مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مزاحمت کار صوفی۔۔۔ عثمان کریم بھٹہ

صوفی تاج سوجھل دھرتی واس کے تاحیات سرپرست اعلیٰ رہے. اس دوران عاشق خان بزدار کے تاریخی سالانہ میلہ کے موقع پر 2017 میں ان کی دستار بندی کی گئی
عثمان کریم بھٹہ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صوفی تاج گوپانگ کوٹلہ اندرون فاضل پور میں روائتی مذہبی زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد ایک متوسط زمیندار تھے۔ گریجوایشن کے بعد ملتان سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور راجن پور میں باقاعدہ وکالت شروع کرتے ہی چند دنوں میں اپنا نام بنا لیا. زمین داری خون میں شامل تھی اس لئے زمینیں خریدنے پر اور ان کو کارآمد بنانے پر زیادہ توجہ رہتی۔ پڑھنے لکھے کے شوق نے ان کو برصغیر کیا یورپ تک کے بڑے اذہان سے کتابوں کے ذریعے وابستہ رکھا. رسل سے لے کر کیرو تک کسی بھی موضوع کی اہم کتاب ہو ان کی یادداشت میں ثبت تھی. یہی شعور اور قابلیت تھی جس نے انھیں بتایا کہ ان کا کینوس راجن پور کی چھوٹی سی عدالت تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے آگے صدیوں کے کچھ ایسے سچ بکھرے پڑے ہیں جن کو یکجا کرنے اور نئی نسل تک پہنچانے کے لئے یہ صدی کسی حقیقی دانشور کے لئے بہت بے چین ہے.
مذہبی گھرانے کی وجہ سے ابتدائی ایام میں جماعت اسلامی کے حصہ میں آئے. وہاں بھی اہم ترین ذمہ داریاں ملیں لیکن آشفتہ سروں کے راستے اور منزلیں تو کچھ اور ہوا کرتی ہیں. جلد ہی مہرے والے کے ایک ایسے نوجوان سے ملاقات ہو گئی جو جلد ہی ایک نیا جہان تخلیق کرنے والا تھا. سرائیکی دھرتی کا سزا یافتہ جنگل میسر تھا بس پھر خوب گزری جب مل بیٹھے یہ دیوانے دو. عاشق بزدار اور صوفی تاج کی جوڑی جس میں آہستہ آہستہ منظور خان دریشک، جام تاج برڑہ، عبدالسمیع مجاز، استاد نذیر مگی اور کئی اور باوقار نام جن کا آگے ذکر آئے گا جڑتے چلے گئے اور یوں پسماندہ ترین راجن پور ترقی پسندوں کا ایک معتبر سیاسی اور ادبی ضلع بننے لگا.
اب وکالت سے وابستگی صرف بار کی رکنیت تک محدود رہ گئی۔ بھٹو آیا تو پورے ملک کے آشفتہ سروں کو چھاؤں نظر آنے لگی، صوفی تاج پیپلز پاٹی کے بنیادی اراکین میں سے تھے۔ کامریڈ واحد بخش رند انکے استاد تھے۔ جنھوں نے سوشلسٹ نظریہ سمجھایا۔ سیمابی طبیعت نے متحرک سوشلسٹ انقلابی بنا دیا۔ سرائیکی ماہر لسانیات اور سوشلسٹ رہنما اسلم رسولپوری جیسے نظریاتی ساتھی مل گئے سندھی عوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجو کے ساتھ ملکر سندھ میں ہاری تحریک کیلئے کام کیا اور سندھو دیش کی تحریک سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
اس دوران سرائیکی قوم کی تاریخ کا اہم ترین واقعہ رونما ہوا جب بنگلہ کریم نواز کورائی راجن پور میں 1983ء میں سرائیکی لوک سانجھ کی بنیاد رکھی گئی اس کی روحِ رواں استاد فداحسین گاڈی تھے۔ اعلان بنگلہ کورائی سرائیکی قوم کا پہلا حقیقی عمرانی معاہدہ تھا جس کے بعد باقاعدہ سرائیکی قومی تحریک اور سرائیکی صوبے کا مطالبہ پیش کیا گیا۔ وسیب کا کون سا ترقی پسند تھا چشمِ فلک نےجس کو بنگلہ کورائی میں اس دن نئی نسل کا مقدمہ لڑتے ہوئے نہ دیکھا۔ بنیادی اراکین میں صوفی تاج گوپانگ، عاشق خان بزدار، اسلم رسول پوری، نذیر فیض مگی، منظورخان دریشک ایڈووکیٹ،مظہرعارف، احسن واہگہ، کامریڈ ملک منظور بوہڑ سمیت کئی نظریاتی متحرک کارکن و رہنما شامل تھے۔ بدترین مارشل لاء کا سیاہ دور تھا بھیڑیا جنرل ضیاء حکمران تھا پر استقامت پسندوں کے حوصلے تھے کہ ہار ماننے کو تیار ہی نہ تھے. جبر اور بربریت کے کئی سال جرات سے گزارنے کے بعد ضیاء کی موت نے جمہوریت کی بحالی کی خوشخبری دی۔ تاج خان سرائیکی لوک سانجھ کے صدر بھی رہے تاہم کہتے ہیں ناں کہ محاذ پر لڑنے والوں کو حکمرانی کاچسکا نہیں پڑ سکتا، وہ رک نہیں سکتے تھے، لڑتے رہنا چاہتے تھے پیپلزپارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد لوک سانجھ سے دوری ہوئی صوفی تاج نے مایوسی کی فضا میں سرائیکی تھنکرز فورم کی بنیاد رکھی جس کے وہ آخری دم تک چئیرمین رہے۔
پاکستان سرائیکی پارٹی اور بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ سے انکی سیاسی دوستی رہی اور وہ تاج محمد خان لنگاہ کی سرائیکی قومی تحریک میں پی ایس پی کے مرکزی چیف آرگنائزر کے طور پر بہت موثر رہنما ثابت ہوئے۔ پاکستان سرائیکی پارٹی میں حاجی پور کے انتھک سرائیکی رہنما تاج محمد برڑہ جو سرائیکی پارٹی کے پہلے ڈپٹی سیکریٹری جنرل تھے ۔ یہ تینوں تاج یعنی تاج محمد خان لنگاہ، تاج محمد برڑہ اور تاج خان گوپانگ سرائیکی تحریک کے اگوان متحد ہوکر جدوجہد کر رہے تھے۔ اگست 1997 ء دہلی انڈیا میں دوسری سرائیکی کانفرنس منعقد ہوئی جس کے آرگنائزر عبدالستار تھہیم تھے (اس مضمون کے چند واقعات اور تواریخ کے حصول کے لئے ان کی مدد بھی لی گئی ہے)۔ کانفرنس کے اراکین میں روہی کے منفرد سرائیکی سنگر فقیرا بھگت، استاد حسین بخش خان ڈھاڈھی کا بیٹا اور معروف سرائیکی گلوکار شہزادہ سخاوت علی خان، تاج خان گوپانگ اور عاشق خان بزدار بھی شامل تھے. فقیرا بھگت اور سخاوت علی خان نے انڈیا میں سرائیکی کلام اور خواجہ فرید کی کافیاں گا کر دھوم مچادی تو تاج خان نے اپنی گفتگو سے عالمی دانشوروں کو مسحور کر دیا۔
تحریکی جدوجہد کے باوجود علمی ادب خدمات کا سلسلہ جاری رہا. خوبصورت نثر لکھتے اور جاندار شاعری کرتے تھے
. تاہم ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے پورے جہان کی اردو، انگریزی، ہندی، فارسی اور عربی شاعری کا انتخاب کرکے اس کا منظوم سرائیکی ترجمہ کیا یوں ” صدیاں سچ الایا ” کے نام سے ایک نادر کتاب شائع ہوئی جو کہ صدیوں پر محیط انسانی شاعری کے سفر کا نچوڑ کہلائی جا سکتی ہے. اس کے علاوہ انھوں نے طارق گجر کے پنجابی کلام کا سرائیکی میں ترجمہ بھی کیا جس کے بارے میں وہ کہا کرتے تھے کہ یہ پنجابی اور سرائیکی دو قوموں کے درمیان باہمی احترام کا ایک اقرار نامہ ہے.
صوفی تاج تحریکی تھے ساری زندگی لڑتے ہوئے گزاری. تقریر کرتے ہوئے سٹیج کو زندہ کر دینا ان کا منفرد انداز تھا. چھوٹے چھوٹے چٹکلے جن کو سن کے ہنستے ہوئے اچانک سمجھ میں آتا کہ یار یہ لطیفہ تو نہیں تھا یہ تو نصیحت تھی. کہتے ہیں کہ جب تاج خان بول سکتے تھے تو ان دنوں میں سٹیج کسی بھی شہر میں ہوتا سجتا صرف تاج خان کی وجہ سے تھا اور پھر ستم ظریفی یہ ہوئی کہ پارکنسن نامی بیماری نے ان سے گویائی ہی چھین لی. بڑی مشکل سے اور اشاروں کی مدد سے بات سمجھا پاتے تھے. کہتے تھے کہ میرے پاس یہی کام کا اوزار تھا (زبان) یہ بھی نہ رہا اب تم لوگ میری زبان بنو. انجینئر شاہنواز مشوری جیسے ہی فاضل پور شفٹ ہوئے ان سے تاج خان کی ضد شروع ہو گئی کہ فوری طور پر ادبی ثقافتی تنظیم بناؤ میری اور میرے وسیب کی دانش کی آواز بنو. اکثر استاد نذیر فیض کو لے آتے کہ سفارش کرو اس آدمی میں کرنٹ ہیں یہ کچھ کر سکتا ہے. بس پھر کیا تھا مجھے (راقم الحروف) کو بلایا گیا ملاقاتیں ہوئیں مشاورت ہوئی اور آخرکار 2016 میں "سوجھل دھرتی واس” کے نام سے ایک ادبی ثقافتی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی جس کی پہلی میٹنگ کا اعلامیہ جاری کرتے ہوئے تاج خان نے مجھے اعلامیہ کے اوپر عمیر نجمی کا یہ شعر لکھنے کا کہا
"نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرندہ
اب اس پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنا ہے”
صوفی تاج سوجھل دھرتی واس کے تاحیات سرپرست اعلیٰ رہے. اس دوران عاشق خان بزدار کے تاریخی سالانہ میلہ کے موقع پر 2017 میں ان کی دستار بندی کی گئی اور 2018 میں خانوادہء خواجہ غلام فرید کی طرف سے سجادہ نشین دربار فرید نے صوفی تاج کی خدمات کے اعتراف میں انھیں ایوارڈ پیش کیا جبکہ 2019 میں سالانہ نذیر فیض میلہ کے موقع پر صوفی تاج کی دستار بندی کی گئی.
عجیب بات ہے ناں کہ صوفی ہونے کے باوجود مزاحمت کار تھے. زبان چھین لئے جانے کے باوجود ہمت نہیں ہاری بلکہ اپنی انگلیوں کو زبان دے دی. ان کی تحریریں، ان کی شاعری اور ان کے تراجم نسلوں تک سرائیکی قوم کی رہنمائی کریں گے. پھر بھی صوفی قومی مزاحمت کے علاوہ کسی بھی لڑائی پر یقین نہیں رکھتے تھے. ان کا ایک فقرہ میرے لئے ہمیشہ مشعلِ راہ رہا ہے. کہتے تھے
"میرے ساتھ آج تک جس نے جو بھی ظلم کیا اور آئندہ بھی جو ظلم ہوگا میں نے سب کا سب معاف کیا”
صوفی جو تھے
تاج خان نے 12 نومبر 2020 کو وفات پائی ان کے جسدِ خاکی کو سرائیکی جھنڈے اور سرائیکی اجرک میں لے قبرستان فاضل پور لے جایا گیا. جہاں وہ ہمیشہ کے لئے اپنی دھرتی ماں کی گود میں سو گئے اس فخر کے ساتھ کہ اپنے حصے کا کام تو بخوبی کر گئے ہیں جبکہ ہم جیسوں کو اپنا ذمہ کام بھی بطریق احسن سمجھا گئے ہیں.
ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے ان کی یہ نظم شاہکار کہی جا سکتی ہے.
” ٹوکنے والوں سے کہو
روکنے والوں سے کہو
پھول بس کارِ محبت کا حسیں تحفہ ہے
پاپ اور پُن کے ترازو میں نہ تولو اس کو
اپنے فرسودہ عقائد سے نہ رولو اس کو
تم کو ہے یاد کہ کس شہر کو کس فاتح نے
کس طرح خون میں نہلا کے تھا تسخیر کیا
کس طرح پھول سے بچوں کو، بڑوں کو اُس نے
طاقت و وحشت و جہالت سے تھا زنجیر کیا
ایسے خوں ریز فسانوں پہ تو اِتراتے ہو
ہاں مگر سلسلہِ چاہت ہی تمہیں یاد نہیں
تم کو معلوم ہو شاید کہ فرشتوں نے بھی
وقتِ تخلیق یہ نقطہ بھی اٹھایا ہی تھا
کہ یہ آدم تو تباہی کا سبب ٹھہرے گا‫
خوں بہائے گا نشانِ غضب ٹھہرے گا
ہاں مگر یاد کرو خالق نے جو فرمایا تھا
"مجھ کو معلوم ہے جو، تم وہ نہیں جانتے ہو”
آؤ بتلاؤں کہ ہم کارِ محبت والے
اُس کی تشریح ہیں
فرشتے ،جو نہیں جانتے تھے.

%d bloggers like this: