ڈاکٹر ناصر عباس نیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج مادری زبانوں کا عالمی دن ہے،جسے اس صدی کے آغاز سے منایا جانے لگا ہے۔یہ دن ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کا ہر سال موقع دیتا ہے ، اور ہمیں مادر ی زبانوں کے مسئلے کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔اس دن کا راست تعلق ہم پاکستانیوں سے ہے۔تاریخ اکیس فروری 1952 ،مقام ڈھاکایونیورسٹی ، موجودہ بنگلہ دیش۔ طلبا اپنے لسانی حق کے لیے احتجاج کررہے ہیں۔ پانچ سال پہلے نو آبادیاتی زنجیروں کو توڑکر وجود میں آنے والی ریاست، نوآبادیاتی جبر سے کام لیتی ہے۔ احتجاج کرنے والوں کی زبانوں کو خاموش کرانے کی خاطر ان پر گولی چلاتی ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ مادری زبان کو تسلیم کرانے کی خاطر چند نوجوان اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں ۔مادری یا نیٹو زبان کی اہمیت کیا ہوتی ہے اور اس سے محرومی کا انسانوں کی سیاسی ، ثقافتی ، تعلیمی ہی نہیں ،ان کی نفسی زندگی پر کیا اثرپڑتا ہے،یہ بیسویں صدی کی لسانیات ہی کا نہیں،ادب کا بھی اہم موضوع بنا ہے۔نوبیل انعام یافتہ برطانوی شاعر و ڈراما نگار ہیرولڈ پنٹرکا ڈراما "پہاڑی زبان” مادری زبان سے محرومی کے نفسی اثرات کو موضوع بناتا ہے۔
یہ ایک پوسٹ کولونیل ڈراما ہے۔ اگر چہ اس کے بارے میںکہا گیا ہے کہ یہ ترکی کے کردوں پر مظالم کے پس منظر میں لکھا گیا ہے مگر مقام اور وقت کا ذکر نہ ہونے کے سبب یہ کسی ایک خطے تک محدود نہیں بلکہ ایک صورتِ حال کو پیش کرتا ہے: جب کسی گروہ کو اس کی زبان سے محروم کردیا جاتا ہے۔ ایک سابق نو آبادیاتی ملک کے ادیب کا ٹھیک اس صورت حال کو موضوع بنا نا جو اس کے ہم وطنوں نے پیدا کی اور جس میں غیر معمولی سفاکی ہے، ایک فوراً سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ادب کی تخلیق میں اگر وقت اور مقام کو حذف کرکے بھی انسانی صورت حال کو بیان کرنے کی صلاحیت ہے تو اسی ادب میں قوم، جغرافیے اور تاریخ سے بلند ہونے کی اہلیت بھی ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے کئی مقامات پر لگتا ہے کہ جیسےاس میں کہی گئی باتیں ہم سب سے کچھ نہ کچھ متعلق ہیں،کیوں کہ ہم میں سے اکثر اپنی زبانوں سے کم یا زیادہ کٹے ہوئے ہیں۔خیر، یہ ایک ایکٹ کا ڈراما ہے اور ایک ہی نشست میں پڑھا جاسکتا ہے ، اور مادری زبانوں کے عالمی دن کو اس کا پڑھا جانا مناسب ہوگا تاکہ ہم مادری زبانوں کے مسئلے کی حساسیت سمجھ سکیں ۔ اس کا اہم ترین حصہ یہ ہے کہ اس میں آفیسر ایک بوڑھی عورت کو جو اپنے قیدی بیٹے سے ملنے آتی ہے، اس کی اپنی زبان بولنے سے منع کرتا ہے ۔
"میری بات سنو۔تم پہاڑی لوگ ہو۔تم سنتے ہو مجھے؟تمھاری زبان مردہ ہوگئی ہے۔ یہ ممنوع ہے۔ یہاں اس پہاڑی زبان کے بولنے کی اجازت نہیں ہے۔تم اپنی زبان تم اپنے لوگوں سے نہیں بول سکتے۔ اس کی اجازت نہیں ہے۔ کیا تم میری بات سمجھ رہے ہو؟ تم اسے نہیں بول سکتے۔ یہ غیر قانونی ہے۔ تم صرف مرکز (کیپٹل ) کی زبان بول سکتے ہو۔ صر ف اسی زبان کے بولنے کی یہاں اجازت ہے۔ اگر تم یہاں اپنی پہاڑی زبان بولنے کی کوشش کر وگے تو تمھارے ساتھ سخت برا سلوک ہوگا ۔ یہ عسکری فیصلہ ہے۔ یہ قانون ہے۔ تمھاری زبان ممنوع ہے۔ یہ مردہ ہے۔ تم میں سے کوئی اپنی زبان نہیں بول سکتا۔ تمھاری زبان اب وجود ہی نہیں رکھتی ۔ کوئی سوال؟ ”
