اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سستا عاشق جیب کا غریب ہوتا ہے یا زبان کا؟|| شمائلہ حسین

روزمرہ زندگی کو چھانا اور شادی شدہ کامیاب زندگیوں کے چند راز میں نے کسی نہ کسی طرح جان لیے، پھر سوچا ان چیزوں کو پبلک کر دوں، کیا پتہ کب کس کا بھلا ہوجائے۔

شمائلہ حسین 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم سب کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی کے عاشق یا معشوق رہے ہوتے ہیں لیکن خود کے عاشق ہو جانے اور کسی دوسرے کے عاشق ہونے کے درمیان جو پیمانہ ہم نے مقرر کر رکھا ہے وہ سستا یا مہنگا عاشق ہونے کا ہے۔
یہ لفظ اکثر وبیشتر سننے میں آتے ہیں اور ان میں سستا عاشق سب سے زیادہ مشہور طعنہ ہے۔ میری ناقص عقل عاشقی کا یہ درجہ سمجھنے سے ہمیشہ قاصر رہی اور ایک مدت تک میں سمجھتی رہی کہ جو محبوبہ کے خرچے نہ اٹھا سکے شاید وہ سستا عاشق کہلاتا ہو گا۔
یعنی جو ریسٹورنٹ میں کھانے کا بل ادا کرنے کے قابل نہ ہو، جس کے پاس لٹانے کے لیے جذبات کا سمندر ہو لیکن ملاقات کے لیے ‘پردے کا مناسب انتظام’ کرنے کے روپے نہ ہوں، جو برانڈڈ شاپنگ نہ کروائے اور مہنگے مہنگے فون گفٹ نہ کرسکے وہ سستا ہوتا ہو گا، اور جو یہ سب کرسکے وہ مہنگا عاشق کہلائے گا۔ لیکن چند روز قبل ایک ایلیٹ کلاس جوڑے سے ملاقات کے دوران مرد نے جب مادری زبان میں اپنی بیوی سے کہا ‘تیرے نال پیار ای بوہت اے (تم سے تو پیار ہی بہت ہے)’ تو بیوی نے ناک چڑھا کر کہا ‘یہ کیا سستے عاشقوں والی حرکتیں کر رہے ہیں۔’
تب مجھ کم علم خاتون کی آنکھوں کے سامنے مہنگے سستے کی جو دھند چھائی ہوئی تھی یک دم چھٹ گئی۔ حالات بدل گئے ، خیالات بدل گئے اور جذبات تو یکسر ہی بدل گئے۔
بات سمجھ میں آئی کہ سستا عاشق جیب کا غریب نہیں ہوتا۔ بے چارہ انگریزی یا اردو میں جذبات کو بیان نہ کرسکے تو اس کے مہنگے پن پر حرف آتا ہے۔
‘مجھے تم سے محبت ہے’ کہنے والے کا تاثر اور طرح ہوتا ہے جب کہ ‘آئی لو یو’ کہنے والے کا امپریشن کچھ اور بنتا ہے۔ چلو اردو زبان تک تو بات پھر بھی سنبھل جاتی ہے لیکن اگر کوئی مادری زبان میں ہی یہ بات کہہ دے تو اس کی قیمت پر خاصا فرق پڑ جاتا ہے ۔
مثلاً ‘مینوں توں بوہت سوہنی لگدی ایں’ یا ‘میکوں توں بہوں سوہنی لگدی ہیں’ کی بجائے اگر کہا جائے ‘یو لک پریٹی’ تو عاشقی کا لیول مہنگا ہوجائے گا ۔
یہی معاملہ گالیوں کا ہے۔ اگر گالیاں انگریزی میں ہوں گی تو سننے والا مہنگی مہنگی بے عزتی محسوس کرے گا لیکن اگر وہی اردو ،پنجابی ، سرائیکی ، سندھی یا بلوچی میں ہوں گی تو بے عزتی کا لیول اور بھی گر جاتا ہے۔
