ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا تھا کہ نیا بننے والا ملک ایک ایسی لیبارٹری ہو جہاں پر اسلامی نظریات پر تجربات کیئے جاسکیں۔ایک ممنون قوم کی طرح ہم نے قائد کے اس بیان پر سیاق و سباق سے ہٹ کر اپنے فکری شعور ، اپنے زاتی اور سیاسی مفادات کی خاطر دل وجان سے عمل کرنا شروع کردیا۔ہم نے دنیا کے ممالک کی جنگیں خود پر مسلط کرلیں۔ہم نے فلسطین کی آزادی کے نعرے مارتے ہوے اسرائیل کے خلاف غم و غصے کا اظہار اپنی املاک کو جلا کر کیا۔
ہم نے اس لیبارٹری میں نت نئے تجربات کیئے ایک تجربہ کافر بنانے کا بھی کیا ۔ہم نے جب دل چاہا کسی فرقے کو کافر قرار دینے کا فارمولا تیار کرکے قتل وغارت کو مذہبی رنگ دے دیا۔نتیجہ یہ کہ مختلف مسالک ایک دوسرے کو کافر قرار دے کر ایک مدت تک ایک دوسرے کی گردنیں اتارنے کے فریضہ میں مشغول رہے
لیبارٹری قائم ہوچکی تھی اور قائد کا فرمان بھی تھا اب یہ ہم پر تھا کہ جیسے چاہیں اور جس طرح کے چاہیں تجربات کریں سو ایک کے بعد ایک تجربہ کیا گیا۔لیبارٹری میں زبان پر بھی تجربات کیئے گئے اور مخصوص زبان بولنے والوں یا اپنی مادری زبان بولنے والوں کو اپنے مفادات کی کسوٹی پر پرکھا گیا۔تجربات کے بعد جب یہ ثابت ہوگیا کہ ان کوہماری دی ہوئی شناخت سے زیادہ اپنی زبان اور قومیت سے زیادہ پیار ہے تو ان کو غدار قرار دے کر ہم ان پر چڑھ دوڑے۔یہ تجربہ ناکام ہوا اور یہ لوگ ہم سے الگ ہوگئے۔آدھا ملک ہم نے اس تجربے کی بنیاد پر گنوا دیا مگر ہماری جستجو اور تحقیق کی عادت مزید پختہ ہوگئی ۔ہم نے حوصلہ نہیں ہارا ابھی بھی ہمارے پاس تجربہ گاہ موجود تھی اور نئے تجربات کا حوصلہ بھی جوان تھا۔
خطے میں موجود ہمارے دو اسلامی ملکوں کے مابین فرقہ پرستی کی بنیاد پر کشید گی بڑھی اور بالآخر ایک لاحاصل جنگ شروع ہوگئی المیہ ہی ہے کہ دونوں طرف سے مارے جانے والوں کو شہادت کا رتبہ ملا۔ان ممالک کی جنگ کو بھی ہم نے اپنے اوپر مسلط کرلیا اور ان کی پراکسی وار ہمارے ملک میں شروع ہوگئی اور ہم ریاست کی بجائے گروہ بن کر مسلک کی بنیاد پر اپنے من پسند ممالک کی نا صرف حمایت کرنے لگے بلکہ اس جنگی جنون میں ایک دوسرے کا خون بہانے لگے۔تجربہ گاہ میں بم دھماکوں کا دھواں بھرگیا اور اس کا فرش خون الود ہوگیا مگرتجربات جاری رہے۔
سرخ انقلاب کے پھیلاو کو روکنے کے لیے اور سائبریا کے ریچھ کی گرم پانیوں تک رسائی روکنے کا فارمولہ تیار کرنے کا حکم ملا تو فوری طورپر اس تجربہ گاہ کو جو پہلے ہی تجربات کے سبب خستہ حالی کو پہنچ چکی تھی میں ایک نیا تجربہ کیا گیا اور افغان باقی کہسار باقی کے نام کا نیا فارمولا تیار کیا گیا۔مغربی سرحد کھول دی گئی۔اسلام دشمن ممالک میں چھپنے والے اسلامی جہادی لٹریچر کے زیر اثر اسلامی لشکر تیار کیے گئے اور اپنے ہی لاکھوں نوجوانوں کو اس جنگ میں جھونک دیا گیا۔ یہ تجربہ محض چند لاکھ نوجوانوں کی داستان عبرت نہیں ہے بلکہ اس قضیے میں کم سے کم دو نسلوں کو قربان کردیا گیا۔مگر اس بار تجربہ کامیاب رہا اور تجربے کے بدلے میں ڈالروں کی برسات ہوئی۔ اس ساون بھادوں میں سب نہاے اور خوب نہاے۔
یہ تجربہ اس قدر شاندار اور کامیاب رہا کہ اس تجربے کی بنیاد پر ایک نسل مذہب کے نام پر اپنی جان دے کر جنت کی طرف روانہ ہوئی تو دوسری نسل اس تجربے کی بنیاد پر ڈالر جیبوں میں بھر کر امریکہ کی جنت کی طرف روانہ ہوئی۔دلچسپ امر یہ ہے کہ دونوں طرح کے سفر میں روانہ ہونے والے مطمئن ہیں اورسمجھتے ہیں کہ جو قرض تھا جان پر وہ چکا دیا ہے۔اس تجربے سے کسی کی دنیا سدھر گئی تو کسی کی آخرت۔یہ انہی دنوں کا ماجرا ہے کہ جب اس تجربہ گاہ کو روم کے مرکزی اسٹیڈیم کلازیم کی حیثیت حاصل تھی۔طاقتور اور بااثر شخصیات دولت لے کر اس کی گیلریوں میں بیٹھ جاتے اور ہم غلاموں کی طرح ایکدوسرے سے نبرد آزما رہے۔جب ایک طاقتور غلام مدمقابل کی گردن کاٹ دیتا تو داد وتحسین کے ساتھ ساتھ بے انتہا دولت بھی نصیب ہوتی۔
کلازیم کی اسی جنگ وجدل کے دوران بطور انعام جیتی گئی دولت کو فارن فنڈنگ کا نام دے کر ایک نیا تجربہ کیا جارہا ہے۔ایک ایسی دولت کا حساب مانگا جارہا ہے جس کے لیے کتنے ہی لوگوں نے بروٹس کا کردار ادا کیا۔ نجانے کتنے ہی لوگوں کے ہاتھ اپنے ہی لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔جان پرکھیل کر جمع کی گئی دولت کا حساب کون رکھتا ہے۔بطور وارلارڈز مختلف خفیہ زرائع سے حاصل ہونے والی رقم کے زرائع کون بتاتا ہے۔ہم تو اس قدر ایڈونچر پسند ہیں کہ ایک منتخب وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے کے لیے مبینہ عالمی دہشت گرد سے مالی امداد مانگتے رہے۔
تجربہ گاہ میں اب کی بار فارن فنڈنگ کیس کے حوالےسے کیا جانے والا تجربہ ناکام ہونے جارہا ہے۔فارن فنڈنگ کیس کے حمام میں سب ننگے ہیں اور پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے کی بجائے ایک دوسرے کے عیبوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔حالات کو اس نہج تک لے جانے کی کوشش کررہے ہیں کہ جہاں پر کلازیم کے منتظمین یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں کہ انتشار پھیلنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے اس لیئے ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں اس کیس کو ختم کیا جارہا ہے۔ویسے بھی ایک تاریخی سچائی یہ ہے کہ طاقت کے زور پر حاصل کیئے گئے ملکوں اور دولت کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا اور ناہی طاقتور کسی کا جواب دہ ہوتا ہے۔دلیل کے طور پر فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کو ہی دیکھ لیں اور آگے کچھ دنوں میں فارن فنڈنگ کیس کو دیکھ لیجئے گا۔
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر