نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خان صاحب! عوام اب ’’گھابرنا‘‘ شروع کردے؟۔۔۔سارہ شمشاد

ادھر وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا کہ عالمی وبا کورونا میں 2کروڑ افراد کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑے جبکہ لاکھ ڈائون میں 10فیصد گھرانے ایک دن سے زائد بھوک رہے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیپرا نے اکتوبر اور نومبر کے ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں ایک روپے 6پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد صارفین پر 18ارب روپے کا بوجھ پڑے گا جبکہ دوسری طرف یوٹیلٹی سٹورز پر خوردنی تیل 27روپے لٹر اور گھی 22روپے کلو مہنگاہوگیا۔ یاد رہے کہ اڑھائی ہفتے قبل بھی گھی اور خوردنی تیل کی قیمتیں بڑھائی گئی تھیں۔
ادھر وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا کہ عالمی وبا کورونا میں 2کروڑ افراد کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑے جبکہ لاکھ ڈائون میں 10فیصد گھرانے ایک دن سے زائد بھوک رہے۔ معاشی مشکلات کے باعث 30فیصد گھرانے خوراک کی فراہمی پر عدم تحفظ کا شکار رہے۔
ایک ہی دن میں شائع ہونے والی ان خبروں سے دماغ چکرا سا گیا ہے اور ایسا محسوس ہوتاہے کہ حکومت کو عوام کی تکالیف کاذرہ برابر بھی ادراک نہیں ہے اسی لئے تو اب کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اخبارات میں عوام کو مہنگائی کا تحفہ نہ دیا جارہا ہو۔ابھی چند روز قبل ہی وزیراعظم چینی کی قیمت کچھ کم ہونے پر اپنی معاشی ٹیم کو مبارکباد دے رہے تھے لیکن آج چینی ایک مرتبہ پھر سنچری کرنے کے قریب پہنچ گئی ہے مگر کوئی اس کا نوٹس لینے کو ہی تیار نہیں۔ ویسے بھی میرے وزیراعظم جس چیز کا بھی نوٹس لیتے ہیں اس کی قیمت یکدم آسمان تک پہنچ جاتی ہے۔
حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کی بدولت ایسا تاثر ملتا ہے کہ حکومت عوام کو مہنگائی سے بے حال اور ادھ موا کرکے مارنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے تاکہ انہیں مرتے وقت کچھ زیادہ تکلیف نہ ہو۔ میں ایک بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک وقت تھا جب عمران خان کا ہر ہر لفظ اور قدم عوام کی تکالیف کا احاطہ کرنا تھا لیکن میرے پیارے وزیراعظم اب صرف یہی کہنے پر اکتفا کئے ہوئے ہیں کہ جب ایک گھر کے حالات خراب ہوتے ہیں تو نتا ئج سب کو ہی بھگتنا پڑتے ہیں لیکن خان صاحب! کوئی ڈیڈلائن بھی تو آپ عوام کو دیں کہ فلاں تاریخ کے بعد میرے ملک کی غریب عوام کے لئے دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی اور بیروزگاری کا جن واپس بوتل میں بند ہوجائے گا۔
اڑھائی برس سے زائد عرصہ مکمل کرنے والی حکومت کے منہ سے اب یہ بات بھی زیب نہیں دیتی کہ یہ سب کچھ پرانی حکومتوں کا ہی کیا دھرا ہے۔ اب کوئی میرے وزیراعظم کو سمجھائے کہ عالی جاہ! آپ اپنی حکومت کا تو ہنی مون پیریڈ مکمل کرچکے ہیں اور حکومت کی بقیہ مدت فقط 2برس ہی رہ گئی ہے اس نعرے کے ساتھ عوام کی عدالت میں حاضری پر معاملہ ’’چوپڑیاں نالے دو دو‘‘ والا بھی ہوسکتا ہے اس لئے بحیثیت ذمہ دار شہری ہم تو اپنے حصے کی شمع جلائے جارہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آپ غریب عوام کے ساتھ ’’اے وارثان صبح طرب چیختے رہو‘‘ کا معاملہ بالکل نہیں کریں گے۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ 22کروڑ کی آبادی میں سے 20لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں لیکن اب میرے سیدھے اور معصوم وزیراعظم کو کون سمجھائے کہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لئے انہیں نئے ٹیکس پیئرز ڈھونڈنے چاہئیں نہ کہ پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ لادنے کی حکمت عملی پر عمل کیا جائے۔ ابھی چند روز قبل ہی وزیراعظم کے چہیتے اور سب سے فیورٹ سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی بھی نئے ٹیکس پیئرز ڈھونڈنے کی پالیسی اختیار کرنے کا صائب مشورہ دے چکے ہیں مگر ہماری حکومت تو برق گرتی ہے بیچارے غریبوں پر کی حکمت عملی پر عمل پیراہے۔
ایک غریب پرور وزیراعظم سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ ٹیکس نیٹ کی چکی میں پسی عوام کو کسی طور ریلیف فراہم کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں گے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہاہے کہ یہ حکومت بھی سابق حکومتوں کی طرح مرے کو مارے شاہ مدار کی پالیسی پر عمل پیراہے۔ بہتر ہوتا کہ وزیراعظم 70فیصد ٹیکس صرف 3ہزار افراد سے لینے کی بات کرنے کی بجائے ایمانداری سے ٹیکس دینے والوں کو تعلیم، صحت جیسی بنیادی سہولیات کی مفت فراہمی کو یقینی بنائے تاکہ لوگوں میں ٹیکس کی ادائیگی میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی ہوتی مگر آج بھی عوام کش پالیسیوں پر عمل کیاجارہا ہے۔
میرے پیارے وزیراعظم براہ کرم اس حقیقت کو آپ جان لیں کہ آپ کی عوام کے ساتھ سب اچھا نہیں ہورہا اور یہ سب آپ کی حکومت کے دوران عوام کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ بحیثیت سربراہ آپ پر لازم ہے کہ آپ اپنی غریب عوام کی تکالیف اور مشکلات کا ادراک کریں اور انہیں کسی طور ہی سہی فی الفور ریلیف فراہم کرنے کی سبیل کریں کیونکہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اب عوام کو مزید کرپشن، کرپشن اور نوازشریف اور زرداری چور کا نعرہ لگاکر بہلایا نہیں جاسکتا کیونکہ اگر وہ کرپشن کرتے تھے تو آپ کے دور حکومت میں بھی عوام کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ بدتر ہی ہوتی جارہی ہے۔
عوام کو اب اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں کہ کون بڑا چور ہے کس نے کرپشن کی، کس نے میرے وطن کو لوٹا اب انہیں صرف اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے میں ہی دلچسپی ہے اور وہ ہر قیمت پر اپنے حالات میں سدھار چاہتے ہیں کیونکہ کڑا احتساب کا جو نعرہ مستانہ آپ کی جانب سے لگایا گیا تھا اسمیں پیپلزپارٹی کو ریلیف اور شریف خاندان کو ضمانتوں پر رہا کرکے سڑانڈ کی سی بوبد آنا شروع ہوچکی ہے۔ اس ملک میں بڑے سے بڑا کرپٹ شخص آزاد جبکہ اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتا ہوا نہ دیکھنے والا بے بس والد اگر چوری مجبوری میں آکر کرلے تو وہ گناہ گار اور برسوں سلاخوں کے پیچھے رہتا ہے۔
وزیراعظم صاحب پاکستان کی بے بس اور مجبور عوام آج بھی آپ کی طرف دیکھ رہی ہے انہیں آپ کی نیت پر کوئی شک نہیں لیکن وہ آپ کے وزیروں اور مشیروں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ وقت آگیا ہے کہ آپ عوام کو زندہ درگور کرنے کی پالیسی کو خیرباد کہہ دیں ۔ یاد رکھیں کہ حکومت ہمیشہ زندہ لوگوں پر ہی کی جاتی ہے کیونکہ حکومت جس تیزی سے مہنگائی کے الیکٹرک شاکس عوام کو دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اس کے باعث قبر اور زندگی کی دوڑ میں کچھ زیادہ فاصلہ غریب عوام کو نظر نہیں آتا۔ ویسے خان صاحب بھی بڑی دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ سکون صرف قبر میں ہی ہے اس لئے عوام توقع کررہی ہے کہ خان صاحب عوام کو ابدی سکون پہنچانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں، فیصلہ خود کیجئے!!

یہ بھی پڑھیے:

About The Author