گتھیاں سلجھنا شروع ہوئیں تو اندازہ ہوا کہ کلاس کے ہائی ہونے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ اور بھی ہائی فائی ہوجاتا ہے۔ لوئر کلاس کے ہاں اپنے سگے بچوں سے محبت اور غصے کا اظہار عموماً اپنی ہی زبان میں کیا جاتا ہے لیکن مڈل کلاس کے ہاں وہ زبان اردو سے بدل دی جاتی ہے۔ پھر جب آپ ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں تو ہر طرح کا اظہار انگریزی زبان کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ یقین مانیے انگریزی کی ڈگری ، ٹیوشن ، تعلیم اور رہن سہن سب شدید مہنگا ہے، اتنا مہنگا کہ اگر برطانیہ اور امریکہ میں سڑکوں پر بھیک مانگتا فقیر بھی یہاں آکر انگلش اکیڈمی کھول لے تو لاکھوں کمائے۔
خیر بات ہو رہی تھی سستے اور مہنگے عاشق کی تو میں نے اس مشاہدے سے جو نتیجہ نکالا وہ یہ رہا کہ آپ کو سرکس کا سدھایا ہوا شیر ہونا چاہیے۔
اپنے ہر طرح کے جذبے کو اتنا کنٹرول کرنا چاہیے کہ آپ کو دیکھ کر انسان نہیں دیوتا کا گمان ہو۔ پیار آئے تو لاپروائی سے آئی لو یو کہہ دینا کافی ہوگا۔ غصہ آئے تو بس ناپسندیدگی کے اظہار کے لیے صرف کوئی ایک انگلش کا جملہ بول دیں۔ کبھی حیران ہوں تو آنکھیں کھول کر ‘او تہاڈی خیر ہو جائے’ کہنے سے گریز کریں بلکہ صرف ‘امیزنگ’ کہہ دینے پر گزارا کریں۔ کوئی بہت پرکشش لگے تو پراسرار سی مسکراہٹ کے ساتھ جتنی انگریزی آتی ہے اس کا استعمال کریں۔ کسی کی تصویر فیس بک پر اچھی لگے تو المعروف ‘نائس پک ڈئیر’ لکھیں اور رعب جمائیں، روزمرہ کے معاملات میں چیزوں ، عوامل اور انسانی اعضا کے نام بھی اگر انگریزی میں ہوں تو سبحان اللہ!
اس مہنگے لگنے کے چکر نے ہمیں عجیب دوہری زندگی کا عادی بنا دیا ہے۔ ہم سوچتے اپنی مادری زبان میں ہیں اسے ٹرانسلیٹ قومی زبان میں کرتے ہیں اور پھر اظہار کے لیے انگریزی میں منتقل کر کے جملہ ادا کرتے ہیں، اتنی دیر میں جذبہ کہیں پیچھے رہ جاتا ہے، اصل بات کا تاثر کہیں گم ہوجاتا ہے اور ایک باوقار لہجے میں پرسوچ انداز کا جملہ جو نکلتا ہے وہ یقیناً بہت محتاط اظہار ہوتا ہے، اور جو اتنا محتاط ہوا وہ برجستہ تو نہ ہوا نا۔ جیسے گالی کو روک دیا جائے تو مزہ کرکرا ہوجاتا ہے ویسے ہی محبت اور غصے کے اظہار کو استری کرنے کی کوشش کی جائے تو کس بل تو نکل جاتے ہیں لیکن بات کا سواد کہیں گم ہوجاتا ہے۔
ابھی جب میں یہ لکھ رہی تھی تو میرے کانوں میں کسی کی آواز آئی کہ ‘شٹ یور ماؤتھ’ اور چند لمحوں بعد پھر کسی بات پر ‘منہ بند رکھ اپنا’ اور ابھی ابھی پنجابی میں بھی اس جملے کا بامحاورہ ترجمہ دہرایا گیا، جو میں یہاں نہیں لکھ سکتی کیونکہ مجھے بھی تو مہنگا لگنا ہے۔
رہی بات جملوں کی مزاحیہ ٹرانسلیشن کی تو یہ قصہ کسی اور دن پر اٹھا رکھتے ہیں۔ ابھی کے لیے رب راکھا اوہ نہیں نہیں خدا حافظ اوہو گڈ بائے۔
(یہ بلاگ ڈی ڈبلیو کی ویب سائٹ پر شائع ہوچکا ہے)

یہ بھی پڑھیے:

%d bloggers like this: