اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بیہوٹاپ

بیہو ٹاپ : کوہ سلیمان کی دلفریب چوٹی

ملتان، ڈیرہ غازی خان کی طرف سے جانے والے سیاحوں کا سفر براستہ تونسہ شریف، گلکی، فاضلہ کچھ، دروہی اور کرکنہ درُگ کی طرف جاری ہوتا ہے ،

تحریرو تصاویر: عطاالرحمان گورمانی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوہ سلیمان کا خطہ حسیں نظاروں، خوبصورت آبشاروں اور بلندوبالا ٹھنڈی چوٹیوں سے بھرپور ہے،کوہ سلیمان کی معروف چوٹی بیہو پواد سطح سمندر سے 14500 فٹ کی بلندی پر ضلع موسیٰ خیل کی تحصیل درُگ کے علاقے میں موجود ہے،

بیہو پواد ٹریکنگ کا شوق رکھنے والے تمام افراد خواہشات میں شامل ہوتی ہے، ملتان، ڈیرہ غازی خان کی طرف سے جانے والے سیاحوں کا سفر براستہ تونسہ شریف، گلکی، فاضلہ کچھ، دروہی اور کرکنہ درُگ کی طرف جاری ہوتا ہے ،

گلکی سے آگے درُگ تک سارا روڈ زیر تعمیر ہے، پنجاب کی حدود میں سنگل جبکہ بلوچستان کی حدود میں چوڑا روڈ بن رہا ہے جو کہ سی پیک کا حصہ ہے اور آگے موسی خیل سے ہوتا ہوا کوئٹہ ژوب روڈ کو جا ملتا ہے،

درُگ سے سات آٹھ کلومیٹر پہلے ایک ٹی چوک بن جاتا ہے جہاں سے سیدھے ہاتھ کو راستہ درُگ جبکہ بائیں طرف گڑگوجی کو جاتا ہے جو کہ خواجہ شاہ سلیمان سمیت خواجگان تونسہ شریف کا آبائی وطن ہے،

درُگ سے تین چار کلومیٹر پہلے ہمارے میزبان کی طرف سے بھیجی جانے والی گاڑی ان کے بیٹے سمیت ہمیں لے جانے کے لیے موجود تھی، ہم سیدھا اپنے میزبان سردار اللہ نواز جعفر صاحب کے پاس پہنچے جو کہ پرانے شہر کے مغربی علاقے میں واقع نئی کالونی نواز آباد میں واقع اپنے پٹرول پمپ پر ہمارے انتظار میں موجود تھے،

سردار اللہ نواز جعفر صاحب درُگ کے سابقہ ناظم اور موجودہ چئیرمین ہیں، نہایت خوش اخلاق، نفیس انسان ہیں، جبکہ ان کی مہمان نوازی کی گواہی ہمارے لیے سجایا گیا ان کا دسترخوان بھی دے رہا تھا،

درُگ بلوچستان کے ضلع موسی خیل کی تحصیل ہے، معتدل موسم نہ زیادہ گرم اور نہ زیادہ ٹھنڈے موسم کے ساتھ سطح سمندر سے تقریباً 2900 فٹ کی بلندی پر واقع ہے،

علاقائی زبان پشتو نہ بلوچی بلکہ بلوچستان کے علاقے رکنی بارکھان میں بولی جانے والی کھترانی زبان سے نوے فیصد ملتی جلتی اور سرائیکی بولنے والوں کو اکثر الفاظ سمجھ آجانے والی ہے،

یہ علاقہ ابھی ترقی پذیر ہے جس کی مثال یہ ہے کہ درُگ شہر میں بجلی کی سہولت تقریباً تین چار سال پہلے آئی ہے، بلوچستان میں خصوصاً زیارت کے علاقے ونڈ انرجی سے پمپ چلا کر پانی کھینچنے کا طریقہ عام تھا جو کہ اب وہاں ناپید ہو چکا ہے جبکہ درُگ میں آج بھی ونڈ انرجی سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا رہا ہے،

اس علاقے کے لوگ نہایت خوش اخلاق اور مہمان نواز ہیں، اگر آپ نے رک کر کسی سے راستہ پوچھ لیا ہے تو آپ کو بھرپور طریقے سے گائیڈ کریں گے اور چائے کھانے کی نہ صرف آفر کریں گے بلکہ شدید اصرار کریں گے،

گھروں کے کونے میں حفاظتی واچ ٹاور بنانے کا رواج آج بھی موجود ہے، پرانے ٹاور چوکور اور زیادہ جگہ گھیرنے والے جبکہ نئے مکانات پر گول اور سمارٹ واچ ٹاورز بنائے گئے ہیں،۔

اللہ نواز صاحب کے دسترخوان سے فارغ ہونے کے بعد کافی دیر تک بیہو ٹاپ کے بارے میں ان سے گفتگو ہوتی رہی جس دوران معلوم ہوا کہ موصوف بیہو ٹاپ کے لیے آنے والے نامور شخصیات کی میزبانی کر چکے ہیں جن میں بلوچستان کی ہر دل عزیز شخصیت اور نامور ٹریکر عزیز احمد جمالی صاحب  بھی شامل ہیں،

صبح جلدی بیہو ٹاپ کی طرف جانے کی خواہش پیش جلدی سونے کا فیصلہ ہوا جبکہ میزبان کے ذمہ ہمارے لیے ایک گائیڈ کا انتظام کرنا بھی باقی تھا،

ہمارے میزبان نے ہمیں بتایا کہ بیہو ٹاپ جانے کے لیے دو راستے ہیں ایک راستہ درگ شہر سے ڈائریکٹ بیہو ٹاپ کے لیے پیدل نکلتا ہے جو کہ نہایت مختصر مگر خشک اور قدرے خطرناک راستہ ہے جبکہ دوسرا راستہ نتھ کلی تک گاڑی ڈراپ کرے گی اور آگے پیدل یہ راستہ بہت لمبا مگر قدرے آسان ہے،

اس راستے میں کچھ حصہ سرسبز اور چشمے وغیرہ پانی کی دستیابی ہے، رات کو ہم نے سردار اللہ نواز صاحب سے صبح سات بجے تک بیہو کے لئے جانے کا ٹائم فکس کیا اور سینئر ٹریکر کی پیروی کرتے ہوئے جانے کے لیےسرسبز مگر لمبا اور آسان راستہ جبکہ واپسی کے لیے خشک اور مشکل راستے کا مشورہ طے پایا اور جلدی سو گئے،

صبح تیاری کرتے نہاتے ہمیں سوا سات بج گئے، ہمارے لئیے ناشتہ لگایا گیا اور ہمیں الوداع کہنے کے لیے ہمارے میزبان بھی تشریف لے آئے اور ہمیں بتایا کہ میں بیہو ٹاپ کے آس پاس موبائل فون کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ آپ کے لیے اوپر ہی لنچ کا انتظام کیا جائے ۔

ہمارے انکار کے باوجود وہ اپنی بات پر ثابت قدم رہے اس دوران ہمیں لے جانے کے لئے ایک گائیڈ علی محمد بھی وہاں آچکا تھا، علی محمد کوئی باقاعدہ گائیڈ نہیں تھا تاہم کچھ مناسب افراد کی عدم دستیابی کی وجہ سے اسے ہائیر کیا گیا تھا، پیدائشی طور پر بیہو کے علاقے سے تعلق رکھتا تھا اور دو تین سال پہلے روز گار کے سلسلے میں درُگ شفٹ ہو گیا تھا،

پونے آٹھ بجے تک گاڑی نے ہمیں نتھ کلی ڈراپ کیا اور یہاں سے ہمارا پیدل سفر شروع ہوا، کوہ سلیمان میں سیاحت کے فروغ نہ پانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں ٹاپ تک جانے کے لیے کوئی جیپ ٹریک موجود نہیں ہے ۔ یعنی آپ اندازہ کریں کہ بیہو پواد جانے کے لیے آپ تقریبا 11500 فٹ کی بلندی پیدل چڑھنی ہے جبکہ اس کے بر عکس ملک کے شمالی علاقوں میں اس طرح کی جگہوں پر پختہ سڑکیں یا کم از کم جیپ ٹریک ضرور موجود ہیں۔

نتھ کلی کے خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے آپ پشا واٹر فال تک جا پہنچتے ہیں ، اور یہاں سے دو گھنٹے کی مزید ٹریکنگ کے بعد بیہو پیر کا مقام آتا ہے۔

بیہو پیر کے مقام پر ایک مسجد بنی ہوئی ہے اور مسافران کے لیے ایک کمرہ جس میں ضروریات زندگی کا کچھ سامان بھی موجود ہوتا ہے، درمیان میں سے دو حصوں میں تقسیم شدہ ایک بڑا پتھر موجود ہے ، مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہی پتھر دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا اور پیر صاحب اسی میں گم ہو گئے تھے ،

سامنے کی طرف ایک مقدس درخت ہے جس پر لوگ اپنی منت مراد کے دھاگے وغیرہ باندھتے ہیں اور منت پوری ہونے پر ذبح کیے جانے والے جانور کی کھال کو بھی اسی درخت کے اوپر لٹکا دیا جاتاہے۔

ے۔ بیہو پیر کے مقام پر یخ ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے دو چشمے بھی موجود ہیں، یہاں سے آگے مزید 40 سے 50 منٹ کی ٹریکنگ کے بعد بیہو پواد پہنچا جاتا ہے جہاں سے کوہ سلیمان کا ایک بہت ہی خوبصورت نظارہ آپ کا منتظر ہوتا ہے۔

%d bloggers like this: