نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سینیٹ الیکشن۔ اکثریت والے ہار گئے||حیدر جاوید سید

سینیٹ انتخابات پر تحفظات موجود ہیں یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈپٹی چیئرمین کے انتخابی عمل میں جیتنے والے امیدوار کو 54ووٹ ملے یعنی پی ڈی ایم کے 7ارکان نے انہیں ووٹ دیا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سینیٹ چیئرمین کے عہدہ کے لئے انتخاب کے عجیب و غریب نتائج کے مطابق یوسف رضا گیلانی ہار گئے اور صادق سنجرانی جیت گئے۔
اپوزیشن کے کل حاضر 51ارکان تھے اور حکمران اتحاد کے پاس 47ارکان۔ یوسف رضا گیلانی کو 42ووٹ ملے ان کے 7ووٹ مسترد ہوئے۔ مجموعی طورپر 8ووٹ مسترد ہوئے جبکہ صادق سنجرانی کو 48ووٹ ملے۔ حکمران اتحاد کی عددی تعداد سے 1، ایک ووٹ زائد۔ پارلیمانی قواعدوضوابط کے مطابق اجلاس کی صدارت کرنے والے سینئر رکن سید مظفر شاہ نے فاروق نائیک کے اعتراضات مسترد کردیئے اور رولنگ دی کہ جن سات بیلٹ پیپر میں یوسف رضا گیلانی کے نام پر مہر لگی ہوئی ہے، میں انہیں مسترد کرتا ہوں۔ اپنی رولنگ کے دوران انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’آپ چاہیں تو الیکشن ٹربیونل میں چلے جائیں‘‘
سینیٹ چیئرمین کے الیکشن کا نتیجہ اصولی طور پر متنازعہ ہے۔ بظاہر اگلے مرحلہ میں پی ڈی ایم نتائج کو قانونی طور پر چیلنج کرے گی۔ اپوزیشن رہنمائوں نے قانونی لڑائی کے ساتھ دیگر محاذ بھی آزمانے کا اعلان کیا ہے۔
سینیٹ میں چیئرمین کے الیکشن سے قبل جمعہ کی صبح نومنتخب سینیٹرز کی تقریب حلف برداری ہوئی جس میں 48نومنتخب سینیٹرز نے حلف اٹھایا۔ اسی دوران اپوزیشن کے دو ارکان مصطفی نواز کھوکھر اور ڈاکٹر مصدق ملک نے پولنگ بوتھ میں نصب خفیہ کیمرے کا معاملہ اٹھایا جس پر ایوان میں تلخی ہوئی اس تلخی کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ تین ذاتی دوست آپس میں الجھ پڑے۔
یہ تین دوست ہیں شبلی فراز، مصطفی نواز اور مصدق ملک۔ تین مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے یہ سینیٹرز ذاتی زندگی میں طویل عرصہ سے دوست ہیں۔
یہ سطور لکھ رہا تھا کہ مرزا محمد آفریدی کے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بننے کی اطلاع ملی۔ مرزا محمد آفریدی نے 54ووٹ لئے۔ آفریدی حکمران اتحاد کے امیدوار تھے انہوں نے حکمران اتحاد کے 47ارکان سے 7ووٹ اور پی ڈی ایم کے ہارنے والے مولانا عبدالغفور حیدری سے 10ووٹ زائد لئے۔
وزیراعظم کے ایک امریکہ پلٹ مشیر نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ’’پی ڈی ایم والو ہور کچھ ہمارے لائق‘‘۔
سینیٹ انتخابات پر تحفظات موجود ہیں یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈپٹی چیئرمین کے انتخابی عمل میں جیتنے والے امیدوار کو 54ووٹ ملے یعنی پی ڈی ایم کے 7ارکان نے انہیں ووٹ دیا۔
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ کیا یہ وہی 7ارکان ہیں جنہوں نے چیئرمین کے انتخاب میں مہر اپنے امیدوار کے نام پر لگادی تھی؟
نام پر لگائی گئی مہر پر سید مظفر حسین شاہ کی رولنگ کو سابق چیئرمین سینیٹ سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے غیرقانونی قرار دیا اور اپوزیشن بھی اسے قانونی محاذ پر چیلنج کرنے کا اعلان کرچکی۔
یہاں ساعت بھر کے لئے رک کر یہ جان لیجئے کہ مرزا محمد آفریدی 2018ء میں نون لیگ کی ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے تب سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کے ایک فیصلے کے مطابق چونکہ نوازشریف سزا یافتہ ہیں وہ پارٹی امیدواروں کی ٹکٹوں پر دستخط کرنے کے مجاز نہیں۔
فیصلے کے مطابق چونکہ انتخابی عمل میں مزید وقت نہیں اس لئے نون لیگ کی نوازشریف کے دستخطوں والی ٹکٹیں رکھنے والے امیدواران آزاد امیدوار تصور ہوں گے۔ مرزا محمد آفریدی سینیٹ ریکارڈ کے مطابق نون لیگ کی پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہیں جبکہ پی ٹی آئی کا دعوی ہے وہ 2018ء میں ہی تحریک انصاف میں شامل ہوگئے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس ’’تبدیلی‘‘ کا سینیٹ سیکرٹریٹ میں کوئی ریکارڈ نہیں۔
جمعہ 12مارچ کو ہونے والے سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں کے لئے انتخابات کے دونوں مرحلوں میں دلچسپ باتیں ہوئیں گیلانی کے 7ووٹ جس طرح مسترد ہوئے اس سے بزرگ سیاستدان سید مظفر حسین شاہ کی ساکھ متاثر ہوئی۔
اپنی عمومی شہرت کے برعکس اور بطور قانون دان بیلٹ پیپر پر نشان و مہر کے حوالے سے الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدالتوں کے بعض فیصلوں کے برعکس انہوں نے رولنگ دی یہ حیران کن ہے اس سے زیادہ یہ کہ اپنے عمل کا دفاع کرتے ہوئے وہ غصہ دباتے دیکھائی دیئے البتہ فاروق ایچ نائیک سے انہوں نے تلخی کے ساتھ کہا جائیں الیکشن ٹربیونل میں میرا فیصلہ چیلنج کردیں۔
بہرطور یہ طے ہے کہ اپوزیشن چیئرمین کے الیکشن کے نتیجے کو تسلیم نہیں کرے گی (اس کا اعلان بھی کردیا گیا) مگر یہ سوال بھی غور طلب ہے کہ اس کے 7ارکان نے ضمیر کی بیداری، ٹیلیفون کالز یا کسی ’’اور وجہ‘‘ سے ڈپٹی چیئرمین کے عہدے کے لئے حکومتی امیدوار کو ووٹ دیا۔ مولانا غفور حیدری کو 51ووٹوں میں سے 44ملے۔ پی ڈی ایم کے ساتھ ارکان نے حکومتی امیدوار کو ووٹ دیا۔ یہ سات ارکان کون اور کس جماعت کے ہیں یا یہاں پشتون ولی چلی (پشتون محبت) اس کے لئے پی ڈی ایم کو ہی تحقیقاتی کمیٹی بنانا ہوگی۔
مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ چیئرمین کے لئے ڈالے گئے ووٹوں میں کل 8ووٹ مسترد ہوئے لیکن ڈپٹی چیئرمین کے لئے ڈالے گئے ووٹوں میں کوئی ووٹ مسترد نہیں ہوا۔ سوالات پی ڈی ایم کے سامنے ہیں جواب بھی اسے ہی دینا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

ارشاد تونسوی.سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

About The Author