نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پی ڈی ایم کا طبل جنگ۔۔۔حیدر جاوید سید

این آر او کے سوا ہر مسئلہ پر بات کرنے کی آمادگی ظاہر کرنے والے عوام کو یہ بتا سکتے ہیں کہ میاں نواز شریف ملک سے باہر کس قانون کے تحت گئے؟بات تلخ ہے اور وہ یہ کہ حکومت قانون کے خلاف ایک سزا یافتہ شخص کو ملک سے باہر جانے دیتی ہے اسے دیگر معاملات میں بہت سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیئے۔ہم آگے بڑھتے ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساڑھے پانچ گھنٹوں تک جاری رہنے والے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے فیصلوں نے گھریلو دانشوروں کے بارے تجزئیہ نگاروں کے ساتھ این آراو کاگلی ڈنڈا کھیلنے والوں کے لئے”دھمالوں”کا انتظام کردیا ہے۔تواتر کے ساتھ ان سطور میں یہ عرض کرتا رہا ہوں کہ حکومت میں بیٹھے دوست مسائل کے حل کی بجائے آگ بھڑکانے میں مصروف ہیں

ہونا یہ چاہیئے تھا کہ یہ دوست سیاسی اقدار اور نظام کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے بد قسمتی سے ایسا نہیں ہے بہر طورپی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں فیصلہ ہوا ہے کہ لانگ مارچ کی تاریخ کااعلان31جنوری کے بعد کیا جائے گا۔پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا”ہم لانگ مارچ بہر صورت کریں گے

فیصلہ یہ کرنا ہے کہ لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف کیا جائے یا راولپنڈی کی طرف،پی ڈی ایم نے سیاسی امور میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اور جوڑ توڑ کو اس کے دستوری کردار سے منافی قرار دیا۔مولانا کہتے ہیں ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں اسے لانے والوں سے ہے۔ہم فوج کے مخالف نہیں۔فوج ہماری ہے دفاع وطن میں اس کا کردار ہے۔یہاں حکومت نے مذاکرات کے سوال پر پچھلے اڑھائی برسوں میں جوکہا وہ سب کے سامنے ہے۔

این آر او کے سوا ہر مسئلہ پر بات کرنے کی آمادگی ظاہر کرنے والے عوام کو یہ بتا سکتے ہیں کہ میاں نواز شریف ملک سے باہر کس قانون کے تحت گئے؟بات تلخ ہے اور وہ یہ کہ حکومت قانون کے خلاف ایک سزا یافتہ شخص کو ملک سے باہر جانے دیتی ہے اسے دیگر معاملات میں بہت سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیئے۔ہم آگے بڑھتے ہیں۔

اپوزیشن کسی مخمصے کا شکار نہیں سیاسی جماعتوں کے مابین دوآراء ہوتی ہیں بسا اوقات دو سے زائد آراء بھی یہ صرف ایک سے زائد آراء پر حقائق کو مسخ کرنے والے تجزئیوں کو آزادی صحافت کانام دینا بھی غلط ہے۔ہمارے تجزئیہ نگاروں اور دانشوروں (گھریلو دانشور نہیں)کو حق ہے جس کی مرضی حمایت کریں جس بنیادی سوال کو وہ نظر انداز کر دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ تجزئیہ یکطرفہ نہیں ہوتا ہر دو آراء سامنے رکھ کر تجزئیہ کیا جاتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ تجزئیہ نگار جو پی ٹی آئی کے126دن کے دھرنے کو آخری امید اور جمہوریت کا حسن قرار دیتے نہیں تھکتے تھے اب پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک کوسازش قرار دیتے ہیں یہ نامناسب سوچ ہے۔

جمہوریت اختلاف رائے سے آگے بڑھتی ہے یکسانیت تو شخصی نظام میں ہوتی ہے۔پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک مسائل کا حل ہے یا اس سے مسائل بڑھیں گے؟۔ ہم اپنی خواہشوں کو دوسروں کی فہم کیوں قرار دیتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ کا اس ملک کی سیاست میںکوئی رول نہیں؟۔ہمیشہ رہا اور اب بھی ہے بہاولپوری محمد علی درانی تو اسٹیبلشمنٹ کا خالص مہرہ ہیں شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن سے ان کی ملاقات اورپھر ملاقات کے وقت ہر دو کو مد نظر رکھیں۔

یہ بھی ذہن میں رکھیئے کہ لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف کرنا ہے یا راولپنڈی کی طرف والی بات ممکن ہے مولانا نہ کرتے اگر محمد علی درانی ان سے ملاقات کے دو ماہ اسٹیبلشمنٹ کی صفائی پیش نہ کرتے۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ محمد علی درانی نے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات میں کہا ”اسٹیبلشمنٹ اس بات پر برہم ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسوںاور رہنمائوں کے بیانات میں بعض شخصیات کا نام لے کر ان پر تنقید کی جارہی ہے”جو اباً مولانا نے کہا تنقید تو ہوگی اگر اسٹیبشلمنٹ کا کوئی نمائندہ انتخابی نتائج پر جذبات بیان کرتے ہوئے کہے گا کہ اللہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے جسے چاہتا ہے ذلت انتخابی نتائج خدائی فیصلہ نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے طے کردہ نتائج تھے ۔یہ ملاقات تلخ ماحول میں ختم ہوئی۔

درانی کی گفتگو اور پیغام کے حوالے سے مولانا نے بلاول اور مریم نواز کو اعتماد میں لیا ایک اخبار نویس کے طور پر اپنے تجربے کی روشنی میں یہ عرض کرسکتا ہوں کہ اس سے بہتر تھا کہ پیر پگارا شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن سے خود ملتے تو مناسب ہوتا۔بات تو پیر پگارا سے ہوئی تھی سو انہیں ہی بات کرنی چاہیئے تھی لیکن وہ فوراً پیر بن گئے اور اہلکارروانہ کرایا اب بھگتیں پھر۔

یہ بھی عرض کردوں کہ حکومت کو بھی کمزوریوں اور غلطیوں کے ساتھ مسائل کے حل میںناکامی سے منہ نہیں موڑنا چاہیئے بد قسمتی ہی ہے کہ پچھلے اڑھائی برسوں میں عدم برداشت کی سیاست ہوئی نتیجہ اب سب کے سامنے ہے۔پہلے حکومت اپوزیشن سے مذاکرات کو فضول خیال کرتی تھیں پر وزیراعظم نے دوایسی بریفنگوں میں اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کردیا جو ملکی اہمیت کی حامل تھیں اب اپوزیشن حکومت سے بات نہیں کرنا چاہتی۔ہماری دانست میں کل حکومت کا رویہ غیر جمہوری تھا اب اپوزیشن نے دروازے بند کر لیئے ہیں یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ پھر مسائل کیسے حل ہوں گے؟۔حرف آخر یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے لچک پیدا کرنا ہوگی۔پی ڈی ایم اپنے لانگ مارچ کا رخ راولپنڈی کی طرف کرنے کا اعلان کرتی ہے تو نیا بحران جنم لے گا۔کیا سیاستدان بحرانوں سے بچنے کا متبادل فارمولہ بھی رکھتے ہیں یا پھر ہر دم دما دم مست قلندر ہی ایجنڈا ہے؟۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author