اسلم ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہیں لاہور کا مئیر بننے سے روکنے کیلئے ان کی اور تیس سے زیادہ کونسلروں کی رکنیت ختم کردی گئی. محترمہ فاطمہ جناح کے کہنے پر وہ جلسوں میں ہمیشہ پنجابی میں تقریر کرتے رہے.
یہ ذکر ہے مینارِ پاکستان اور قذافی سٹیڈیم کے بھی معمار میاں عبدالخالق کا.
میاں عبدالخالق 1918ء میں ضلع گوجرانوالہ کے قصبے گکھڑ میں مولوی محمد شریف کے گھر پیدا ہوئے۔ خالصہ کالج گوجرانوالہ سے اعلیٰ تعلیم پانے کے بعد سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ کالج میں زیر تعلیم تھے جب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ ہوئے۔ انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کرکے پنجاب پی ڈبلیو ڈی میں ملازمت اختیار کر لی۔ 1946ء میں جب وہ ضلع گوجرانوالہ میں ایس ڈی او تعینات تھے تو مسلم لیگ کے امیدوار شیخ کرامت کی کامیابی کے لئے سرگرم رہے۔ اسی سال سرکاری ملازمت چھوڑ دی تاکہ تحریک پاکستان کے لئے کھل کر کام کر سکیں۔
حصولِ آزادی کے بعد لاہور آ گئے اور تعمیراتی کاموں میں مصروف ہو گئے۔
مینار پاکستان کی تعمیر کیلئے انہوں نے سب سے کم ریٹ دئیے، سو یہ ٹھیکہ ان کی فرم ’’میاں عبدالخالق اینڈ کمپنی‘‘ کو ملا. دراصل وہ اس کام سے کمانا کچھ نہیں چاہتے تھے، یہ اعزاز ہی کافی تھا.مینار پاکستان با وضو جاتے تھے.
لیکن میاں عبدالخالق چونکہ ایوب حکومت کے آمرانہ اقدامات سے اختلاف کا اظہار کرتے رہتے تھے، اس لئے حکومت نے کسی جگہ بھی تعمیراتی کمپنی کی تختی نہ لگنے دی۔ میاں صاحب کو حکومت کی اس انتقامی کارروائی کا افسوس تو تھا، تاہم کوئی یہ بات چھیڑ دیتا تو ہمیشہ مسکرا کر کہتے ’’میں نے مینار پاکستان کی تعمیر عبادت سمجھ کر کی، میرے لئے یہی بات قابلِ فخر اور باعثِ اطمینان ہے‘‘۔
میاں صاحب کی جلسوں میں پنجابی تقاریر کا آغاز میانوالی میں محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی انتخابی مہم کے جلسے سے ہوا.
مادر ملت جلسہ گاہ میں آنے والی تھیں۔ لاکھوں لوگ ان کی راہ دیکھ رہے تھے۔ میاں عبدالخالق پنجابی میں سامعین کو نظم و ضبط برقرار رکھنے کی تلقین کر رہے تھے۔ مادر ملت نے سٹیج پر پہنچ کر میاں صاحب کو تقریر کرنے کو کہا۔ حاضرین نے پنجابی بولنے کا مطالبہ کیا۔ میاں صاحب نے پنجابی میں تقریر کی۔ جلسہ کے اختتام پر محترمہ فاطمہ جناح نے ان سے کہا، ’’خالق! میں بھی تمہاری تقریر تھوڑا بہت سمجھ سکی ہوں، تم نے لوگوں کو ہنسایا ہے۔ لوگوں نے قہقہے لگائے ہیں۔ دکھی لوگوں کو خوش کرنا بھی بڑی اچھی بات ہے، اس لئے تم پنجابی زبان میں ہی تقریر کیا کرو‘‘
اس کے بعد میاں صاحب اپوزیشن جلسوں میں ہمیشہ پنجابی میں تقریر کرتے۔ انہیں استاد دامن اور کئی دیگر شاعروں کے بے شمار پنجابی اشعار یاد تھے جو وہ موقع محل کے مطابق پڑھتے تو مجمع انہیں بہت داد دیتا۔
میاں عبدالخالق لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے، کسی کو معاشی اعتبار سے کمزور دیکھتے تو اس کی مدد کرتے تھے، تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے۔ اس معاملے میں ذات برادری اور مذہب و مسلک کی تفریق روا نہ رکھتے۔ سماجی بہبود کی تنظیموں سے بھی دل کھول کر تعاون کرتے تھے۔
حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے معاشی نقصانات کی کبھی پرواہ نہ کی۔
گورنر نواب امیر محمد خان نے انہیں اپنے ساتھ ملانے کیلئے وزارت تک کی پیشکش کی، مگر میاں عبدالخالق اپنے موقف پر قائم رہے
میاں عبدالخالق نے گکھڑ سے لاہور منتقل ہونے پر سمن آباد میں رہائش اختیار کی تھی. ایوب خان کے عہد میں دو مرتبہ بی ڈی چیرمین بنے. مسلم لیگ کونسل سے ساتھ وابستہ رہے. پیپلز پارٹی کے شیخ صفدر مرحوم کے مقابلے میں الیکشن لڑے اور ہار گئے پھر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے اور موت تک اس سے وابستگی رہی. ضیا دور میں مئیر کارپوریشن کے کاغذات نامزدگی جمع کراۓ لیکن کمشنر لاہور نے ان کی بطور کونسلر کامیابی کا نوٹیفکیشن منسوخ کر دیا. تیس سے زیادہ دوسرے عوام دوست کونسلرز کی رکنیت بھی منسوخ کردی گئی. اگر یہ دھاندلی نہ ہوتی تو شجاع الرحمٰن کبھی میئر نہ بنتے.
میاں عبدالخالق کو منو بھائی کے ساتھ عقیدت کی حد تک پیار تھا.وہ روزانہ صبح 9 بجے کے قریب منو بھائی کے گھر آجاتے تھے۔ دوسری چائے وہاں ہوتی۔ جاوید شاہین لاہور ہوتے تو وہ بھی آتے۔ بیسیوں بار اس نشست میں ہم تین ہی ہوتے ۔ وہ منو بھائی کی باتیں سننے آتے تھے۔ خود کم ہی بولتے. ملک معراج خالد سے بھی دوستی تھی.
سپورٹس کے دلدادہ تھے. لاہور ڈویژن ہاکی ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہے . ان کے بڑے بیٹا میاں طارق جی سی سٹوڈنٹس یونین کے صدر بنے، ٹیک کارگو کے نام پر بزنس کیا. کسی بیٹے نے سیاست میں سرگرم حصہ نہیں لیا.
میاں عبدالخالق کا 9 نومبر 1987ء کو انتقال ہوا. بہاولپور روڈ کی جنازہ گاہ کے ساتھ جو سڑک اسلامیہ پارک کی طرف مڑتی ہے اس کی دائیں طرف ان کی آخری آرام گاہ ہے.+
فرخ سہیل گوئندی صاحب نے بتایا ہے کہ 1965 میں پاکستان کی دفاعی لائن بننے والی بی آر بی نہر بھی میاں عبدالخالق نے کھدوائی تھی.
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر