عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی سماج میں قالین تلے دبائے گئے مسائل اور المیوں کو آپ جب سامنے لانے لگتے ہیں تو پھر وہ قالین تلے مسائل و المیوں کو دبانے والے شور مچاتے ہیں اور اس پروسس کو بدنام کرتے ہیں اور خوردبین لگاکر نقص ڈھونڈنے لگتے ہیں، پدرسری جبر ہو یا طبقاتی جبر یہ دونوں سوال ایسے ہیں آپ ان پہ بات کرنا شروع کریں تو پتھر آنے لگتے ہیں…… عورت آزادی مارچ پہ رجعت پرستوں کی تنقید کچھ ایسی ہی ہے-
کارپوریٹ سرمایہ داری کے حامی نیولبرل بھی کسی سے کم نہیں یہ مذھبی رجعت پرستوں سے بھی کہیں زیادہ خوفناک ثابت ہوتے ہیں جب آپ عورتوں کی نجات کے سوال اور فیمنسٹ ایشوز کے ساتھ طبقاتی سوال زیر بحث لانے پہ اصرار کریں اور یہ بات سامنے لیکر آئیں کہ سرمایہ دار عورتیں محنت کش مرد اور عورتوں دونوں کا استحصال کرتی ہیں اور سرمایہ دار مرد اور عورتوں کا طبقاتی مفاد محنت کش عورتوں اور مردوں کے طبقاتی مفاد سے تصادم اور ٹکراؤ میں آتا ہے تو کارپوریٹ سرمایہ داری پوری طاقت سے آپ پہ حملہ آور ہوتی ہے-
پدرسری تعصبات ایسے ہیں جو خود اشتراکی جماعتوں کے اندر بھی ہمیں نظر آجاتے ہیں اور شروع شروع میں اشتراکی جماعتوں نے اس سوال کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن رفتہ رفتہ پدرسری رویے اور پدرسری درجہ بندیوں پر کمیونسٹ خواتین نے سوالات اٹھانے شروع کیے اور یہ معاملات اب بھی پوری طرح سے سیٹل نہیں ہوئے-
ہمیں کھلے دل سے اور پوری دلجمعی کے ساتھ مسائل اور ایشوز پہ بات کرنا ہوگی جن کو قالین کے نیچے چھپائے جانے کا عمل جاری ہے-
عورت آزادی مارچ اکثر شہروں میں لبرل بورژوازی و پیٹی بورژوازی /بڑی سرمایہ داری اور درمیانی سرمایہ داری طبقے کے مرد اور عورتوں کے غلبے کا عکس ہیں لیکن اس میں محنت کش مرد اور عورتوں کی شرکت بھی کافی ہے باقی یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ ان میں کتنی خواتین اور مرد ہیں جو طبقاتی فلسفے کے ساتھ مسلح ہیں، وہ یقیناً کم ہیں تب ہی ان مارچوں کا غالب رنگ "لبرل و نیو لبرل” ہوتا ہے-
طبقاتی شعور سے لیس محنت کش عورتیں اپنے طبقے کی دیگر عورتوں کے ساتھ ان مارچوں کا رنگ "انقلابی” بناسکتی ہیں اگر وہ مزید طاقت سے اپنے نظریات کو پھیلائیں….
طبقاتی فلسفے سے لیس باشعور عورت اور مرد کا سب سے بڑا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے محنت کش ساتھی مرد و عورت کو "لبرل و نیولبرل فیمن ازم اور اس سے جڑے تصورات اور نظریات” کے ابھار کی مادی سماجی بنیادوں کو سمجھانے کی کوشش کریں اور اُن کا سرمایہ داری سے رشتہ واضح کریں تاکہ محنت کش عورتوں کو یہ بات سمجھنے میں آسانی ہو اُن کی نجات ایسے سرمایہ داری فیمنسٹ نظریات کو اپنالینے سے ممکن نہیں ہے- ساتھ ساتھ وہ رجعت پرستوں کی طرح پدرسری نظام کو یکسر نظر انداز کرنے والی عادت بد کا شکار بھی نہ ہو…
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر