رفعت عباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پَرفرشتے کا تھا یا شیطان کا۔
’’یہ پر فرشتے کا ہے۔باپ نے بیٹوں کو بتایا۔‘‘(ص۔148)
’’اگر یہ واقعی فرشتے کا پَر ہوتا تو اس کےگھر میں برکت ہوتی۔یہ ضرور شیطان کا پَر ہے۔‘‘(ص۔150)
اس مخمصے میں چلنے والی یہ کہانی ہمارے تخیل، عقائد اور سماجی بندھنوں کی بہت سی گرہیں کھولتی ہے۔جلال اور اس کے بیٹوں کو سِر راہ ملنے والا یہ رنگین اور نفیس پَر ہماری معلق ذہنیت کی مکمل نشاندہی کرتا ہے۔اس کہانی میں پَر کی تمام تر جمالیات خیر و شر کے فلسفے میں گم ہو جاتی ہے۔یہی وہ تہذیبی المیہ ہے جس نے ہمیں اپنی جمالیاتی اور ارفع قدروں سے محروم کیا ہے۔ ہمارے پاس فرشتے اور شیطان کے تناظر میں تفکر کے بس دو ہی راستے بچے ہیں، خیر اور شر۔
یہ پَر نفع نہ پہنچانے کی صورت میں لکڑی کے بڑے صندوق سے گدھے کی دم تک پہنچ جاتا ہے۔یہاں خیر و شر کا تعین بھی سماجی اور معاشی نفع و نقصان سے جڑا ہے۔
یہ کہانی ہماری ذہنی اسیری پر بہت بڑا سوال اٹھاتی ہے۔یہ متن عین اس مقام کی نشاندہی کرتا ہے جہاں ہم تہذیبی سطح پر مقید ہیں۔
میرے لیے اس متن کی قرآت میں ایک حوصلہ افزا پہلو موجود ہے۔ اس دھرتی کے قدیمی باشندے/آدی واس/مقامی آدمی خیر و شر کی اس مذہبی سماجیات سے آزاد ہیں۔
!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر