مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سئیں ارشاد تونسوی کی وفات ایک عہد کا خاتمہ||ظہور دھریجہ

آج دل بہت اُداس ہے کہ ایک عہد اور عہد ساز شخصیت کا انتقال ہوا ہے ۔جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ سرائیکی زبان کے معروف شاعر ارشاد تونسوی آج 17فروری 2021ء بروز بدھ صبح تقریباً6بجے بہاولپورمیں فوت ہو گئے

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج دل بہت اُداس ہے کہ ایک عہد اور عہد ساز شخصیت کا انتقال ہوا ہے ۔جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ سرائیکی زبان کے معروف شاعر ارشاد تونسوی آج 17فروری 2021ء بروز بدھ صبح تقریباً6بجے بہاولپورمیں فوت ہو گئے ، آپ کی نماز جنازہ دربار حضرت سلمان تونسوی تونسہ شریف میں بعد نماز عصر ادا کی جائے گی۔بعد میں اُن کو اُن کے آبائی قبرستان بستی ریتڑہ میں سپرد خاک کیا جائے گا ۔مرحوم ارشاد تونسوی کا شمار جدید لہجے کے بانی شعراء میں ہوتا ہے۔سرائیکی زبان میں ان کے دو شعری مجموعے ’’ندی ناں سنجوک اور عشق اساڈٖا دین‘‘ شائع ہو چکے ہیں اور آپ کو عظیم خدمات پر اکادمی ادبیات کی طرف سے ایوارڈ بھی حاصل ہوا ۔مرحوم ارشاد تونسوی نے اپنے لواحقین میں ایک بیٹا شہریا اور ایک بیٹی سوگوار چھوڑی ہے۔ڈسٹرکٹ منیجر اوقاف کی حیثیت سے انہوں نے ریٹائرمنٹ حاصل کی اور ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی وفات تک لکھنے پڑھنے کے کام سے مشغول رہے۔ وفات سے پہلے ارشاد تونسوی سرائیکی زبان میں ناول لکھ رہے تھے ۔ ایک ملاقات پر میرے سوال کہ یہ جدید لہجے کے تین شاعر رفعت عباس اور آپ نثر کی طرف آ کر ناول لکھ رہے ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے ؟ارشاد تونسوی نے کہا کہ جب قوموں کی زندگی میں کوئی تبدیلی آتی ہے تو بڑے بڑے ناول لکھے جاتے ہیں ،میرا بڑائی کا دعویٰ نہیں مگر وسیب میں ناول آنا شروع ہو چکے ہیں ۔
ارشاد تونسوی سرائیکی کہ بہت بڑے شاعر ہونے کے باوجود درویش صفت انسان تھے ، شہرت سے دور بھاگتے تھے کسی طرح بھی گروپ بندی کا شکار نہ تھے اور نہ ہی اس پر یقین ر کھتے تھے۔انہوں نے کبھی خود کو بڑا بنانے کی کوشش کی اور نہ ہی اُن کا انداز لیڈروں والاتھا ، شاعری کے ساتھ وہ نثر بھی بہت اچھی لکھتے تھے اور انہوں نے سرائیکی میں مضامین لکھے ، ایک مضمون ’’سچ کوڑ‘‘ میں انہوں نے تاریخی حوالوں کے ساتھ اپنا موقف بیان کیا وسیب کا باشندہ ہونے کی بناء پر ان کو اپنے وسیب کی محرومی کا پورا پورا احساس بھی تھا اور ادراک بھی ۔ ارشاد تونسوی نے شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی محرومی کا بھی ذکر کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ سرائیکی مثریے میں طاقت اُس بناء پر ہے کہ وسیب خود انہی طرح کے حالات کا شکار ہے۔ ایک مضمون ’’نواں عہد نامہ‘‘ میں وہ کہتے ہیں کہ صحیفوں کا کوئی فائدہ نہ ہوتا تو لوگ انہیں کب کے بھول چکے ہوتے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ارشاد تونسوی نے سیاستدان کی حیثیت سے طبقاتی نظام کے خلاف ایجنڈا نہیں اٹھایا اور نہ ہی احتجاجی مظاہرے کئے البتہ وہ بنیادی طور پر طبقاتی نظام کے خلاف تھے اور وسیب کے سرداروں، تمنداروں کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ایک مضمون میں موسیٰ اور فرعون کا مسئلہ صرف اتنا ہے کہ فرعون خدا کیوں بن بیٹھا ؟ دھرتی کے نئے خدائوں کو سمجھنے کے لئے کوئی نیا عہد نامہ لکھنا ہو گا۔ ارشاد تونسوی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے دانشور بھی تھے ان کی باتوں میں دانائی اور حکمت کی باتیں پوشیدہ ہیں ۔ آج کے طالب علم کو ان کے بارے میں تحقیق اور ریسرچ کی ضرورت پیش آئے گی ۔بہت سے لوگوں نے اپنے بارے میں بہت کچھ لکھ کر دوسروں کے نام پر چھپوا دیا ہے مگر ارشاد تونسوی جیسے لوگوں کے بارے میں حقیقی معنوں میں تحقیق کی ضرورت پیش آئے گی ۔
ارشاد تونسوی کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی ذات میں جوشائستگی، آداب، لطافت اور تہذیب پائی جاتی ہے ان کی نثر میں بھی اس کا عکس دیکھا جاسکتا ہے ۔ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی زمین سے جڑا ہوا ہے اور یہاں کی مٹی کی محبت اس کی تحریریوں میں رچی بسی نظر آتی ہے ۔ تونسہ شریف کو پیر پٹھان کی نگری کہا جاتا ہے ،پیر پٹھان کی نگری کا تذکر ہ وہ ایسے ایسے انداز سے کرتے ہیں جیسے آپ کے سامنے فلم چل رہی ہو اور وہ دھرتی واس ہونے کا حق ادا کرتے ہیں۔بلاشبہ ان کو اپنی دھرتی، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے پیار تھا کوئی شاعر بڑا ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ اپنی مٹی اور اپنی ماں بولی سے محبت نہ کرے۔ ارشاد تونسوی خواجہ فرید کی شاعری کو لے کر عشق مجازی اور حقیقی میں جو فرق بیان کرتے ہیں وہ کسی عام بندے کے بس کی بات نہیں ہے اور جو انہوں نے خواجہ صاحب کی شاعری کے حق دلائل پیش کئے ہیں وہ بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔وہ اقبال سوکڑی کی شاعری کو لے کر دامان کی کیفیت اور کرب کو بیان کرتے ہیں اور وہاں بارش کا ہونا اور نہ وہونا جیسے مسائل کو خوبصورت اور دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کچھ شاعروں کی شاعری اور شخصیت کا پوسٹم مارٹم بھی کیا جوکہ ادب کا حصہ ہے، انہوں نے اپنی تنقید میں بھی تنقید اور تنسیخ کے پہلو کو سامنے رکھا۔
آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں تو اُن کی بہت سی باتیں یاد آتی ہیں مجھ جیسے نا چیز سے بھی محبت کرتے تھے اور ہمیشہ خلوص کے ساتھ دوستی کا ساتھ نبھایا۔ایک موقع پر انہوں نے کہاکہ آپ سرائیکی کتابوں کی صورت میں جو خزانہ دے رہے ہیں قوم اسے ہمیشہ یاد رکھے گی ۔ میری کتاب ’’سرائیکی وسیب ‘‘کو انعام ملا تو مبارکباد کے لئے تشریف لائے اُن کا اوڑنا بچھونا ادب تھا وہ اچھے شاعر کے ساتھ ساتھ اچھے دوست بھی تھے ۔ارشاد تونسوی نے خطوط عزیز شاہد کے نام لکھے ان میں لفظوں کی لطافت ، عام انسان کی خواہشات اور بے بسی کا جو عالم ہے وہ وہی شخص جان سکتا ہے جنہوں نے john keatsکے خطوط کو پڑھا ہے۔ اس کے علاوہ وہ شہروں کے مسائل ، دیہاتوں کی خوبصورتی اور فطرت کو قریب سے دیکھتے ہیں۔انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے گائوں میں جا کر بسیرا اختیار کیا حالانکہ بڑے افسر بڑے شہروں میں گھر لیتے ہیں مگر انہوں نے اپنی بستی جو کہ تونسہ سے 20سے 25کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور ٹبی قیصرانی کے قریب ہے جا کر بسیرا کیا اور اپنی جھوک آباد کی ۔وہ جہاں رہتے ہیں یہ سرداروں اور تمنداروں کا علاقہ ہے مگر انہوں نے آج تک کسی سردار اور تمندار کی پرواہ نہیں کی ۔
ہر اچھا لکھاری اپنے عہد کی تاریخ اور اپنے عہد کا مورخ بھی ۔وہ آج ہمارے درمیان موجود نہیں مگر وہ کبھی فراموش نہ کیا جا سکیں گے کہ ارشاد تونسوی نے رموز کی باتیں کی ہیں۔ زندگی کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کی ہے ۔ لگتا ہے کہ وہ اضطرابی کیفیت میں ہیں اور فطرت کی آغوش میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ ان کے مضامین میں تمام ادبی اصلاحات استعمال کی گئیں ہیں جن میں تشبیع اور استعارہ شامل ہے۔ان کا شمار اچھے لکھنے والوں میں ہوتا ہے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ان کی بیٹے شہریار اور بہو ڈاکٹر سعدیہ کمال کا وسیب میں ایک نام ہے اور وہ ارشاد تونسوی کی طرح سرائیکی زبان و ادب کی بہت خدمت کررہے ہیں اور ان کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھیں گے ۔

 

یہ بھی پڑھیں:

ایک تاریخ ایک تہذیب:چولستان ۔۔۔ظہور دھریجہ

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

%d bloggers like this: