عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں صبح کے سات بجے تھے کہ میرے موبائل فون پہ میسج ٹون بجنے لگی، ایک کے بعد ایک مسیج آنے کی اطلاح ملتی رہی اور میں بے چین ہوکر اٹھ گیا اور وٹس ایپ کھول کر دیکھا تو دنیا بھر میں رہنے والے میرے دوست احباب نے مجھے دو خبریں بھیجی ہوئی تھیں، پہلی خبر رات کے کسی ایسے پہر میں بھیجی گئی تھی جب میں خواب غفلت میں پڑا تھا۔
یہ خبر ٹورنٹو پولیس کا ٹوئٹر پیغام تھا کہ بی ایس او آزاد کی سابق مرکزی چیئرپرسن کریمہ محراب بلوچ لاپتہ ہیں اور دوسری خبر ان کے شوہر حمال حیدر کا ٹوئٹ تھا کہ جس میں انھوں نے اپنی شریک حیات کریمہ بلوچ کی لاش لیکس شور سے دریافت ہونے کی تصدیق کی تھی ۔ یہ خبر ایک قیامت بن کر مجھ پر ویسے ہی ٹوٹی، جیسے کچھ ماہ پہلے ساجد بلوچ کی سویڈن کے دریا میں ڈوب جانے کی خبر ٹوٹی تھی ۔
سینتس سالہ کریمہ بلوچ بلوچ قومی تحریک کی ایسی رہنما تھیں جنھوں نے اپنی بلوچ قوم کو ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی مظلوم و محکوم اقوام میں حوصلے کی نئی روح پھونکی تھی اور ان کی جرآت و ہمت کی داد ان کے نظریات کے حامی و مخالف دونوں ہی دیا کرتے تھے-
کریمہ محراب بلوچ کو میں نے اپنا آخری پیغام گزرے رکھشا بندھن تہوار کے موقعہ پر بھیجا تھا جب انہوں نے اس موقعہ پر وزیراعظم ہندوستان نریندر مودی کو ایک ریکاررڈ شدہ ويڈیو کے زریعے پیغام تہینت بھیجتے ہوئے انھیں اپنا "بھائی” قرار دیا اور ان سے بلوچ قوم کی حالت زار عالمی برادری کو پہنچانے کی درخواست کی ۔ میں نے ان سے سخت اختلاف کیا اور ان کے عمل کو ترقی پسندانہ قوم پرستی کے منافی قرار دیا-
.اور ان سے کہا کہ ان کا عمل ایسے ہی ہے جیسے کسی مظلوم و مجبور قوم کی کوئی رہنما ہٹلر و میسولنی سے اپنی قوم کو جبر و ظلم سے نجات کی درخواست کرے جبکہ وہ خود اپنی ریاست کے دائرے کے اندر اور باہر درجنوں اقوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہوں۔
میں نے ان کو اپنے پیغام میں لکھا تھا کہ ان کا یہ عمل ایسے ہی ہے جیسے ایران کے بلوچ ، بہائی فرقے کے لوگ سعودی عرب کے ظالم و جابر بادشاہ محمد بن سلیمان کو پیغام اخوت بھیجیں اور ان سے کہیں کہ ان کا مقدمہ عالمی برادری کے سامنے پیش کریں- یہ ایسے ہی جیسے کوئی ترکی کے طیب اردوگان سے یا امریکی صدر ٹرمپ سے یا اسرائیل کے صدر سے اپنی مظلومیت اور محکومیت کا مقدمہ عالمی برادری کے سامنے پیش کرنے کی درخواست کرے ۔
میں نے ان سے کہا تھا کہ وہ ہندوستان کے جمہوریت پسند، ترقی پسند سیاسی حلقوں اور شخصیات سے بلوچستان کی حالت زار کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتی تو کوئی ان سے اختلاف نہ کرتا لیکن ایک ہندؤ بنیاد پرست فاشسٹ کو اپنا بھائی قرار دینا جو گجرات کے قصائی کے نام سے بدنام ہے یہ ترقی معکوس ہے اور بی ایس او کی ترقی پسند روایات کے منافی ہے۔
میں نے ان کو کہا تھا کہ ان کے ایسے جذباتی کچے پن سے اٹھائے گئے اقدامات سے پاکستان میں دیگر اقوام میں بلوچ قومی تحریک کے لیے ہمدردیوں کو اکٹھے کرنے کا کام اور مشکل ہوجائے گا۔ میں ان کے جواب کے موصول ہونے کا انتظار کرتا ہی رہ گیا اور ان کی پراسرار طریقے سے مرنے کی خبر موصول ہوگئی اور میرے لیے یہ انتہائی صدمے کا سبب بننے والی خبر ہے۔
کریمہ محراب بلوچ 1983ء کو تمپ بلوچستان کے ایک نامور سیاسی گھرانے میں پیدا ہوئیں جس نے واحد قمبر بلوچ اور مرحوم ڈاکٹر خالد بلوچ جیسے سیاسی کارکن پیدا کیے تھے۔
وہ علم نفسیات کی طالب علم تھیں اور 2014ء میں جب بی ایس او آزاد کے مرکزی صدر زاہد بلوچ جبری گمشدہ ہوئے تو 37ویں مرکزی صدر چنی گئی تھیں اور بی ایس او کی پہلی خاتون مرکزی صدر تھیں۔ میری ان سے پہلی ملاقات کوئٹہ میں جبری گمشدگان کے کیمپ میں ہوئی تھی اور اس ملاقات میں کوئٹہ میں ہمارے کامریڈ ساتھی حنیف بلوچ نے اہم کردار ادا کیا تھا جہاں میں ذاکر مجید بلوچ کی بہن فرزانہ مجید بلوچ سے ملا تھا اور یہیں پر میری ملاقات بی ایس او آزاد کے انفارمیشن سیکرٹری شبیر بلوچ سے ہوئی تھی جو بعد ازاں خود بھی جبری گمشدہ ہوگئے اور آج تک جبری گمشدہ ہیں۔
اس ملاقات میں کریمہ محراب بلوچ نے کہا تھا کہ جب وہ نوجوانی کی سرحدوں میں داخل ہوئی تھیں تو عملی سیاست تو بہت دور کی بات تھی، ان کے اندر فکری طور پر بھی سیاست کے جراثیم نہیں تھے حالانکہ ان کے گھرانے کے مرد سیاسی طور پر بہت فعال تھے-
وہ تو فلسفہ، آرٹ، موسیقی اور نفسیات میں دلچسپی رکھتی تھیں اور ایک ماہر نفسیات کے طور پر اپنا کرئیر بنانا چاہتی تھیں- مطلب وہ یہ کہنا چاہ رہی تھیں کہ ان کی خواہشیں پیٹی بورژوازی طبقے کے مجموعی طبقاتی مفاد کے مطابق ایک کریئرسٹ کی سی تھیں۔
لیکن جنرل مشرف کے دور میں ہر گزرنے والا دن ان کے اندر تبدیلی پیدا کرتا چلا گیا اور آئے دن کے سرچ آپریشن، اس دوران مردوں اور عورتوں سے بدسلوکی، جبری گمشدگیاں، مسخ شدہ لاشوں کا ملنا اور پوری طاقت سے شروع ہونے والا فوجی آپریشن اور نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت جیسے واقعات نے ان کی مکمل کایا کلپ کردی اور وہ کل وقتی سیاسی کارکن بن گئیں اور بی ایس او آزاد ان کا سیاسی انتخاب تھی جس کو ڈاکٹر اللہ نذر نے بنایا تھا جو بعد ازاں کالعدم بی ایل اے کے سربراہ بن گئے تھے اور مسلح گوریلا جنگ کی طرف چلے گئے۔
کریمہ بلوچ نے بی ایس او آزاد کے پلیٹ فارم سے اپنی جدوجہد شروع کی تھی اور بلوچ سماج میں نوجوان عورت کا ایسے جرآت مندانہ طریقے سے سامنے آنا انوکھی بات تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت ساری بلوچ نوجوان عورتیں بلوچ طالب علم سیاست کے منظرنامے پر ابھرکر سامنے آگئیں کیونکہ بلوچ قوم پرستانہ تحریک سے جڑے مردوں کی تھوک کے حساب سے جبری گمشدگیوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا
اور اکثر آزادی پسند بلوچ ہی زیر زمین نہیں گئے بلکہ فیڈریشن میں رہ کر بلوچ قومی تحریک کے علمبرداروں کی بڑی اکثریت بھی زیر زمین چلی گئی یا وہ بیرون ملک سیاسی پناہ گزین ہوگئیں۔ کریمہ محراب بلوچ 2014ء میں بی ایس او آزاد کی چئیرپرسن بنی تو تنظیم پر پابندی لگ چکی تھی اور ان کو گرفتاری کا خطرہ تھا اس کے باوجود ان کا خیال تھا کہ عورت ہونے کی وجہ سے شاید ان کو گرفتار نہ کیا جائے۔
انہوں نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں لیکن دو ماہ کے اندر ہی ان کو یہ احساس ہوا کہ اوپن کام کرنا بہت ہی مشکل ہوگیا اور 2014ء کے درمیان ہی انہوں نے پاکستانی سیکورٹی حکام پر الزام عائد کیا کہ ان پر حملہ ہوا ہے اور وہ اس حملے میں بال بال بچی ہیں ۔ ان کے مطابق ان پر حملہ تمپ میں ہوا تھا۔
اس کے بعد وہ زیر زمین چلی گئیں اور ہمیں ان کی طرف سے جاری کردہ بیانات اور پریس ریلیز ملتی رہیں۔ پھر پتا چلا کہ انہوں نے کینیڈین سفارت خانے کے زریعے کینڈا میں جلاوطنی اختیار کرلی اور یہ 2015ء کا سال تھا جب وہ ٹورنٹو میں نمودار ہوئيں۔
انہوں نے کینڈا میں سیاسی پناہ کی درخواست دی ہوئی تھی جس پر پروسس جاری تھا۔ انہوں نے ٹورنٹو میں ہی مقیم بلوچ نیشنل موومنٹ /بی این ایم کے جلا وطن رہنما حمال حیدر سے شادی کرلی تھی اور دونوں میاں بیوی دیگر جلاوطن بلوچ رہنماؤں کے ساتھ بلوچ قوم کے حقوق کی جدوجہد کرنے میں مصروف تھے۔
یورپ، کینڈا، امریکہ میں انھوں نے پانچ سال کے دوران بہت سارے دورے کیے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں انھوں نے بلوچ وفد کی قیادت کی بلوچ اور قوم کا مقدمہ پیش کیا۔
آج جب وہ محض 37 سال کی تھیں اور لوگوں کو یہ توقع تھی کہ ان کا سیاسی کرئیر طویل ہوگا اور کبھی تو پاکستانی حکام بلوچ قومی سوال کو سیاسی بنیادوں پر حل کرنے کی طرف ایمانداری سے راغب ہوں گے جب وفاق پاکستان واقعی جمہوری ہوگا اور یہاں پر حقیقی طاقتور بااختیار سویلین جمہوری حکومت ہوگی تب کریمہ محراب جیسی سیاست دان بلوچستان کی تقدیر بدل دیں گی کہ ان کی موت کی خبر آگئی ۔ یہ صرف بلوچ قوم کا نقصان نہیں ہے بلکہ پورے ایشیا کا نقصان ہے۔ یہ انسانیت کا نقصان ہے۔
میں پاکستان کے ان لوگوں میں سے ہوں جو سوچ کے اختلاف پر جبری گمشدگیاں اور قتل کیے جانے جیسے اقدامات کو کسی بھی صورت جواز دینے کا قائل نہیں ہیں۔ ہم پاکستانی حکام پہ زور دیتے آئے ہیں کہ اگر طالبان سے مذاکرات کرسکتے ہیں اور اے پی ایس اسکول پر حملہ کرنے والی تنظیم کے ترجمان کو سرکاری مہمان بناسکتے ہیں تو بلوچ گروہوں سے مذاکرات اور امن قائم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنے میں کیا بات روکاوٹ آتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی
مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی
اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی
جنرل ضیاء الحق کے اعصاب پہ سوار پی پی پی کی مخالفت نے مذھبی عفریت کو ابھارا ۔۔۔عامر حسینی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر