کرن لاشاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
28 ہزار مربع کلومیٹر، یعنی 70لاکھ ہیکٹر تقریباً ایک کروڑ ستر ایکڑ پر مشتمل وسیع صحرا چولستان جو جغرافیائی طور پر باظاہر تو دنیا کے چھٹے بڑے صحرا صحراے تھر (راجپوتانہ) کا حصہ ھے، مگر اس کے منفرد موسم، نباتات، جنگلی حیات، ثقافت، اور جغرافیہ اسے باقی خطے سے ممتاز کرتا ھے، صدیوں پہلے اس صحرا کے عین درمیان میں دریاے ہاکڑہ (سرسوتی یا گھاگھرا)بھی ٹھاٹھیں مارتا تھا، جسکے نشان اب بھی علاقے کے چپے چپے موجود ہیں،
مقامی سرائیکی زبان میں اس صحرا کو محبت اور چاہت سے روہی بھی کہا جاتا ھے،اور روہی کے عشق میں بلھے شاہؒ اور خواجہ غلام فریدؒ کی شاعری نے اسے ہمیشہ کیلیے امر کردیا ھے،،چولستان کے لوگ اپنے صحرا سے جنون کی حد تک اپنائیت رکھتے ھیں یہ شائد واحد خطہ ھے دنیا کا جسکے عشق میں مقامی لوگوں نے سیکڑوں سال سے سرائیکی اور دیگر زبانوں میں اتنی شاعری اور نثر لکھا کہ لاکھوں دیوان اور کتابیں کم پڑ جایں اسے لکھتے لکھتے،،
چولستان جسکے نام کی وجہ تسمیہ مخلتف ماہرین اپنی تحقیق کیمطابق الگ الگ بتاتے ھیں، کچھ ماہرین اسے سرائیکی زبان کے لفظ وچول سے نکلا ھوا بتاتے ھیں جسکے معنی درمیان کا علاقہ، اور کچھ وہاں پہنے جانے والے منفرد لباس چولی /چولا سے چولستان تعبیر کرتے ھیں، برحال یہ ماہرین ہی مزید تحقیق سے بہتر بتا سکتے ھیں،،
پر افسوس یہ خوبصورت صحرا قیام پاکستان کے ساتھ ہی سرکاری و سیاسی مافیا کے زیرعتاب آ گیا یہاں کے جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور چرند پرند کا بے دردی سے شکار کیساتھ ساتھ قبضہ مافیا کا مضبوط نیٹورک نے اس خطے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ھے،، معمولی سرکاری ملازم سے لیکر. ہائی پروفائل افسران کو رٹائرمنٹ پر مفت میں فی کس سیکڑوں ایکڑ زمینیں بانٹی جا رہی ھیں، سیاسی اثر رسوخ سے غیر مقامی باشندو کو پچاس اور سو روپے ایکڑ کے حساب سے. جاگیریں الاٹ کی جا رہی ھیں،
اور صورت حال یہ ھو گئی ھے کہ مقامی سرائیکی جسے روہیلے کہا جاتا ھے کیساتھ اب ریڈانڈین سے بھی زیادہ بدتر سلوک کیا جا رہا ھے، روہیلوں کے بچے کچھے ٹوبھوں پر جانے کے لیے اب پرمنٹ لینے پر مجبور کیا جاتا ھے، صدیوں سے رہایش پذیر مقامی لوگوں کی قدم قدم پر نقل حرکت محدود کر کے انھیں اپنے آبائی گھروں اور زمینوں سے بیدخل کیا جانا معمول بن گیا ھے، اور اب رہی سہی کثر ہوبارا جیسی (ایسٹ انڈیا کمپنی طرز)غیر سرکاری کمپنیوں کو سو سو سال کے لیے لاکھوں ایکڑ زمین جنگلی حیات کی فارمنگ کے نام پر لیز کر کے دی جا رہی ھیں، گزشتہ ستر سال کی خطے کیساتھ غیر فطری ٹمپرنگ نے چولستان کی ڈیموگرافی کو مکمل تباہ کر دیا ھے مسلسل غیر مقامی آبادکاری اور قبضہ گیری سے صدیوں سے آباد مقامی روہیلے اب یہاں اجنبی سے لگتے ھیں،،
موصلات کے زرائع سے دور یہ علاقہ میڈیا کیلیے بھی غیر اہم ھے، کیونکہ میڈیا کو خبر کیساتھ کچھ دینے والے ہی یہاں بدمعاشی میں ملوث ھیں، اس لیے خبر یہ نہیں بنتی کہ کتنے روہیلے نقل مقانی کر گئے ھیں، بلکہ خبر ہمیشہ یہ ھوتی ھے کہ فلاں ٹوبھہ اب فلاں چیمے، چٹھے، کرنل،جنرل، ڈوگر، چوہدری، وغیرہ کی ملکیت ھے،!!!
آخر کب تک، مزہب اور حب الوطنی کے نام پر کمزور طبقات کے وسائل لوٹے جایں گے، کب تک زور زبردستی اور بدمعاشی سے مظلوم قوموں کو غلامی میں رکھا جاے گا،،، کب تک اپنے وسائل اور دھرتی پر اپنا حق ملکیت مانگنے والوں پر غداری کے ٹھپے لگاے جایں گے،،
اپنے دور کا طاقتور یہ کیوں بھول جاتا ھے کہ، طاقت کا غیر فطری استمعال خود طاقتور کیلیے موت ھوتی ھے،، قومیں پھر بھی موجود رہتی ھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرن لاشاری صدر سرائیکی عوامی تریمت تحریک پاکستان ہن۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر