مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈی پی او اسد سرفراز، فری اورفوری انصاف مگر کیسے؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

انصاف پسند ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او میں سے کون اور کب اس مظلوم خاندان کی زمین ڈیفالٹر مستاجر سے واگزار کرا کر دے گا؟

جام ایم ڈی گانگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضلع رحیم یار خان میں سابق ڈی پی او سید منتظر مہدی کی رخصتگی اور نئے ڈی پی او اسد سرفراز کی تعیناتی پر سوشل میڈیا پر مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے تبصرے، رائے، جذبات و احساسات کا سلسلہ بڑا لمبا چوڑا ہے. بہرحال جانے اور آنے والے کے بارے میں کئی دلچسپ باتیں، تلخ و شریں حقائق کے علاوہ بہت ساری سنی سنائی باتیں گردش کرتی نظر آتی ہیں.عبدالجلیل بندیشہ رحیم یار خان شہر کے ایک صاف گو اور بے باک نوجوان ہیں جو سابق سٹی ناظم چودھری سلطان احمد بندیشہ کے صاحبزادے ہیں. ان کی ایک پوسٹ آپ کے ساتھ من و عن شیئر کر رہا ہوں. وہ لکھتے ہیں کہ
ُ ُ ُ معزز چٹی دلالوں، حکومتی و اپوزیشن مافیاز گروپ کے گھروں میں سوگ ماتم منتظر صرف مارتا تھا سنا ہے یہ گھسیٹتا بھی ہے میری مانو تو غلہ منڈی یا چیمبر سے کسی کو لگوا لو روز روز کس کس کی تبدیلی کے لیے ذلیل خوار ہو گے. ٗٗ ٗایک بزرگ شہری محمد ظفر اللہ اپنے کومنٹس میں فرماتے ہیں کہ ُ ُ یہ نہ عبدالجلیل کا رشتہ دار ھے نہ ہی برداری کا نہ ہی کہیں دور نزدیک کا تعلق دار یہ صرف سنی سنائی بات آگے کر کے مشہوری پروگرام شروع ھو جاتا ھے. کس کے گھر میں سوگ ماتم ھے ذرا نام ہی بتا دو.جب پہلا ڈی پی او آیا تھا جناب کے یہی الفاظ تھے. آج ایک سال بعد بھی وہی الفاظ ہیں آپکو ایسی پوسٹیں زیب نہیں دیتیں ماشاءاللہ سمجھدار ھو اور سمجھدار بنو. ٗ ٗ
خیر ان پوسٹوں اور تبصروں سے ذرا ہٹ کر ہم دیکھتے ہیں کہ بلاشبہ سید منتظر مہدی نے مجموعی طور پر ضلع رحیم یار خان میں اچھا وقت گزارا ہے. ایک ایسا محکمہ جس میں معاشرتی و انتظامیہ خرابیاں اور محکمانہ خرافات انتہا کو پہنچی ہوئی ہوں. جو محکمہ پل پل سیاسی و سفارشی کلچر اور دباو کا شکار ہو وہاں دیانت داری و ایمانداری اور فرض شناسی کے ساتھ کام کرنا کتنا دشوار و مشکل ہوتا ہے اس تلخ حقیقت کو صرف وہی لوگ گہرائی کے ساتھ جانتے ہیں جو بھگت رہے ہیں.سرائیکی زبان کی مشہور کہاوت ہے کہ نچدی کنوں بیٹھی کوں زیادہ تا ہوندے. مطلب یہ کہ ناچنے والی کی نسبت بیٹھی ہوئی کو زیادہ جوش اور گرمی ہوتی ہے. کچھ اس قسم کی کیفیت پولیس کے اندر اور باہر والے لوگوں کی ہے. باتیں کرنے کو آسان مگر کام اور عمل کرنے کو مشکل ہوتا ہے.
رحیم یا ر خان میں نئے تعینات ہونے والے ڈی پی او اسد سرفراز نے تین روز قبل میڈیا سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے امن و امان کی صورتحال کو مزید بہتر بنانے کا جو مشن سونپا گیا ہے انشااللہ اس پر پورا اترنے کی کوشش کروں گا. ہر غریب اور ہر مظلوم کو فری اور فوری انصاف کی فراہمی، کرپشن کا خاتمہ اور جان و مال کے ساتھ ساتھ سائلین کی عزت نفس کا تحفظ میری بنیادی ترجیحات میں شامل ہے۔جرائم پیشہ عناصر کو ضلع سے پاک کر کے رہوں گا ۔ جرائم پیشہ عناصر بہتر ہے میرے چارج سنبھالنے سے پہلے اپنا قبلہ درست کر لیں ورنہ اپنے عبرت ناک انجام کیلئے خود کو تیار رکھیں ۔ عوام کی عزت جان مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے آخری حد تک جائیں گے۔میرے اہداف میں شامل ہے کہ پولیس کو ہر طرح کے پریشر اور سفارش سے دور رکھ کرکام کیا جائے تاکہ انصاف کے قتل کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے ۔ انصاف کا قتل ہوتا ہی تب ہے جب سفارشی کلچر پروان چڑھتا ہے اور سفارش کی ضرورت ہمیشہ غلط کام میں پیش آتی ہے ۔ اچھا کام کرنے والے افسران کو شاباش اور انعامات سے نوازا جائے گا جبکہ غلط کام کرنے والوں کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ سائلین کی عزت نفس مجروح کرنے والے اور انکی جیب پر نظر رکھنے والے میری ٹیم کا حصہ بالکل نہیں رہیں گے ۔ خواتین اور بچوں سے زیادتی کے واقعات کی روک تھام کو یقین بنانے کیلیے ایمر جنسی بنیادوں پر کام کیا جائےگا ۔ کچہ کے ایریاز کو خصوصی فوکس کیا جائےگا ۔ سنا ہے رحیم یار خان کے لوگ بہت اچھے ہیں۔کسی بھی معاشرے میں کرائم ریشو کا تعلق وہاں کی عوام کے شعور سے وابستہ ہوا کرتا ہے ۔ باشعور معاشرے میں جرائم کی ہمیشہ حوصلہ شکنی ھوتی ھے ۔ باشعور شہریوں کے تعاون کے بغیر جرائم کا خاتمہ ممکن نہیں ۔ باشعور معاشرے میں جھوٹی درخواست بازی کا رجحان نا ہونے کے برابر ہوتا ہے جھوٹی درخواست بازی سے پولیس کا قیمتی وقت برباد ہوتا ہے ۔ امید ہے شہری پولیس کے وقت وسائل کا خیال رکھیں گے۔کرپشن اور سائلین سے بدسلوکی ہرگز ہرگز برداشت نہیں کی جائےگی ۔ رحیم یار خان کی صحافی برادری سے یہی توقع کروں گا کہ جرائم کی نشاندہی کرکے پولیس سے تعاون کرتے رہیں گے۔
نئے ڈی پی او اسد سرفراز کے ٹیلفونک خطاب سے تو ایسے لگتا کہ عبدالجلیل بندیشہ نے سچ ہی کہا ہے. لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس سچ کی حقیقت کو وقت ثابت کرے گا. جہاں تک خطابات کا تعلق ہے ہم نے دیکھاہے کہ تقریبا آفیسران کے خطاب بڑے پرکشش اور دل کو موہ لینے والے ہی ہوتے ہیں. پولیس پر سیاسی دباؤ یا پولیس میں سیاسی مداخلت ایک ایسی وائرس نما بیماری ہے جو بڑی بری طرح اندر ہی اندر پھیلی ہوئی ہے. ہاں البتہ یہ بھی ضرور دیکھا ہے کہ کچھ آفیسران ایک مناسب حد تک تو برداشت کرتے ہیں لیکن ہر وقت اور ہر جگہ اسے قبول کرنے کی بجائے تبادلہ قبول کر لیتے ہیں دباؤ نہیں. مجھے نہیں معلوم سید منتظر مہدی کا معاملہ کیا، کیسا اور کس کے ساتھ ہوا ہے. ویسے اشارتاََکافی حد تک جلیل بندیشہ نے مافیاز کی طرف انگلی کھڑی کر دی ہے. یہاں کیمل اینڈ وائٹ کالر مافیاز بہت ہیں کالی بھیڑوں، چٹی اور چٹی دلالوں کی بھی بہتات ہے.بلاشبہ جیسا کہ آپ نے سنا ہے مجموعی طور پر یہاں کے لوگ واقعتا بہت ہی اچھے انسان اور بھلے مانس آدمی ہیں.

میں یقین کامل کے ساتھ یہ الفاظ لکھنے جا رہا ہوں کہ جس دن ہماری پولیس غیر سیاسی ہو گئی یا بنا دی گئی. میرٹ اور انصاف کا واقعی بول بالا ہوگا، لا اینڈ آرڈرز کی پوزیشن مثالی ہوگی، امن و امان کے حالات قابل رشک ہوں گے. ڈی پی او اسد سرفراز نے کیا خوب کہا ہے کہ انصاف کا قتل ہوتا ہی وہاں ہے جہاں سفارشی کلچر پروان چڑھتا ہے. بہرحال ہم اسد سرفراز کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ تعالی انہیں اپنے نیک مقاصد و مشن میں سرفراز فرمائے. آمین. ان کی کامیابی دراصل میرٹ و انصاف کی کامیابی ہوگی. ان کی سرفرازی و کامیابی مظلوم لوگوں کی کامیابی ہوگی. صحافی جرائم اور جرائم پیشہ عناصر کی نشاندہی ضرور کریں گے. اس سلسلے کی برقراری آپ کے نوٹس لینے اور انصاف فراہم کرنے پر ہی ہوگی. میں ایک کیس جناب والا کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں ہو سکے تو اس پر غور فرما لینا. آخر کیا وجہ ہے کہ ڈسٹرکٹ کورٹ رحیم یار خان کے اندر دن دیہاڑے اپنے کیس کی پیروی کے لیے آنے والی لڑکی حنا خورشید درانی، اس کی والدہ شاہدہ تسنیم وغیرہ کو اجمل رشید کورائی، اکمل رشید کورائی وغیرہ عدالت کے باہر روکتے ہیں، دھکے اور غلیظ گالیاں دیتے ہیں. سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہیں. درخواسٹ دینے کے باوجود ضلع کے پہلے ماڈل تھانے سٹی اے ڈویژن میں ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی.بالاآخر اس مظلوم خاندان کو عدالت رجوع کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے. میں سوچ رہا ہوں کہ جہاں ایسے حالات ہوں وہاں آپ عوام کو فری اور فوری انصاف کیسے فراہم کریں گے. مذکورہ بالا کیس کے ملزمان محکمہ شکار کے آنریری گیم وارڈن رشید خان کورائی کے صاحبزادے ہیں. رشید خان کورائی وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار اور صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت کا وہ دست خاص ہے. جس کی سپورٹ آنکھیں بند کرکے کی جاتی ہے. رشید کورائی حنا خورشید اور اس کے خاندان کی 46ایکڑ6کنال قیمتی زرعی زمین واقع چک 76این پی اور موضع محمد پور قریشیاں جعل سازی اور جھوٹے مقدمے بازی کے ذریعے ہڑپ کرنا چاہتا ہے. تصدیق اور مزید حقائق آپ اپنی خفیہ ایجنیسوں کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں.ڈی پی او صاحب کیا یہ انصاف کا قتل نہیں ہے. انصاف پسند ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او میں سے کون اور کب اس مظلوم خاندان کی زمین ڈیفالٹر مستاجر سے واگزار کرا کر دے گا؟

………………………….

مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

%d bloggers like this: