نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حالاتِ حاضرہ اور رفتگاں کی یادیں۔۔۔نصرت جاوید

یہ واقعہ 1999 کے اپریل یا مئی میں ہوا تھا۔ کارگل جنگ کی وجہ سے اٹھے سوالات کی بدولت نواز شریف اور جنرل مشرف کے مابین تنائو شدید سے شدید تر ہورہا تھا۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شکرگڑھ سے تھکا ماندہ اور بہت اداس لوٹا تو ایڈمرل فصیح بخاری کے انتقال کی خبر آگئی۔ چودھری انور عزیز اور اشفاق سلیم مرزا صاحب کے برعکس ان کے ساتھ دوستی کے بجائے محض شناسائی کا رشتہ تھا۔ میرے صحافتی کیرئیر کا ایک اہم ترین Exclusive مگر انہوں نے فراہم کیا تھا۔ جو خبر انہوں نے دی اسے لکھنے کو احمقانہ دلیری درکار تھی۔ معاملہ اس وجہ سے بھی مزید پیچیدہ ہوگیا کہ جس اخبار کے لئے ان دنوں کام کرتا تھا وہ نواز شریف کے لگائے بقول منیر بھائی ’’احتساب دے چیف کمشنر‘‘ کی زد میں تھا۔ بہت اذیتوں کے بعد معافی تلافی کی راہ نکلی تھی۔ میری دی ہوئی خبر مذکورہ اخبار کے خلاف عتاب کی بحالی کا باعث ہو سکتی تھی۔ ’’خبر‘‘ مگر سو فیصد درست اس لئے تھی کیونکہ اس کا مواد فصیح بخاری صاحب نے اپنے ہاتھوں سے لکھے ایک استعفیٰ کی صورت مہیا کیا تھا۔ وہ اپنے لکھے خط کو ہو بہو چھپوانے کے خواہش مند تھے۔ میرے ایک بھائیوں جیسے دوست ہیں۔ نام ان کا فی الوقت لکھنا مناسب نہیں سمجھتا۔ انہوں نے فصیح بخاری کے ساتھ پاکستان نیوی میں کئی برس گزارے تھے۔ جدید ترین آلات پر مشتمل آبدوز پر کمانڈ کی مہارت حاصل کی تھی۔

فصیح بخاری صاحب کی دی خبر مزید ’’ڈرامائی‘‘ اس لئے بھی ہوگئی کیونکہ یہ اس دن فراہم ہوئی جس روز میرے دوست کے جواں سال داماد کی رسم چہلم تھی۔ اسلام آباد کے F-6 سیکٹر میں واقعہ ایک مکان میں قرآن خوانی جاری تھی کہ مجھے میرے دوست کے گھریلو ملازم نے سرگوشی میں کہا کہ میں گھر کے اندر جاکر کھانے والے کمرے میں چلا جائوں۔ اس میز پر فصیح بخاری اکیلے بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھ کر اپنا تعارف کروایا اور بیٹھنے کو کہا۔ میں بیٹھ گیا تو انہوں نے اپنے سامنے رکھی ایک فائل میری طرف بڑھادی۔

اس فائل کو کھولا تو شائستہ انگریزی مگر سخت لہجے میں لکھا تین صفحات پر مشتمل ایک خط تھا جو ان دنوں کے وزیر اعظم نواز شریف صاحب کے نام لکھا گیا تھا۔ اس خط میں فصیح بخاری صاحب نے ٹھوس دلائل کی بنیاد پر وہ وجوہات بیان کررکھی تھیں جنہوں نے انہیں نیوی چیف کے عہدے سے استعفیٰ کو ’’مجبور‘‘ کردیا تھا۔ ذاتی وجوہات گنوانے کے علاوہ فصیح بخاری صاحب نے پاکستان کے وزیر اعظم کو اس امر کی بابت ’’متنبہ‘‘ کرنا بھی ضروری سمجھا تھا کہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے منصب کو بھی ان دنوں کے آرمی چیف کے سپرد کرتے ہوئے وہ افواج پاکستان کے تنظیمی ڈھانچے میں ایسی ’’تبدیلی‘‘ متعارف کروارہے ہیں جو طویل المدتی بنیادوں پر پاکستان کے دفاع کو ’’کمزور‘‘ بنانے کا سبب ہوسکتی ہیں۔

یہ واقعہ 1999 کے اپریل یا مئی میں ہوا تھا۔ کارگل جنگ کی وجہ سے اٹھے سوالات کی بدولت نواز شریف اور جنرل مشرف کے مابین تنائو شدید سے شدید تر ہورہا تھا۔ ’’انہونی‘‘ کو ٹالنے کے لئے شہبازشریف اور چودھری نثار علی خان نے نواز شریف کو بالآخر اس امر پرقائل کردیا کہ جنرل مشرف ہی کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے عہدے پر بھی فائز کردیا جائے۔ اصولی طورپر 1970 کی دہائی سے قائم روایات کے مطابق اگرچہ اس منصب پر نیوی چیف کے فائز ہونے کی ’’باری‘‘ تھی۔حیران کن بات یہ بھی ہوئی کہ جنرل مشرف کی ’’مزید ترقی‘‘ کی خبر سرکاری ذرائع ابلاغ کے ذریعے منظر عام پر لانے سے قبل آرمی چیف کے والد مرحوم -مشرف الدین صاحب- کو شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان نے ہسپتال کے اس کمرے میں حاضر ہوکر پہنچائی جہاں وہ زیر علاج تھے۔

فصیح بخاری کارگل پر ہوئی جنگ کی وجہ سے ویسے بھی جنرل مشرف کے غضب کی زد میں آچکے تھے۔ 1998 میں کارگل جنگ کی انتہا کے دنوں میں نواز شریف کے وزیر خارجہ کی حیثیت میں سرتاج عزیز صاحب بھارت تشریف لے گئے تھے۔ میں ان کے ہمراہ جانے والے صحافیوں میں شامل تھا۔ سرتاج صاحب کو مذکورہ دورے کے دوران بھارتی حکام نے مخاصمانہ سردمہری سے Treat کیا۔ ان کے دورے کے اختتام پر دلی کے پاکستانی ہائی کمیشن کی Basement میں واقعہ ایک وسیع ہال میں ایک پریس کانفرنس کا اہتمام ہوا۔ وہاں موجود بھارتی صحافیوں نے بازاری غنڈوں کے غول کی مانند پاکستان کے وزیر خارجہ سے سوال کرنے کے بجائے ان پر آوازے کسے۔ سرتاج صاحب نے کمال جرأت اور بردباری سے ہنستے مسکراتے ہوئے ان کا سامنا کیا۔ بھارتی صحافت کے ’’معیار‘‘ نے مگر میرا خون کھولادیا۔ NDTV کی ایک رپورٹر نے Live نشریات میں  مجھ سے رائے طلب کی تو میں نے برملا کہہ دیا کہ ’’آپ لوگ (یعنی بھارتی) اب صحافی نہیں رہے Football Hooligans بن چکے ہیں‘‘۔میرے افتتاحی کلمات کیساتھ ہی مگر “Technical Fault” کے باعث ’’رابطہ منقطع‘‘ ہوگیا۔

بہرحال سرتاج صاحب کے دورئہ بھارت سے واپسی کے فوری بعد لاہور کے گورنر ہائوس میں 11جون 1999 کے روز ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا۔ اس ’’محدود‘‘ اور ’’حساس‘‘ اجلاس میں سرتاج صاحب نے بھارت میں ان کے ساتھ ہوئے سلوک کی داستان بیان کی۔ جنرل مشرف کے جواب دینے سے قبل ہی مگر فصیح بخاری صاحب نے بولنے کی اجازت طلب کی۔ اپنی برملا گفتگو میں اصرار کیا کہ نیوی چیف کو کارگل سے قطعاََ بے خبر رکھا گیا تھا۔ انہوں نے جس انداز میں حقائق بیان کئے انہوں نے ان دنوں کے ایئرفورس چیف کو بھی کارگل پر ہوئے ’’ایڈونچر‘‘ کے بارے میں اپنے تحفظات بیان کرنے کو مجبور کردیا۔  مجھے اپنے استعفیٰ کی کاپی تھمانے کے بعد ایڈمرل بخاری صاحب نے اس اجلاس میں ہوئی گفتگو کو تمام تر تفصیلات سمیت بیان کردیا تھا۔

فصیح بخاری صاحب کے مستعفی ہونے کی خبر لکھتے ہوئے لیکن میں نے نامعلوم کے خوف سے یہ تفصیلات بیان کرنے سے گریز کیا۔ اپنی احتیاط کو اگرچہ میں ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ کا لبادہ پہنا کر مطمئن ہوسکتا ہوں۔ بہرحال میری بہت ہی احتیاط سے لکھی خبر ہو بہو چھپ گئی۔ اس کی وجہ سے جنرل مشرف ہی نہیں نواز شریف اور ان کے طاقت ور ترین مصاحبین بھی مجھ سے خفا ہوگئے۔ میں اگرچہ اس خدشے کے اظہار سے باز نہیں آیا کہ جنرل مشرف کی غیر معمولی نازبرداری بھی نواز حکومت کے کام نہیں آئے گی۔ یہ بات یاد دلاتے ہوئے مجھے ہرگز کوئی خوشی نہیں ہورہی کہ 12 اکتوبر1999 کی رات میں برحق ثابت ہوا۔

مذکورہ بالا سطر مکمل کی تھی تو ٹیلی فون کی گھنٹی بجلی۔ فون پر جو نام آرہا تھا اس کی وجہ سے یہ کال لینا لازمی تھا۔  اطلاع اس کال کے ذریعے یہ ملی ہے کہ چودھری احمد مختار صاحب بھی انتقال فرماگئے۔ ان کے ساتھ شناسائی کے بجائے دوستی تھی۔ ان کی موت کے بعد سر پکڑ لیا۔ قلم دوبارہ اٹھانے کو جی ہی نہیں چاہ رہا تھا۔ بے کلی سے پریشان ہوا بس یہ سوچتا رہا کہ صبح اُٹھتے ہی اب مجھے ہر روز تعزیتی کالم لکھنا ہوںگے۔ حالاتِ حاضرہ کی بابت لکھنے کے بجائے مزید کتنے دن ’’رفتگاں ‘‘ کی یادیں مرتب کرتے ہوئے دلوں کو دہلاتا رہوں گا۔

چودھری احمد مختار صاحب کے ساتھ گہری دوستی محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ اقتدار میں ان دنوں بہت گہری ہوگئی تھی جب وہ اسی حکومت کے وزیر تجارت تھے۔ بھارت کے ساتھ عالمی طاقتوں کے حکم پر تجارتی تعلقات استوار کرنے کا معاملہ اس دور میں ’’حساس ترین‘‘ ہوگیا تھا۔ ایک ذہین کاروباری آدمی ہونے کی وجہ سے چودھری احمد مختار نے اس معاملے کو بہت تخلیقی انداز میں سلجھانے کی کوشش کی تھی۔ ہمارے عسکری حلقوں کے سینئر ترین لوگوں کو ان کی حب الوطنی پرکوئی شک نہیں تھا۔ ہماری چند دفاعی مشکلات کا بلکہ ان کے کاروباری ادارے نے حل ڈھونڈنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ میں ان کی تفصیلات بیان نہیں کرسکتا۔

آپ کادل لبھانے کے لئے اگرچہ ایک سفر کی تفصیلات ہیں جب محترمہ بے نظیر بھٹو کے ’’خصوصی ایلچی‘‘ کی حیثیت میں وہ چند ممالک کے سربراہان کو OIC کے قیام کی سلور جوبلی کے حوالے سے ایک ’’جشن‘‘ میں شرکت کی دعوت دینے گئے جو ذوالفقار علی بھٹو کی دختر 1997 میں بہت تزک و احتشام سے منانا چاہ رہی تھیں۔ مجھے اور عامرمتین کو انہوں نے ذاتی حیثیت میں سفری اخراجات ادا کرتے ہوئے اپنے ہمراہ جانے کو مجبور کیا۔ اومان اور یمن میں ان کے ساتھ گیا ۔یمن کے صدر سے ملاقات کے لئے چودھری صاحب مجھے اور عامر متین کو بھی ’’وفد کا رکن‘‘ بناکر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ یمن کے صدر نے طالبان کے ساتھ پاکستان سے تعلق کے حوالے سے اس ’’محدود‘‘ ملاقات میں انتہائی فکر مندی کے ساتھ جو باتیں کی تھیں وہ نائن الیون کے بعد حیران کن انداز میں درست ثابت ہوئیں۔

ایک انتہائی ’’سنجیدہ مشن ‘‘پر ان کی ہمراہی کے دوران میں اپنے اندر موجود مسخرے کو بھرپور انداز میں بروئے کار لاتا رہا۔ اس کی بدولت یمن کی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں جو معلومات حاصل ہوئیں آج بھی اس ملک کی خانہ جنگی کو سمجھنے کے کام آرہی ہیں۔ چودھری صاحب نے ایسے کئی معاملات پر میری ’’تعلیم‘‘ کے لئے ہمیشہ فراخ دلی دکھائی۔  عمر کے آخری حصے میں ایسے تمام سہاروں سے یکے بعد دیگرے محروم ہورہا ہوں۔

About The Author