گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرہ وال دنیا کے کسی بھی کونے میں آباد ہوں ڈیرہ کی ثقافت اور حسین یادوں کو نہیں بھولتے اور جب موقع ملے جھمر۔ دریس ۔ ثوبت ۔گیتوں اور سازوں کو خوب انجائے کرتے ہیں۔ گزشتہ اتوار کے روز اسلام آباد اور راولپنڈی رہنے والے ڈیرہ وال F9 پارک اسلام آباد میں جمع ہوئے اور ثوبت پکانے اور کھانے کا بڑا پروگرام بنایا ۔ پرانا گیت ہے ۔۔بچپن کی محبت کو دل سے نہ جدا کرنا ۔۔ جب یاد میری آئے ملنے کی دعا کرنا۔۔
ڈیرہ کی مٹی میں محبت ایسی گوندھی گئی ہے کہ آپ جہاں بھی ہوں اس کی بھینی بھینی خوشبو انسان کے روح کے اندر مچلتی رہتی ہے۔ مجھے یاد ہے جب دریاے سندھ پر پل نہیں بنا تھا تو ہم لاہور سے براستہ دریا خان ڈیرہ کشتیوں اور لانچوں یا ایس ایس جھلم جہاز کے ذریعے تین دریا کراس کرتے جب ڈیرہ پتن کے قریب پہنچتے تو ہمیں ڈیرہ کے درختوں کی چوٹیاں نظر آتیں اس وقت ہم کھڑے ہو جاتے اور وہ منظر اتنا حسین ہوتا کہ دل بلیوں اچھلنے لگتا ۔
شاعر نے شاید اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ خوبصورت شعر کہا تھا ؎ میکوں کیویں یاد نہ رہسی تیڈے گھر دا رستہ ۔۔۔ ڈو تاں سارے جنگل آسن ترے تاں سارے دریا۔۔۔ اسلام آباد کے ڈیرہ وال خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے وہاں ڈیرہ کی ثقافت کی نشانیوں کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ ہمارے ایک مہربان دوست اقبال صاحب کینیڈا سے چن مسات کے نام سے یو ٹیوب چینل چلا رہے ہیں اور ایسی وڈیوز اور سرائیکی گیت اور پروگرام چلاتے ہیں کہ بندہ دنگ رہ جاتا ہے ۔
ڈاکٹر حفیظ الحسن صاحب پیرس فرانس سے ڈیرہ اولڈ فوٹو گروپ چلا کر ڈیرہ والوں کی تہزیب وثقافت کو محفوظ کر رہے ہیں ۔ غلام عباس سیال نے سڈنی آسٹریلیا میں ایک mini Dera بنا رکھا ہے ۔ غلام عباس سیال کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور تمام کتابوں میں ڈیرہ کی تہذیب و ثقافت کو اجاگر کرتے رہتے ہیں ۔
وجاہت علی عمرانی صاحب نوشھرہ میں رہتے ہوئے ڈیرہ کی تاریخ و ثقافت پر ایسے مضامین لکھتے ہیں جو ریسرچ کا شاہکار ہوتے ہیں ۔حال ہی میں انہوں نے ڈیرہ کی گھاس منڈی پر ایک ریسرچ کالم لکھ کر ہم کو حیران کر دیا ۔ محمد صدیق صاحب رہتے تو ایبٹ آباد ہیں مگر ڈیرہ والوں کا گروپ ۔۔اساں دیرے وال ۔ چلا کر بہت خدمت کر رہے ہیں ۔
یاسر بگیڑا نے ڈیرہ کی تاریخ و ثقافت کے بعض نیے گوشے دریافت کیے ہیں اور ڈیرہ کے ساڑھے پانچ سو قلمکاروں کا انڈیکس بنا کر بہت عمدہ کام کر رکھا ۔رمیز حبیب بھی کافی کام کر رہے ہیں اور خواتین میں ثناخان بھی ڈیرہ کی تہزیب و ثقافت پر کافی لکھتی رہتی ہیں اور ریسرچ کر رہی ہیں ۔
اس کے علاوہ ڈیرہ کے ادیبوں اور شاعروں نے بھی ڈیرہ کی تہزیب و ثقافت کو بہت عمدہ طریقے سے زندہ رکھا ہوا ہے اور ملکی سطح پر بڑی پہچان رکھتے ہیں اور کئی ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔
روزنامہ اعتدال کے چیف ایڈیٹر جناب عرفان مغل صاحب نے اپنا دفتر ادیبوں فنکاروں کے اجلاسوں کے لیے وقف کر رکھا ہے۔اعتدال اخبار کے صفحات ادیبوں شاعروں کے لیے مختص کر رکھے ہیں اور اعتدال ویب چینل کا سٹوڈیو ڈیرہ کے دانشوروں ادیبوں صحافیوں کے لیے ہر وقت کھلا رہتا ہے۔
عرفان مغل صاحب کے والد صاحب احمد نواز مغل مرحوم نے غلام حسین دامانی مرحوم کی تاریخی کتاب۔ سر زمین گل ۔۔ کو دامانی صاحب سے زبانی سن کر اپنے الفاظ میں ترتیب دیا اور یہ ڈیرہ کی تاریخ بن گئی ۔۔اب جناب عرفان مغل صاحب کو بھی باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ ڈیرہ کی تاریخ و ثقافت پر حال ہی میں شائع ہونے والی نئی کتاب ۔دامان رنگ ۔۔۔ کا اہتمام بھی انہوں نے روزنامہ اعتدال کے ذریعے کیا اور یہ ڈیرہ کی تاریخ و ثقافت کی دستاویز بن گئی۔ تصاویر اسلام آباد میں ثوبت فنکشن کی ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر