس پر آمنا سامنا ہو ہی جاتا ہے۔
خیر اب یہ طے پایا کہ ایک سابق مقتول اور حاضر زندہ شاہ جی زمانہ قدیم کے دوستوں کی ایک محفل میں شرکت ضرور کریں گے۔ انکار ممکن نہیں رہا سو آج شام ان دوستوں سے ملاقات ہوگی جن سے بچھڑے ہوئے ساڑھے تین دہائیاں ہوگئیں۔
خانیوال یاترا میں ایک بھرپور نشست سید غفران علی ترمذی کی اقامت گاہ پر جمی۔ سید حماد حسین بھی اس میں شریک تھے۔ زندگی اور پاکستانی سیاست کے مختلف ادوار پر خوب باتیں ہوئیں۔ کچھ حاضر و ناظر اور غیرحاضر دوستوں کا احترام بھرا تذکرہ اور کچھ دھندے بازوں کی قلابازیوں پر بھی باتیں ہوئیں۔
عزیزم سید میثم زیدی اس موقع پر بہت یاد آئے وہ اگراس نشست کی رونق بڑھارہے ہوتے تو کمال کے جملے برساتے قطار اندر قطار۔
زیدی صاحب کراچی کو پیارے ہوگئے اب ملیں گے تو جنم شہر سے بچھڑنے کا نوحہ سنوں گا ان سے۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے دھندے باز مالکوں نے جتنا آزادی صحافت اور کارکن صحافی کو نقصان پہنچایا اتنا چار فوجی حکمران مل کر نہیں پہنچاسکے۔
تاریخ کا جبر یہ ہے کہ مالکان کاایک حصہ ان جہلا پر مشتمل ہے جو دھندے کی نیت سے ذرائع ابلاغ کے شعبہ میں جوتوں سمیت گھس آیا ہے، ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے باصلاحیت لوگ دربدر ہوئے۔
پچھلی شب ایک مہربان کا ارشاد ہوا سب مقدر کا لکھا ہے۔ عرض کیا مقدر کا لکھا ہے تو قاتل کو سزا کیسی۔ گالی دینے والے سے نفرت کیوں؟
برا مناگئے، مناتے رہیں یہ مقدر کا لکھا۔ صبر اور شکر کی تلقین یہ بھی ایک طرح سے کاروباری ہی ہیں۔ جھانسے دینے اور بہلاتے رہنے کے دھندے تاکہ آدمی بولے نہ۔
ارے بھیا! کیوں نہ بولے، کیا تخلیق کو خالق سے سوال کا حق نہیں۔ طبقات کیوں بنائے اگر بنائے ہیں تو (یاد رہے کہ طالب علم طبقات کو تقدیر کا لکھا نہیں سمجھتا)۔
ساعت بھر کے رکئے ایک بات یاد آئی وہ جو جنرل ضیاء الحق اور ایئرکموڈور خاقان عباسی نے 1960ء کی دہائی میں سینکڑوں فلسطینی پھڑکائے تھے (فلسطینی اس دن کو بلیک ستمبر کے طورپر یاد کرتے ہیں) وہ تقدیر کا لکھا تھا تو پھر قاتلوں کی اولاد سے بیزاری سی کیوں محسوس ہوتی ہے؟
معاف کیجئے ہم سیدی غفران علی ترمذی کی اقامت گاہ پر میثم زیدی کو یاد کرنے کا ذکر کررہے تھے یہ درمیان میں جو یاد آیا لکھا گیا اس پر برا نہ منایئے گا۔
دو اڑھائی گھنٹوں کی نشست بہت بھرپور رہی۔ طالب علم کو اپنے عزیزوں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
کچھ باتیں نئی اور کچھ انکشاف بھری تھیں۔ عرض کیا یہی ہوتا ہے عزیزو، زندگی اسی کا نام ہے۔
تماشے دیکھتے آگے بڑھتے رہنے کے ساتھ اپنی فہم کے مطابق بات کرتے رہنے کو ہی زندگی کہتے ہیں۔ لوگوں کی کج ادائیوں پر دکھ فضول ہے۔ البتہ مطالعہ کے شوقین دوست اس دور میں نعمت ہیں۔
کچھ نئی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ دوستوں کے معاملے میں تو ہم سندھی شاعر سامی کے اس شعر پر ایمان رکھتے ہیں کہ
’’دوست سندھی ندی کے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کی طرح ہوتے ہیں‘‘ سچلؒ کہتے تھے سامی کی بات درست ہے بس شرط یہ ہے کہ ’’دوست ہوں سہی‘‘۔
اب چلتے چلتے سوشل میڈیا پر جیالوں اور محبان سول سپر میسی کے درمیان جاری تیسری عالمی جنگ بارے کچھ باتیں ہوجائیں۔
داد دیجئے کہ نون لیگ نے اپنے کج، رابطے اور کچھ طے شدہ معاملات کی پردہ پوشی کے لئے پپیلزپارٹی کو مجرم بناکر پیش کردیا ہے۔
پیسے اور جہالت دونوں میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ سیانے کہتے تھے کچھ لوگ جھوٹ اس تواتر کے ساتھ بولتے ہیں یہی سچ لگتا ہے۔
نون لیگ کا کمال یہ ہے کہ اس کے حامیوں کی اکثریت ہوا میں تلواریں چلانے اور آدھے جملے لے اڑنے کے بعد دانش بھورنے میں ماہر ہے اچھی بات ہے بازارِ سیاست میں پروپیگنڈہ ہی بکتا ہے۔
بڑے صوبے کی عظیم جمہوری و سول سپر میسی برانڈ پارٹی کا اصل منافع یہی ہے کہ ان کا معاہدہ جلاوطنی اور جی ایچ کیو کے ایما پر وقت گزرجانے کے بعد اپیلوں کی سماعت بھی اصول پسندی میں شمار ہوتے ہیں۔
اور تواور اتحادی سیاست میں شامل دیگر جماعتوں کو اتفاق گروپ کے ذیلی شعبے سمجھنا بھی درست ہوتا ہے۔
ایک صرف نون لیگ ہی کیوں باقی سبھی کو بھی اپنا کج چاند دکھتا ہے۔
معاف کیجئے گا یہ کن چکروں میں پڑگیا سیاست اسی کو کہتے ہیں البتہ اے این پی نے پی ڈی ایم کو چھوڑ کر اچھا کیا اب قدرت کی شان دیکھیں اے این پی کو اسٹیبلشمنٹ کی رکھیل وہ ثابت کررہے ہیں جن کی اپنی تخلیق پر حلال و حرام کے سوال بہت ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

ارشاد تونسوی.سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author