گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارش تھم چکی تھی، میں "سِنا” ضرور ہوا تھا لیکن بھیگا نہیں۔ ریلوے سٹیشن کے حدود میں کچھ پانی جمع ہو گیا تھا۔ ویسے قدرت نے پانی کی فطرت میں بہنا لکھا ہے اگر اِسے بہنے کا موقع یا راستہ نہ ملے تو پھر یہ تالاب اور جوہڑ کی شکل میں رک جاتا ہے اور یہیں اِس میں سڑاند پیدا ہو جاتی ہے، جو زندگی کو فنا کا درس دیتی ہے۔ دیہاتوں،قصبوں اور کچی بستیوں میں عام حالات میں بھی جگہ جگہ نکاسی اور بارش کا پانی کسی جوہڑ یا تالاب کی شکل میں عام نظر آ جاتا ہے۔
لیکن آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں بھی شہر ی آبادی میں بارش سے قبل گلی کوچوں میں پڑی مٹی، دھول بن کر اڑتی ہے اور بارش کے بعد مٹی اور پانی کا آمیزہ جیسے بعض لوگ کیچڑ اور بعض لوگ” چکڑ "کہتے ہیں مہینوں آنے جانے اور گزرنے والوں کا "سواگت” کرتا رہتا ہے۔ بڑے بوڑھے اور خاص طور پر نمازی حضرات اس چکڑ سے اپنے پاؤں اورکپڑوں کو بچانے کی ناکام کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ چکڑ سے تو بچا جا سکتا ہے لیکن "تلکنڑ” سے بچنا محال ہوتا ہے۔ تلکنڑ سے بغیر تِلکے گزرنا فن و کمال مہارت کا کام ہے۔
بارش کو بہت سے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے، بارش، برکھا، میگھا، مینہ، وغیرہ۔ ہاں یاد آیا بھارت کی ایک ریاست میگھالیہ کا نام بھی وہاں بہت زیادہ بارشیں ہونے کی وجہ سے پڑا۔ بنگلہ دیش کے ایک دریا میگھنا بھی مینہ یا میگھا سے بنا ہے۔ جو بھی ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ ماضی سے لے کر آج تک سرائیکی وسیب کے ہر شہر، گاؤں اورقصبے میں اگر ایک گھنٹہ بھی بارش ہو جا ئے تو پھر مہینوں تک اس کے آثار رہتے ہیں، یہ قسمت کہیں، نصیب کہیں یا پھر حکومت کی نا اہلی یا سرائیکی وسیب والوں سے دشمنی؟ ۔
تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد میں نے اپنے وسیب کی روایت و ثقافت کے عین مطابق شلوار کے پائینچے ” ٹُنگ” لیے اور پانی و کیچڑ اور خاص کر تلکنڑ سے بچ بچا کر کے ریلوے سٹیشن سے باہر واپس اسی ہوٹل پر آیا جہاں پہلے چائے کی چسکیاں لے کر موسم اور منظر کو آنکھوں میں بسایا تھا۔
ہوٹل والے سے پنج گرائیں کی بس کا معلوم کیا تو اس نے بتایا تھوڑی دیر انتظار کرو ابھی کوئی نہ کوئی بس، ویگن، ڈاٹسن یا لاری آ جائے گی۔ ہوٹل والے کو چائے کی پیالی کا حکم نامہ جاری کرنے کے بعد میں "کھٹڑے "(چارپائی( پر ٹانگیں سیدھی کر کے بیٹھ گیا اور دریا خان کی سڑکوں اور اردگرد بنی حویلیوں، ادھ کچے و پختہ گھروں اور ماحول کو دیکھنے کے بعد مجھے ڈیرہ اسماعیل خان اور دریا خان کے تعمیراتی و رہائشی طرز نمونہ میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔
بتاتا چلوں کہ! ماضی میں حکومت برطانیہ کے دور میں ڈیرہ اسماعیل خان گیٹ وے آف انڈیا تھا اور دریائے سندھ پہ بنی کونٹوں والی کچی پل کے ذریعے تجارتی سامان و مال صرف اور صرف دریا خان کے ہی راستے سے ہندوستان کے کونے کونے تک جایا کرتا تھا۔
اسی وجہ سے تاجِ برطانیہ نے دریا خان میں 1887 میں ریلوے سٹیشن قائم کیا تاکہ فوجیوں کی نقل و حرکت کے ساتھ ساتھ تجارتی سامان کو پورے ہندوستان کے کونے کونے تک بھیجا جا سکے۔ روس اور افغانستان کی واحد تجارتی منڈی ڈیرہ اسماعیل خان ہی تھی جہاں ” پوندے” لاکھوں روپے کا مال لے کر تجارت گنج میں ڈیرہ ڈالتے اور پورے ہندوستان کے تاجر ان سے خریداری کرنے آتے۔
تاجروں کی سہولت اور مال و سامان کی ترسیل کے لیئے حکومت برطانیہ نے ریلوے کی” آوٹ ایجنسی” کی برانچ بھی ڈیرہ میں قائم کردی تھی۔ یہی آوٹ ایجنسی تجارتی مال کی بکنگ کرتی پھر اپنے طور پر دریا خان کے ریلوے سٹیشن پہنچاتی۔ اسی طرح ہندوستان کے دوسر ے شہروں سے آنے والا تجارتی سامان ریل کے ذریعے دریا خا ن آتا اور اوٹ ایجنسی کا عملہ اسے ڈیرہ اسماعیل خان لے کر آتا جہاں سے افغانستان اور روس کی سرحدوں تک مال بھیجا جاتا تھا۔ لیکن بدقسمتی کہیں یا دریا خان کا نصیب!
1985 میں ڈیرہ اسماعیل خان کی پختہ پل جو دریاخان کے غربی کنارے پر تعمیر ہونا تھی،لیکن اس پل کی تعمیر دریاخان سے 10 کلومیٹر دور کوٹلہ جام کے سامنے تعمیر کر کے دریاخان کو معاشی اور اقتصادی طور پر کمزور بنا دیا گیا اور دریا خان کو سینکڑوں سالوں سے تجارتی لحاظ سے جو فوقیت و اہمیت حاصل تھی وہ ختم ہو کر رہ گئی۔ لمحہ فکریہ ہے کہ 1860 تک دریا خان ڈویژنل ہیڈ کوارٹر لیہ کی تحصیل تھی اور بھکر اس تحصیل کا حصہ تھا۔ لیکن عصر حاضر میں اب بھکر ضلع ہے اور دریا خان اس کی تحصیل ہے، اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو گا۔
یہ بھی پڑھیے:ملاح اور چراغی(قسط 1)۔۔۔گلزار احمد،وجاہت علی عمرانی
(جاری ہے)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر