حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گیس کے بحران کاعالم یہ ہے کہ شہر شہر گھریلو صارفین چولہے بجھ جانے پر احتجاج کررہے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں چند دن قبل بڑھ چکیں۔ بجلی کے نرخ آئی ایم ایف کی ہدایت پر بڑھانے کی کاغذی کارروائی جاری ہے۔
اوپر سے کورونا کی دوسری لہر ہے مہنگائی جوں کی توں ہے۔ درمیان میں مبارک وسلامت کا شور اٹھا کہ چینی 110کی بجائے 80روپے کلو ملنا شروع ہوگئی۔ ڈبل مبارک تب بنے گی جب حکومت ان ’’ڈبل شاہوں‘‘ کے خلاف کارروائی کرے گی جنہوں نے 55روپے کلو والی چینی 110روپے تک بیچ کر اربوں روپے جیبوں میں ٹھونسے اور اب حاجی خیر دین بن کر عوام پر احسان کردیا۔
کیا ایسا احسان ادرک فروخت کرنے والے بھی کرسکتے ہیں جنہوں نے 350روپے کلو فروخت ہونے والی ادرک کے نرخ 1000روپے کلو تک پہنچادیئے ہیں۔
ویسے صورتحال کچھ بھی ہو روٹی ملے یا کوئی منہ سے نوالے چھین کر بھاگ اٹھے آپ نے گھابرنا شابرنا نہیں کیونکہ ہمارا وزیراعظم انتہائی ایماندار ہے۔
سپریم کورٹ جس شخص کو صادق اور امین قرارد ے ہماری مجال ہے کہ اس پر انگلی اٹھائیں۔
جنرل پرویزمشرف کا دورہ دورہ تھا۔ جنرل خالد مقبول نیب کے سربراہ ہوتے تھے انہوں نے پی آئی ڈی کی معرفت ملک بھر سے ڈیڑھ درجن صحافیوں کو اسلام آباد بلایا اورپھر کرپشن و بدعنوانی اوراقربا پروری کے خلاف سوا گھنٹے کا طویل بھاشن دیا۔
سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ہم نے عرض کیا حضور والا!
اگر بحریہ کے سابق سربراہ کی 9ارب روپے کی کرپشن 6کروڑ کی پلی بارگین میں طے ہوسکتی ہے تو عالی جناب 10کروڑ کی کرپشن کرنے دیں پوری ایمانداری سے 6کروڑ کی پلی بارگین کا ایڈوانس وعدہ کرتاہوں۔
جنرل صاحب نے حیرانی سے ہماری طرف دیکھا پھر ساتھ بیٹھے افسر سے کچھ کھسر پھسر کی اور بولے
’’مسٹر حیدر آپ کو فوج کے ادارے سے کیا دشمنی ہے ہر وقت اسے بدنام کرنے میں جُتے رہتے ہیں‘‘؟
عرض کیا، پہلی بات تو یہ ہے کہ فوج ایک محکمہ ہے، وزارت دفاع کے ماتحت، دوسری بات یہ ہے کہ یہ میرے بابا جان شہید کا محکمہ ہے اس سے مجھے کوئی ذاتی دشمنی نہیں بس چند طالع آزما جرنیل اور کرپشن میں گردن تک دھنسے ہوئے سابقین پر اعتراض کرتاہوں۔
کیا یہ غلط ہے کہ 9ارب کی کرپشن پر 86کروڑ کی پلی بارگین ہوئی؟ تھوڑی سی تلخ کلامی کے بعد انجمن ستائش باہمی کی یہ محفل اجڑ گئی۔
باہر نکل کر واپس پشاور کے لئے روانہ ہوئے۔ موٹروے موڑ کے قریب غریب قلم مزدور کو درجن بھر سادہ پوشوں نے ٹیکسی سے اتارااور پھر خوب گیدڑ کٹ لگائی مار کھاکر ہم گھابرے بالکل نہیں بلکہ اسی حال میں باقی سفر طے کیا۔
یہ قصہ آپ کو یوں سنایا کہ حالات جیسے بھی ہوں، مہنگائی ہو، بیروزگاری یا غربت اور سفید پوشی دونوں مل کر آپ کی درگت بنارہے ہوں یا کبھی کسی ویرانے میں سفید پارچہ جات میں ملبوس جوان آپ کی گیدڑ کُٹ لگائیں، آپ نے بس ثابت قدم رہنا ہے۔
کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اور ملک بھرمیں تجاوزات کے خاتمے کے آپریشن کے دوران لوگوں کی 50سے 80 سال کی رجسٹری شدہ اراضی پر تعمیرات کو بلڈوزر ملیامیٹ کردیں اور صادق و امین وزیراعظم کا غیرقانونی مکان سالوں بعد قانونی قرار دیا جائے، بس آپ نے گھابرنا نہیں کیونکہ اس ملک میں انصاف چہرہ اور طبقہ دیکھ کر ملتا ہے۔
ایک ایماندار شخص نے وزیراعظم بننے سے قبل ایسی جگہ پر غیرقانونی تعمیرات کیں جو راول ڈیم کے قرب و جوار کے قوانین کی خلاف ورزی تھی، کوئی بات نہیں اب تو تعمیرات قانونی قرارپاگئیں بس آپ کو گھابرنا نہیں۔
ہمارا وزیراعظم سمارٹ بھی اور ایماندار بھی اس سمارٹ اور ایماندار وزیراعظم پر حرف گیری کی بجائے آپ ان چوروں پر تبصرہ کریں جن کے دور میں چینی آخری وقت میں 55روپے کلو تھی۔ پانامہ میں پکڑے جاتے تھے اقامے میں سزاپاتے تھے۔
مہنگائی، غربت، بیروزگاری کو برداشت کریں، ملک کی دولت میں اضافہ کریں، اگر گھابر شابر کر آپ نے خودکشی کا پروگرام بنالیا تو یہ آپ کی بزدلی قرار پائے گا۔
اچھا ویسے خودکشی کربھی لیتے ہیں تو وزیراعظم کو کوئی فرق نہیں پڑے گا اس نے گھابرناہے نہ خودکشیوں کی روک تھام کے لئے انتظامات کرنے ہیں۔
یہ بھی سمجھ لیجئے کہ صابر شاکر، مبشر لقمان، چودھری غلام حسین، ایک لائلپوری بھگوڑے (وہ لندن میں مقیم ہے) ارشاد بھٹی، حسن نثار کے علاوہ باقی کے سارے صحافی بھارت اور اسرائیل کے ایجنٹ ہیں اور پاکستان اور اسلام کے یہ دشمن بالکل نہیں چاہتے کے ہمارے وزیراعظم پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بناکر دم لیں۔
ویسے اصل والی ریاست مدینہ میں سرکار دوعالمؐ نے مسجد نبویؐ تعمیر کرنے کے لئے زمین اپنی جیب سے خریدی تھی اس موقع پر دو یتیم بچوں نے اپنی زمین ہدیہ کرناچاہی تو سرکارؐ نے محبت کے ساتھ زمین کی قیمت انہیں ادا کی،ہم نے کتابوں میں یہی پڑھا ہے۔
البتہ اب جو صاحب نئی ریاست مدینہ بنانے جارہے ہیں انہوں نے غیرقانونی طور پر تعمیر کردہ مکان کو قانونی بنوالیاہے امیدہے کہ باقی کی تمام غیرقانونی تعمیرات (بٹوارے کے سوا) اب قانونی قرار دی جائیں گی کیونکہ قانون اندھا ہوتا ہے وہ بس انصاف کرتا ہے چمڑی دمڑی، عہدہ نہیں دیکھتا۔
اس لئے بہتر ہوگا آپ گھابریں شابریں بالکل نہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر