عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن کے لیے لاہور جانا ہوا۔ عکس پبلیکیشنز لاہور کے ڈائریکٹر محمد فہد کی شادی تھی۔ وہاں بہت سے ادیب، دانشور اور ناشران کتب بھی آئے ہوئے تھے۔ اس موقعہ پہ میرے ساتھ رانا حسین شمس ، عابد حسین عابد بھی تھے-وہاں پنجابی فکشن نگار، شاعر اور ماہرزبان نصیر احمد، ترقی پسند ساتھی خالد صاحب اور اے سی راولپنڈی تیمور شیخ بھی موجود تھے۔ ایک صاحب مجھے وہاں ملے جو ایک ادارے کی ٹریننگ اکیڈیمی میں انسٹرکٹر ہیں، انھوں نے مجھے بتایا کہ اکیڈیمی میں زیر تربیت افسران کے نصاب میں فیکٹ بک کے طور پہ میری مدون کردہ کتاب ” شیعہ نسل کشی: افواہ یا حقیقت” شامل ہے اور اس میں شامل تحقیقی مقالات اور ڈیٹا نے کافی مدد فراہم کی ، اس موقعہ پہ کچھ افسران بھی ان کے ساتھ تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ کاش ہمارے اداروں میں فرقہ پرستی کو جڑ سے اکھاڑنے اور اس کی جن نظریات پہ عمارت کھڑی ہے ان کی اشاعت اور سرپرستی کے سارے چشمے بند کردیں تو اس ملک اور اس کے رہنے والوں کو تفرقہ پرستی کی لعنت سے نجات مل جائے گی۔
لاہور سے واپسی کا سفر قیصر صابر کی معیت میں شروع ہوا۔ میں نے ان سے کہا کہ ہم رائے بھوکی تلونڈی ہوتے چلتے ہیں۔ قیصر نے بے اختیار پوچھا وہ کہاں ہے؟ اور وہاں ہمیں کیوں جانا چاہئیے؟ مجھے شرارت سوجھ رہی تھی اور کہا کہ تم کیسے “آوارہ گرد سیاح” ہو جسے “رائے کوبھی تلونڈی” کا نہیں پتا۔ کہنے لگا،” مجھے واقعی نہیں پتا نہیں، نہ کبھی پڑھا، نہ کبھی سنا”۔ میں نے زیادہ تنگ کرنا مناسب نہ سمجھا اور بتادیا کہ میں”ننکانہ صاحب” جانے کی بات کررہا ہوں اور رائے بھوکی تلونڈی اس کا پرانا نام ہے۔ میں قیصر کی سیماب اور سیلانی طبعیت سے واقف تھا اور مجھے پتا تھا کہ اسے جب تک کوئی پھڑک جانے والی بات نہیں بتاؤں گا یہ گاڑی کا سٹئیرنگ ننکانہ انٹرچینج کے آنے پہ موڑے گا نہیں۔ اس سے پہلے میں کچھ کہتا کہنے لگا، بابا گورو نانک کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ بابا گورونانک ایسی مہان ہستی ہیں جن کا مذہب پنجاب کے کسان سماج کی بنیادوں پہ استوار ہوا اور اس نے ایک طرف تو براہمن واد،دوسری طرف اس نے شمشیر زن راجپوتییت اور تیسری طرف تاجروں و ساہوکاروں کی شہری اور قصباتی مذہبیت کو ردکردیا۔ پنجابی زبان کو ہی اس نے الہامی زبان کا درجہ دے ڈالا۔ بلکہ گورو نانک تو کہتے ہیں منش کی بولی پرماتما(رب) کی بولی ہے اور بندے کی زبان پہ پرماتما بولتا ہے۔ کیا زبانوں کے حوالے سے ایسا انسان دوست فقرہ بنا کسی تعصب کے کہیں اور پایا جاتا ہے؟ میں نے یہ سوال قیصر کے سامنے جان بوجھ کر رکھا تھا، جانتا تھا اس کی روح وجد میں آئے گی اور وہ لازمی ننکانہ صاحب انٹرچینج سے گاڑی کو ننکانہ صاحب جانے والی رابطہ سڑک پہ موڑ لے گا۔ اور وہی ہوا ایم ٹو سے ساٹھ کلومیٹر سفر کرتے ہی ننکانہ صاحب انٹر چینج آگیا اور گاڑی قیصر نے ننکانہ صاحب جانے والی سڑک پہ اتاردی۔ ہم نے دس کلومیٹر سفر کیا اور ایک چوک پہ پہنچے تو سامنے گرو نانک کا جنم استھان تھا۔ ہم مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوئے تو ایک چھوٹا سا گرو نانک کا داس بیٹھا ہوا تھا جو ننگے سر یاتریوں کو سر ڈھانپنے کے لیے رومال دے ہی نہیں رہا تھا بلکہ مخصوص طرز سے باندھ بھی رہا تھا- ہمارے سروں پہ رومال باندھتے ہوئے وہ “واہے گرو کا خالصہ، واہے گرو جی کی فتح” جیسے شبد آہستہ آہستہ پڑھ رہا تھا۔ اس معصوم بچے کی زبان سے نکلے یہ شبد میری اندر کی دنیا کو تہہ و بالا کردیا تھا اور میں آپ بھی بے نام سے وجد آفریں کیفیت میں گرو نانک کے جنم استھان کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ رائے بھوکی تلونڈی میںجس جگہ موجود تھا اس کے اردگرد ہی گرو نانک کے والد کے کھیت تھے اور وہ محکمہ مال کے ملازم تھے اور مہتا کالو کے اکلوتے لڑکے تھے۔ اور یہ وہ دن تھے جب سلطنت غلامان ترک کا خاتمہ قریب تھا اور دارالخلافہ سے دور حاشیے کے قصبوں اور شہروں میں طوائف الملوکی پھیل چکی تھی اور ہندوستان بھر میں لوگ براہمن واد اور ملا واد سے تنگ آچکے تھے اور جگہ جگہ صلح کلیت پہ مبنی تحریکوں کا چلن ہورہا تھا۔ بنگال میں چیتینا اور بنارس میں کیبر روی داس اور آسام میں شنکر دیو جیسے براہمن واد اور ملّاں واد کے خلاف عظیم عوامی روحانی شخصیات کا ظہور ہوچکا تھا- یہ گرو نانک کے عم عصر تھے۔ مجھے یاد آرہا تھا کہ جب فرغانہ سے اپنے بھائی بندوں کے ہاتھوں شکست کھاکر بابر کابل سے ہندوستان آیا اور قبضہ پہ قبضہ کرتے ہوئے وہ جب آج کے گوجرانوالہ کے قریب پہنچا اور وہاں آیا جسے ایمن آباد کہتے ہیں تو گرونانک جووہاں تھے بابر کے ہاتھوں قید ہوئے اور انہوں نے بابر کے بارے میں جو منظوم شبد کہے جو گروبانی میں 11ویں بانی کے طور پہ محفوظ ہیں، وہ کچھ یوں تھے:
گناہوں کی بارات کے ساتھ
بابر نے کابل سے حملہ کیا ہے
اے لالو، اب وہ شادی کے تحفے میں ہماری زمین چاہتا ہے
قاضی اور برہمن کا کردار ان سے چھین لیا گیا ہے
لالو، شادی کی رسومات اب شیطان کے ہاتھ میں ہیں
اے نانک، قتل و غارت کے ٹپے گائے جا رہے ہیں
اے لالو، زعفران کے بجائے خون چھڑکا جا رہا ہے
یہ لالو کون ہے؟ جسے گرو نانک مخاطب کرکے بابر کی حملہ آوری کی مذمت کررہے تھے؟ ایک ترکھان تھا۔ گرونانک کو اس علاقے کے سردار حاکم نے دعوت دی اور اپنے ہاں قیام کرنے کو کہا تو گرونانک اس کی بجائے لالو نامی شخص کے ہاں ٹھہرکئے جو پیشے کے اعتبار سے ترکھان تھا یعنی کاما/کمّی تھا۔ اس پہ حاکم بھڑک گیا، اس نے گرونانک کو اپنے محل بلایا اور باز پرس کی تو نانک جی تھال سے پڑی روٹٹی کا ایک نوالہ توڑا اور اسے مٹھی میں دبا کر بھینچا تو اس سے خون ٹپکنے لگا اور کہا یہ یہ غریبوں اور محکموں کی محنت کی لوٹ کا خون ہے جو تم نچوڑتے رہتے ہو۔ گرو نانک نے پرماتما /رب کو کوئی خاص شکل نہیں دی اور اوم کار جیسے شبدوں سے اسے یاد کرتے رہے۔ اگر کالم کے طویل ہونے کا ڈر نہ ہوتا تو میں بھائی گروداس کی گرونانک کی لکھی سوانح کے آغاز میں جو طویل نظم کہی اس کو یہاں نقل کردیتا لیکن بس چند مصرعوں پہ اکتفا کرتا ہوں
چار فرقوں میں بٹے ہندؤمسلمان
اور سب جنونی ہوگئے
اور کار زیاں میں کھوگئے
اور نظم کے آخر میں یہ نتیجہ نکالا
وید و قرآن کی حقیمت بھول کر
بن گئے شیطاں کے فرمانروا
اور لالچ کی ڈگر پہ ہوئے گامزن تھے
برہمن کو اور واعظ کو تھا نہ
سچ کی عظمت پہ یقین
آواگان کے چکر سے نجات کا سفر
اور اس اذیت سے مفر کی کوشش
دونوں نے نہ کی
میں گرو نانک کے جنم استھان پہ ہاتھ باندھے یہ سب سوچ رہا تھا اور میرے اندر ایک کھلبلی مچی ہوئی تھی اور ایک سوال بار بار ذہن میں گردشکر رہا تھا جیسے لوگ وید و قرآن کی حقیقت بقول بھائی گروداس بھول کر شیطان کے راستے پہ چل پڑے تھے تو کیا گرو نانک کی تعلیمات سے جس نئے دھرم نے جنم لیا اس کے ماننے والے “حقیقت” سے جڑے رہ سکے؟ میرے ذہن میں 1946ء دسمبر میں راولپنڈی کے فسادات فلیش بیک میں چل رہے تھے جب ملاں واد کے اثر میں جنونی پنجابی مسلمانوں نے سکھوں کی خون کی ندیاں بہائیں تو 1947ء میں مشرقی پنجاب میں “گروبانی” کو بھول کر سکھوں کی اکثریت نے مسلمانوں کی خون کی ندیاں بہادیں اور لاہور میں شاہ عالمی میں لگی آگ اور اس سے اٹھتے شعلے جو آسمان سے باتیں کررہے تھے اور جس کی راکھ آج تک مجھے لاہور میں رہنے والے ہر شخص کے چہرے پہ ملی نظر آتی ہے۔ میں یہ سب سوچتے ہوئے جب دربار صاحب سے الٹے پاؤں باہر نکل رہا تھا تو میرے کانوں میں کنور مہیندر سنگھ بیدی کی یہ “نانک” گونج رہی تھی۔
ایک جسم ناتواں اتنی وباؤں کا ہجوم
اک چراغ صبح اور اتنی ہواؤں کا ہجوم
منزلیں گم اور اتنے رہنماؤں کا ہجوم
اعتقاد خام اور اتنے خداؤں کا ہجوم
کشمکش میں اپنے ہی معبد سے کتراتا ہوا
آدمی پھرتا تھا در در ٹھوکریں کھاتا ہوا
حق کو ہوتی تھی ہر اک میداں میں باطل سے شکست
سرنگوں سر در گریباں سربسر تھے زیردست
فن تھا اک مطلب براری لوگ تھے مطلب پرست
اسقدر بگڑا ہوا تھا زندگی کا بندوبست
حامی جور و ستم ہر طرح مالا مال تھا
جس کی لاٹھی تھی اسی کی بھینس تھی یہ حال تھا
کیا خدا کا خوف کیسا جذبۂ حب وطن
برسر پیکار تھے آپس میں شیخ و برہمن
باغباں جو تھے وہ خود تھے محو تخریب چمن
الغرض بگڑی ہوئی تھی انجمن کی انجمن
مذہب انسانیت کا پاسباں کوئی نہ تھا
کارواں لاکھوں تھے میر کارواں کوئی نہ تھا
روح انساں نے خدا کے سامنے فریاد کی
جو زمیں پر ہو رہا تھا سب بیاں روداد کی
اور کہا حد ہو چکی ہے کفر کی الحاد کی
ایک دنیا منتظر ہے آپ کے ارشاد کی
تب یہ فرمایا خدا نے سب کو سمجھاؤں گا میں
آدمی کا روپ دھارن کر کے خود آؤں گا میں
اس طرح آخر ہوا دنیا میں نانک کا ظہور
فرش تلونڈی پہ اترا عرش سے رب غفور
اٹھ گیا ظلمات کا ڈیرا بڑھا ہر سمت نور
منبع انوار سے پھیلیں شعاعیں دور دور
مہر تاباں نے دو عالم میں اجالا کر دیا
آدمی نے آدمی کا بول بالا کر دیا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر