نومبر 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راجن پور کی خبریں

راجن پورسے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلوں پر مبنی خبریں،تبصرے اور تجزیے۔

جام پور۔

( وقائع نگار ) ۔

اسسٹنٹ کمشنر جام پور فاروق احمد ملک نے کہا ھے کہ اسلام واحد دین ھے جس نے عورت کو ذلت و پستی سے نکال کر اسے شرف انسانیت بخشا اسلام نے ان تمام بری رسوم کا خاتمہ کر دیا جو عورت کے انسانی رتبہ کے منافی تھیں

اور ذلت رسواِئی و تحقیر کو بد ترین عمل قرار دیا وہ منی صنعت زار سوشل ویلفئر جامپور میں سماجی تنظیم سرفراز میموریل فاونڈیشن کے اشتراک سے خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے منعقدہ تقریب کے موقع پر خطاب کر رھے تھے

جسلی انہوں نے صدارت کی تقریب کے مہمان خصوصی ڈائریکٹر سوشل ویلفئیر اینڈ بیت المال ڈیرہ غازیخان محمد اظہر یوسف نے کہا کہ

اس طرح کی تقریبات کے انعقاد کا مقصد لوگوں بالخصوص خواتین میں شعور وآگاھی پیدا کرنا ھے تاکہ خواتین کو جہاں اپنے حقوق سے آگاھی ملے وھاں وہ اپنے فرائض سے بھی روشناس ھوں

جب ھم اپنی بچیوں کی تعلیم وتربیت صحیح خطوط پر کریں گے تو مستقبل کی یہ مائیں بہنیں اپنے بچوں کو معاشرے کا اچھا شہری بنانے میں ممدو معاون ثابت ھونگی انہوں نے اس امر پر بھی زور دیا کہ

جو بچیاں کسی مجبوری کے تحت تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں انہیں ھنر مند بنایا جائے جسکے لیے محکمہ سوشل ویلفئیر کے صنعت زار اور گورنمنٹ پنجاب کے دیگر ادارے موجود ھیں ھنر مند خواتین باعزت روزگار کما کر اپنے خاندانوں کی کفالت کر سکتی ھیں

انہوں نے سرفراز میموریل فاونڈیشن اور منی صنعت زار جام پور کی کارکردگی کو بھی سراھا اس موقع پر مینیجر صنعت زار جام پور شازیہ نواز ‘ صدر سرفراز میموریل فاونڈیشن نزھت نواز ایڈوکیٹ اور ھیڈ مسٹریس گورنمنٹ گرلز ھائی سکول انعم ایوب نے بھی خطاب کیا

جنہوں نے خواتین کے حقوق کے علاوہ اس بات پر بھی زور دیا کہ خواتین کرونا کی وباء سے بچاو کیلیے خود بھی عملی تدابیر اختیار کریں اور بچوں کو بھی محفوظ رکھیں اور اس سے بچاو کا واحد حل احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ھے ۔

قبل ازیں ڈی پی ایس جامپور برانچ کے بچوں نے مختلف موضوعات پر خوبصورت ٹیبلوز پیش کیئے بعد ازاں معزز مہمانوں اور مختلف شعبہ جات میں نمایاں کارکردگی کی حامل خواتین میں اعزازی شیلڈز بھی تقسیم کی گئیں

تقریب میں اسسٹنٹ کمشنر جا م پور کی اھلیہ ڈاکٹر عائشہ فاروق ڈپٹی ڈائریکٹر سوشل ویلفئر ڈی جی خان محمد ابراھیم منیجر صنعت زار ڈی جی خان محمد اکرم ,میڈم نادیہ شاہد میڈیکل سوشل ویلفئیر آ فیسر جام پور میڈم تہمینہ

امیر گورمانی, دیگر سماجی تنظیموں کی خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی جبکہ جنرل سیکریٹری تنظیم الطاف نواز مستوئی نے ڈائریکٹر اظہر یوسف اور اے. سی

جام پور ملک فاروق احمد کو سرائیکی اجرک پہنائی


جام پور کے سینئر آڑٹسٹ و شاعر سلیم طارق سمعی اپنا مجموعہ کلام سینئر صحافی

آفتاب نواز خان مستوئی کو پیش کر رھے ھیں


محروم محکوم مقبوضہ جام پور کی پیپلز کالونی اور عرفان آباد کالونی کا سنگم اور اس کا المیہ ۔۔تحریر آفتاب نواز مستوئی ۔۔۔قیام پاکستان سے لیکر اب تک بنظر غائر اک طائرانہ نظر ڈالی جائے

تو عظیم اسلامی علمی ادبی ثقافتی تہذیب وتمدن کا گہوارہ قدیم تاریخی شہر جام پور جسکا قبرستان ٹھاکریوالہ اپنے وقت کے ولی اور سب سے زیادہ حفاظ قران مجید کو اپنی آغوش میں لئیے ھوا ھے جن کے احترام میں

سلطان العاشقین حضرت خواجہ غلام فرید گھوڑی سے اتر کر ننگے پاوں اس شہر سے گزرتے تھے ۔

جہاں سخی لال پروانہ ۔سید محسن شاہ المعروف مسن شاہ بخاری جیسی روحانی ھستیوں کے مزارات اقدس مرجع الخلائق ھیں یہ وہ شہر ھے جہاں برصغیر پاک وھند کی عظیم عالمی تنظیم اھلسنت والجماعت کی بنیاد رکھی گئی

جسکی درسگا مدرسہ اسلامیہ سے امام انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھی نے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔جی ھاں یہ وہ شہر ھے جسکے نیل ( کپڑے دھونے والا ) کی پورے ھندوستان میں مارکیٹنگ ھوتی تھی جہاں کی تیار کردہ لکڑی کی

منقش و دلکش مصنوعات پوری دنیا میں مشہور تھیں جہاں دیسی کشتی کبڈی کے ساتھ ساتھ والی بال اور فٹ بال کے آل ھند اور بعد ازاں آل پاکستان ٹورنامنٹ منعقد ھوا کرتے تھے جسکے مشرقی کنارے نالہ سون نہ صرف نہری پانی

فراھم کرتا تھا بلکہ اس وقت کے ضلع ڈیرہ غازیخان کے نامور لوگ یہاں پل لنڈی پتافی ۔7 خانی پل ۔منشی حکم چند کے باغ اور کوٹلہ چونگی کے مراکز پر "سانونی ” منانے آتے تھے جامپور کو اس حوالے سے بھی نمایاں مقام حاصل تھا کہ

اسکی سبزی پشاور سے لیکر سندھ و بلوچستان کے دور دراز علاقوں تک جایا کرتی تھی تحریک پاکستان اور تحریک نفاذ نظام مصطفے ا میں قیدو بند کی صعوبتوں کے ساتھ ساتھ جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے اس شہر میں عالمی سطح کی محافل مشاعرہ منعقد ھوا کرتی تھیں

نجانے اس ھنستے بستے مسکراتے شہر کو کیسی نظر لگی کہ یہ روز بروز اجڑتا ھی چلا گیا یہ بھی تو ھو سکتا ھے کہ اس دھرتی پر ھونے والے مظالم یا بے

انصافیوں کے باعث کسی مظلوم بے بس کی ” آہ ” نکلی ھو ۔اور اسی ” آہ ” پر ھی خالق کائنات کا عرش ہل گیا ھو جسکے نتیجے میں اس شہر کو ” مقامی قیادت ” سے ھمیشہ کیلیے محروم کر دیا گیا ھو۔

کہتے ھیں کہ ھر دعا اور بد دعا سے پہلے عرش والے کے پاس ” آہ ‘ پہنچتی ھے جسکے لیے مالک و خالق کائنات کو نہ تو کسی سے رپورٹ طلب کرنا پڑتی ھے نہ کوئی انکوائری کمیشن بنانے کی ضرورت ھوتی ھے نہ ھی

کسی عالیہ یا عظمی ا میں پیٹیشن دائر کرنے کی ایڈوائس دینا پڑتی ھے بلکہ فوری سماعت فوری فیصلہ فوری سزا کے قانون کے تحت عملدرآمد کروا دیا جاتا ھے ۔

یہی وجہ ھوگی کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک ریکارڈ میں یہ شہر ایک ” مقبوضہ راجدھانی ” کے طورپر چلا آرھا ھے قانون پٹہ داری کے مطابق ” پٹہ دار ” کچھ نہ کچھ معاوضہ یا ھدیہ بطور پٹہ ( لیز ) ادا کرتا ھے لیکن اسکے بر عکس

جبری قابض کچھ بھی نہیں دیتا کیونکہ وہ اپنی طاقت اور زور آوری کی بنیاد پر جہاں جی چاھے چڑھ دوڑتا ھے اور اسکے عزائم بھی ھمیشہ توسیع پسندانہ ھوتے ھیں اس قدر حریص ھوتا ھے کہ

زندگی کی آخری سانس تک اپنی مفتوحہ یا مقبوضہ دھرتی کو کسی قیمت پر چھوڑنے کو تیار نہیں ھوتا بلکہ اس کا قبضہ نسل در نسل منتقل ھوتا رھتا ھے گو کہ ھر دور کے قابض ” شہنشہاہ ” کا طریق کار اپنا اپنا ھوتا ھے لیکن رعایا کو

تقسیم کرنے اور اسکا استحصال کرنے کا طریقہ واردا ت یا ایجنڈا مشترکہ و متفقہ ھوتا ھے ۔

تاریخ گواہ ھے کہ ھر دور کے ” شاھوں ” نے سب سے پہلے اپنی مقبوضہ و مفتوحہ دھرتی کے باسیوں میں سے ھمیشہ معاشی طور پر کمزور مگر لالچی مفاد پرست عناصر کو تلاش کیا انہیں اپنے ” درباروں ” میں ان کی چاپلوسی اور خوشامد کی

بنیاد پر نمایاں حیثیت عطا کی اور پھر انہی کو ایک دوسرے کا مخبر بنا کر فن منافقت سے روشناس کرایا اپنے ھی وفاداروں کو مختلف دھڑوں میں تقسیم کر کے آپس میں لڑایا انہی میں سے چند پڑھے نیم خواندہ درباریوں جن کی

چرب زبانی اور خوشامد باقیوں کی نسبت زیادہ ھوئی کو منشی یا مینیجر کے القاب عطا کئیے کچھ کو جنرل مینیجر کے رتبہ سے بھی نوازا پھر انہی کو کسی سدھائے ھوئے گھوڑے کی طرح میدان میں چھوڑ دیا جنہوں نے سرپٹ دوڑ کر ریس جیتنے کی حوس میں اپنے ھی طبقہ کے لوگوں کو اس قدر کچلنا شروع کیا کہ

بھائی کو بھائی سے بیٹے کو باپ سے ٹکرا دیا اور ” حب شاہ ” میں ایسے ایسے خوفناک اقدامات اٹھائے کہ عام آدمی سہم گیا انتقامی سیاست کو فروغ دیا گیا لوگوں کے ذرائع روزگار چھینے گئے پھر محکومیت اور محرومی کا ایسا سلسلہ چلا کہ جو تھمنے کا نام لینے کو بھی تیار نہیں جس کے نتیجے میں ایک ٹھوس اور واضح مثال یہ کالونیاں ھیں ۔

اختلاف رائے اپنی جگہ مگر اظہار رائے پر بھی پابندی نہیں لگائی جا سکتی وجہ یہ ھے کہ اس کالونی کا نام ” پیپلز کالونی ” کیوں ھے ؟ نیز اس کالونی سمیت ملحقہ آبادی کے ووٹ کسی ” زور آور ” کی بجائے مسلسل ایک سیاسی جماعت کو کیوں ملتے ھیں ؟ ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ھیں شہر بھر کا نظارہ کیا جا سکتا ھے

جس کالونی یا محلے گلی میں دور حاضر کے ” شاھوں ” کے مداح یا قصیدہ خواں نہیں رھتے وھاں ٹف ٹائل اور نالی کی تعمیر تو کجا کمیٹی کا عملہ بھی جھاڑو تک دینا پسند نہیں کرتا اور اس ” منفی غیر جمہوری غیر اخلاقی طرز عمل ” کو گزشتہ چالیس پینتالیس سال سے ھم بھی چشم گنہگار سے دیکھتے چلے آرھے ھیں لاکھ شور مچا لیں میڈیا ٹرائل کر لیں اپنی بے بسی کا تماشہ بنانے

اور دکھانے کے سوا کچھ نہیں ھاتھ آنے والا ۔۔آخری حل کے طور پر اگر اس شہر بے نوا کا حسن واپس لانا ھے تو پھر ” راہ نجات ” اختیار کرنا ھوگی جو سیدھا پاک پرور دگار سے ملاتی ھے اور وہ ھے صدق دل سے توبہ ۔۔۔اور وہ توبہ ھے منافقت نفرت مفاد پرستی لالچ کو ھمیشہ کیلئے ختم کرنے کی جس دن جسم پور کاھر شہری سچے دل سے عہد کر لے گا کہ میں نے اس شہر کو پاک صاف کرنا ھے ” ھمہ قسم گندگی ” سے اس شہر کو محفوظ اور پر امن بنانا ھے

اپنی نسلوں کیلیے تو یقین کر لیجیے یہ شہر اک دن ” جنت نظیر ” شہر بن جائے گا آزمائش شرط ھے چھوڑیں حکومت کو خود رضاکارانہ طور پر آگے بڑھیں

( بے شک رضا کاریت پیمبری شیوہ ھے ) یہ محلے صاحب حیثیت لوگوں کا مسکن ھیں جہاں عالم فاضل کامل شخصیات رھائش پذیر ھیں جہاں انجینئرز ‘ ڈاکٹرز ‘ وکلاء علماء سیاسی وسماجی فعال ورکرز اور زمیندار و تاجر حضرات کے گھر اور کوٹھیاں ھیں خود بنا لیں

اس روڈ کو گلیوں کو صدقہ جاریہ بھی اور آئے روز کی اذیت سے نجات بھی وگرنہ چیخ وپکار آہ و زاری نوحہ خوانی سے بھی آگے ماتم داری یا زنجیر زنی بھی کریں تو ” یزیدی درباروں ” سے مکروہ قہقہوں طنز وتشنیع کے سوا کچھ نہیں ملے گا ۔۔۔وما علینا انالبلاغ ۔۔


حاجی پور شریف

(ملک خلیل الرحمن واسنی)

حاجی پور شریف ٹائون کمیٹی کی یونین کونسل میں تبدیلی کیساتھ انوکھی تبدیلی عملہ غائب دفترکوتالے سائلین انتظار پر مجبور،

اسسٹنٹ کمشنر جام پورکے نوٹس کےباوجود عملہ غیر حاضر،ڈپٹی کمشنر راجن پور احمر نائیک ومتعلقہ حکام سے نوٹس لینے کامطالبہ
تفصیل کیمطابق گذشتہ برسوں یونین کونسل حاجی پور شریف کو ٹائون کمیٹی کا درجہ دیاگیا

جس پر یہاں کی عوام نے خوشی کااظہار کیا مگر بدقسمتی سے یو ٹرن حکومت کی ناقص پالیسیوں اور ناقص حکمت عملی کے سبب دوبارہ یونین کونسل بنادیا گیا جس پر یہاں کےمکینوں نےشدید تشویش کااظہارکیا

اور حکومت وقت سے مطالبہ کیا کہ یونین کونسل کی بجائے ٹائون کمیٹی کا درجہ بحال کیاجائے مگر ٹائون کمیٹی سے یونین کونسل میں تبدیلی کیساتھ انوکھی تبدیلی دیکھنےمیں آئی ہےکہ

یونین کونسل کا عملہ غائب ہے، دفتروں کو تالے لگے ہوئے ہیں اورسائیلین انتظار پر مجبور ہیں اور بنیادی ضروری دستاویزات کے حصول کے لیئے باربار چکر اور دھکے کھانے پر مجبور ہیں اس سلسلے میں متاثرہ لوگوں اور اہلیان

حاجی پور شریف نےڈپٹی کمشنر راجنپور احمر نائیک اور محکمہ لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے اعلی حکام وافسران سے” ڈیلی سویل ” کے توسط سے فوری نوٹس لینے

اور غفلت کےمرتکب ا ہلکاروں کیخلاف کاروائی کے مطالبے کیساتھ ٹائون کمیٹی کی بحالی کا بھی بھر پور مطالبہ کیا ہے.

About The Author