اور سوال بہت ہیں ، ان کی طرف سے جن کی زبان کو فوجی قانون کے تحت مردہ قرار دیا گیا ، حالاں کہ وہ بولی جارہی ہے اور ان کی جانب سے بھی سوال ہیں جنھیں تاریخ کے جبر کے تحت کیپٹل کی زبان بولنے پر مجبور کیا گیا ہے مگر وہ فخر کے ساتھ کیپٹل کی زبان بولتے ہیں۔پہلا سوال یہ ہے کہ آخر کیوں، نو آبادکار کوئی بھی ہو ، اس کا قانون ، خدائی قانون ہے، ا س کی زبان سے نکلا ہوا کلمہ آدمی ہی نہیں ، اس کے کلچر اور زبان کو مردہ کرسکتا ہے۔نو آبادکار یہ طاقت کہاں سے اخذ کرتا ہے؟ ایک جواب تو ہے عسکریت سے ۔ عسکری قانون میں کئی معانی چھپے ہیں۔ توپ اور ذہن دونوں کی طاقت کےمعانی۔ (توپ کھسکی پروفیسر پہنچے/ جب بسولہ ہٹا تو رندہ ہے)دوسرا سوال یہ ہے کہ نو آباد کا ر پہاڑی(کیوں کہ وہ مرکز سے دور ہے) —پنجابی ،اردو ، سندھی ،سرائیکی، بلوچی ،براہوی ،پشتو، بلتی ،تورولی ، آئرش ، افریقی یا کوئی اور زبان کیوں ممنوع قرار دیتا ہے؟ کیا اس لیے کہ وہ مقامی لوگوں کی مزاحمت یا بغاوت سے خوفزدہ ہوتا ہے؟ وہ اپنی زبان بولیں گے تونو آبادکار نہیں سمجھ سکیں گے کہ مقامی لوگ کیا سوچتے ہیں؟ میرا خیا ل ہے ، دو طرح کے مقاصد اس کے پیش نظر ہوتےہیں۔ ایک یہ کہ زبان پر اختیار سب سے بڑا اختیار ہے اور دوسر ا یہ کہ کیپٹل کی زبان حاکمیت کو مکمل کرتی ہے ۔ زبان صرف ابلاغ کا ذریعہ نہیں ،دنیا کو سمجھنے ،برتنے اور اپنے تخیل میں تخلیق ہونے والی دنیائوں کو ظاہر کرنے کا وسیلہ بھی ہے ۔نیز یہ یکجائی پیدا کرتی ہے۔ اس زبان سے محرومی آدمی کے اندر کی ساری دنیا کو موت سے ہمکنار کردیتی ہے۔ اس ڈرامے میں بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ بوڑھی عورت جو کیپٹل کی زبان نہیں جانتی اور اپنے بیٹے سے اپنی پہاڑی (یعنی ممنوعہ ) زبان بولتی ہے، جب اسے خاموش رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو وہ بولنےہی سے معذور ہوجاتی ہے، یعنی سرے سے بول ہی نہیں سکتی اور اپنی ہی زبان سمجھنے سے بھی قاصر ہوجاتی ہے۔
اس کی اپنی زبان جو اس کے اپنے بیٹے سے محبت کے اظہار کا واحد ذریعہ تھی، جب اس سے زبردستی چھین لی گئی تو وہ صدمے میں چلی گئی۔ یہ صدمہ بھی ہے اور احتجاج بھی۔ صدمہ انگیز احتجاج۔ یہ صدمہ اس بے یقینی سے پھوٹتا ہے کہ کسی سے اس کی زبان چھینی جاسکتی ہے، وہ زبان جو محبت کا اظہار کا واحدذریعہ تھی۔ احتجاج ،اس دنیا کے خلاف جو ایک جنم دینے والی ہستی کو چپ کر ادیتی ہے اور وہ اس کے ردّعمل میں اپنے اندر سمٹ جاتی ہےاور اس دنیا پر خاموشی سے لعنت بھیجتی ہے۔
اس بوڑھی عورت کی حالت کو "لسانی سکتے "کا نام دیا جاسکتا ہے۔ لسانی سکتہ کوئی معمولی صدمہ نہیں۔ آدمی کے لسانی شعور وفہم اور دوسرے لوگوں سے رابطے کو منقطع کردیتا ہے۔ اس کے اندر لغویت کی انتہا کردیتا ہے۔زبان سے زبردستی محروم کیے جانے کے بعد وہ اس بنیادی شے ہی سے محروم ہوجاتی ہے جو اس کے وجود کوبامعنی بناتی ہے۔ حالاں کہ انھیں اگلے حکم تک ان کی زبان بولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔مگراس کے لیے یہ بات سمجھ سے بالا تر تھی اور اسی لیے یہ مضحکہ خیزی کی انتہا تھی کہ دنیا میں کوئی شخص یا حکومت اس کو اس کی صدیوں پرانی زبان کو ممنوع کرنے کا اختیاررکھتا ہے اور اس اختیار کا وہ اخلاقی جواز بھی پیش کرسکتا ہے۔
اس بوڑھی عورت کی شبیہ ہمارے لیے ذرا اجنبی نہیں !
یہ بھی پڑھیں:
ادب ،معنی اور معنویت۔۔۔ڈاکٹر ناصر عباس نیر
مزاحمت، دانشوری اور ادب ۔۔ڈاکٹر ناصر عباس نیر
ملتان اور رفعت عباس کی اوڈیسی۔۔۔ڈاکٹر ناصر عباس نیر
انسانی ذات کا اندھا غار: ڈاکٹر اظہر کی بیٹی کا قتل اور خود کشی۔۔۔ڈاکٹر ناصر عباس نیر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر