ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلگت بلتستان کے الیکشن ہوچکے اور سب کچھ توقع کے مطابق ہوا ۔انتخابات میں توقع کے مطابق تحریک انصاف نے اکثریت حاصل کی اور توقع کے مطابق ہی دیگر سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔بلتستانی مقامی لیڈر شپ کے مطابق ان انتخابات میں بھی 2018 والا فارمولا اپنایا گیا۔امیدواروں کی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں ،فارم 45 نہیں دیا گیا۔جو بھی ہوا برا ہوا اس سے بہتر ہوسکتا تھا ۔حکومت نے گلگت بلتستان کے فری اینڈ فئیر الیکشن کرا کے 2018 کے انتخابات کو بھی کلیئر کرا سکتی تھی مگر انہوں نے شاید حالیہ اور سابقہ انتخابات کو متنازعہ بنانا ہی مناسب سمجھااس ضمن میں سینئر صحافی سلیم صافی کا یہ ٹوئیٹ قابل غور ہے کہ گلگت بلتستان کے انتخابات تو حکومت جیت گئی تاہم گلگت کی سیاست بلاول بھٹو زرداری جیت چکا ہے۔اور ایسا ہی ہے بلاول بھٹو کی انتخابی مہم نے وہاں کی سیاست پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں اس کا فائدہ بہرحال پاکستان پیپلزپارٹٰی کو مستقبل کی سیاست میں ضرور ہوگا۔حرف آخر یہ کہ پی ڈی ایم نے ان انتخابی نتائج کو مسترد کردیا ہے
جی بی کے انتخابات کی گہما گہمی کے بعد پہلی بار پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس ہوا اور اس اتحاد میں شامل جماعتوں نے اتفاق رائے سے 12 نکاتی میثاق پاکستان پیش کردیا۔اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں 12 نکات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سربراہی اجلاس میں ملک کی سیاسی ومعاشی ابتر صورتحال اور گلگت بلتستان کے انتخابات کابھی جائزہ لیا گیااور چارٹر آف پاکستان پر مشاورت بھی کی گئی۔
ان 12 نکات جن میں پہلا نکتہ وفاقی ، اسلامی ، جمہوری، پارلیمانی آئین پاکستان کی بالادستی اور عمل داری یقینی بناناہے۔دوسرا نکتہ پارلیمنٹ کو خود مختار بنانا تیسرا نکتہ ملک کی سیاست سے اسٹیبلشمنٹ اور انٹیلی جنس اداروں کے کردار کا خاتمہ ،چوتھا نکتہ ملک میں آزاد عدلیہ کا قیام،پانچوان نکتہ انتخابی اصلاحات اور ملک میں آزادانہ،منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد، چھٹا نکتہ عوام کے بنیادی انسانی اورجمہوری حقوق کا تحفظ،ساتواں نکتہ اٹھارویں ترمیم کا تحفظ اور صوبوں کے حقوق کا تحفظ شامل ہیں۔میثاق پاکستان کا آٹھواں نکتہ مقامی حکومتوں کا موثر نظام،نواں نکتہ آزادی اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کا تحفظ ،دسواں نکتہ ملک میں نیشنل ایکشن پان پر عملدرامد کرتے ہوئے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ،گیارہواں نکتہ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے ہنگامی معاشی پلان جبکہ میثاق پاکستان کا بارہواں اور آخری نکتہ 1973کے آئین کی اسلامی شقوں کا تحفظ اور ان پر عملدرامد ہے۔
کوئی شک نہیں کہ یہ 12 نکات کم وبیش تمام مسائل کا احاطہ کرتے ہیں۔خاص طورپرپہلا نکتہ جس میں کہا گیا کہ وفاقی اسلامی ،جمہوری ،پارلیمانی آئین پاکستان کی بالا دستی اور عمل داری کو یقینی بنانا ہے۔بالکل اس نکتے کی طرح ہے کہ جس کے متعلق کہا گیا کہ اک نقطے وچ گل مکدی ہے۔تاہم اگر دیگر ایشوز کی وضاحت کی خاطر ان نکات کو شامل کیا گیا ہے تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان نکات میں کشمیر کے ایشو کو بھی شامل کرلیا جاتا اس سے کم سے کم کشمیریوں کی اشک شوئی ہوجاتی ۔بلوچستان کی پسماندگی کے خاتمے اور بلوچوں کو قومی دھارے میں واپس لانے کا عزم کیا جاتا اور گلگت بلتستان اور جنوبی پنجاب صوبوں کے قیام کا نکتہ اگر شامل کرلیا جاتا تو کوئی مضائقہ نہیں تھا۔نیب کی کاروائیوں کو انتقامی کہنے والی پی ڈی ایم کو یکطرفہ احتساب کے حوالےسے بھی شق شامل کرتے ہوے بلا تفریق احتساب کی حمایت کا نکتہ شامل کرلیا جاتا تو یہی تاثر جاتا کہ اپوزیشن احتساب کے خلاف نہیں بلکہ یکطرفہ احتساب کے خلاف ہے اور اپوزیشن کی طرف سے یہ مثبت پیغام ہوتا۔
میثاق پاکستان یا چارٹر آف پاکستان کے نکات سے پی ڈی ایم کو ایک مشترکہ لائحہ عمل مل گیا اور اب ان نکات پر عملدرامد کو یقینی بنانے کے لیے اپوزیشن کی سیاسی جدوجہد شروع ہوگی۔لیکن کچھ سوال اب بھی وضاحت طلب ہیں جن کی وضاحت ہونا بہت ضروری ہے ایک تو یہ کہ موجودہ حکومت کا مستقبل کیا ہوگا۔کیا حکومت کو مدت پوری کرنے دی جائے گی یا اس دوران مڈٹرم انتخابات ہوں گے ۔موجودہ اسمبلیاں تحلیل ہوں گی یا پھر ان اسمبلیوں کے اندر تبدیلی لائی جائے گی اور اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی۔سب سے اہم بات کہ ن لیگ کے قائد میاں نوازشریف کا بیانیے کا کیا ہوگا۔میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ بہت جلد میاں نوازشریف کا بیانیہ پی ڈی ایم کے مشترکہ بیانیے سے الگ ہوگا اور ان نکات نے وہ بات ثابت کردی ہے اور شائد اسی لیئے ن لیگ نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہٹ کر بھی اپنے جلسے شروع کردییے ہیں جس میں سوات کے بعد مریم نوازشریف مانسہرہ کا جلسہ کررہی ہیں۔
پی ڈی ایم کے دئیے گئے 12 نکات کی مثبت بات یہ ہے کہ بظاہر پی ڈی ایم نے اداروں سے تصادم سے گریز کرتے ہوئے اپنے آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے آئینی دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔اور ان نکات میں کوئی نکتہ ایسا نہیں ہے جو غیر آئینی ہو ۔یہ ایک مثبت علامت ہے امید یہ ہے کہ ان نکات پر طاقتور حلقوں کو بھی بظاہر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔رہی بات اٹھارویں ترمیم کی تو یہ مسلئہ حل طلب رہے گا اور اس پر سمجھوتے کے لیے شائد فریقین راضی نا ہوں۔جبکہ باقی ماندہ 11 نکات کی نرمی سے لگتا ہے کہ کہیں برف پگھلی ہے کہیں کوئی نا کوئی بند کھڑکی کھلی ہے جس سے آنے والی تازہ ہوا نے سیاسی حبس کو کسی حد تک کم کیا ہے۔حرف آخر یہ کہ مقتدر حلقوں کو مبارک ہو کہ پی ڈی ایم میاں نواز شریف کے بیانیے سے ہٹ گئی ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ ن لیگ اور میاں نوازشریف کا مستقبل کا سیاسی لائحہ عمل کیا ہوگا۔کیا میاں نوازشریف اپنے بیانیے کو لے کر چل سکیں گے اور کیا ن لیگ میں اتنی سکت ہے کہ وہ تن تنہا اپنے قائد کے بیانیے کا بوجھ اٹھا کر چل سکے۔یا پھر میاں نوازشریف کی حالیہ بیماری ان کی سیاسی جدوجہد کی راہ میں حائل ہوجائے گی۔اگر کہیں رابطے ہوے ہیں تو میاں صاحب بیمار رہیں گے اور مریم نواز کے لہجے کی تلخی بتدریج نا صرف کم ہوگی بلکہ ان کی انگلی کا اشارہ صرف اورصرف حکومت کی طرف ہی ہوگا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر