اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

” قلعہ سوران ، بلوچستان میں معدوم ہوتا تاریخی ورثہ”

عمارت کا شمالی اور مشرقی حصہ مکمل طور پر گر چکاہے تمام عبارات اور تحریریں مٹ چکی ہیں اور میر بزرگ کی قبر کے بھی کوئی نام ونشان باقی نہیں ہیں ۔

تحریرو تصاویر: عطاالرحمان گورمانی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلوچستان تاریخی اور آثار قدیمہ کی تحقیق اور تحفظ کے حوالے سے نہایئت ہی نظر انداز خطہ ہے۔بلوچستان کے ضلع کوہلو کی تحصیل بارکھان کو تاریخی طور پر نہایت اہم مقام حاصل ہے-یہی وہ علاقہ ہے جو ہندوستان کو سنٹرل ایشیا سے ملانے والی قدیم گُذر گاہ  بھی ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق بارکھان کے علاقہ سے ڈائنوسار کے فوسلز بھی دریافت ہوئےتھے،بر صغیر کےمغل حکمران قندھار آنے جانے کے لیے وٹاکری اور بارکھان کا راستہ استعمال کیا کرتے تھے،

اسی روٹ پر بارکھان سے تقریبا” 15 کلو میٹر جنوب مغرب میں وٹاکری روڈ پر ناہڑ کوٹ قصبہ ہے 

ناہڑ کوٹ قصبہ کی  سڑک کے دائیں طرف تقریبا” 500 میٹر دور کھلے میدان میں اونچے ٹیلے پر اپنی شاہکاری کے آخری ایام گنتے دور سے نظر آنے والی ایک عمارت کے کچھ آثار موجود ہیں جسے مقامی  لوگ سوران قلعہ کے نام سے جانتے ہیں ،

مقامی لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ مشہور و معروف مغل ملکہ نور جہاں کی جائے پیدائش ہے۔

راقم کو اس جگہ کا مطالعاتی دورہ کرنے کا موقع بلوچستان کے معروف سیاح اور بیوروکریٹ  جناب عزیز احمد جمالی اور وسیب ایکسپلورر کے جناب ڈاکٹر سید مزمل حسین کے تعاون سے رواں سال اگست میں میسر آیا

ناہڑ کوٹ میں موجود یہ آثار عمارت کی تاریخی اور تعمیری شاہکاری کو بیان کرتے ہیں، کچھ مورخین کے مطابق یہ مغل شہنشاہ جہانگیر کے ایک ہردل عزیز جرنیل میر بزرگ کی جائے تدفین ہے اور اس مقبرہ کو 1601 عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا،

جہانگیر کا بیٹا امیر خسرو اپنے لشکر کے ساتھ قندھار کی طرف جا رہا تھا کہ وٹاکری کے مقام پر اس کے نہایت عزیز جرنیل میر بزرگ جو کہ ایک شاعر،عالم اور خطاط بھی تھا کا انتقال ہوگیااور ناہڑ کوٹ میں اس کی تدفین کی گئی اور اسی کی یادگار کے طور پر جہانگیر نے یہ مقبرہ تعمیر کروایا جو کہ اب معدوم  ہونےکے قریب ہے۔

عمارت کی باقیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پتلی اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہشت پہلو عمارت تھی، محرابوں کے اوپر لگی اینٹوں پر نیلے رنگ کی ملتانی کاشی کاری اس عمارت کی شاہکاری کے ثبوت کے طور پر آج بھی نظر آرہی ہے۔

عمارت کا شمالی اور مشرقی حصہ مکمل طور پر گر چکاہے تمام عبارات اور تحریریں مٹ چکی ہیں اور میر بزرگ کی قبر کے بھی کوئی نام ونشان باقی نہیں ہیں ۔

ناہڑ کوٹ سے تعلق رکھنے والے غلام رسول کھتران کے مطابق اپنے دور کی نہایت ہی شاہکار عمارت تھی کاشی کاری کا کام اتنا اچھا اور زیادہ تھا کہ اس کی چمک سے اس طرف جانے والے جانور بہت ہی زیادہ خوف زدہ ہوجایا کرتے تھے لہذا چرواہوں نے بھی اس کی توڑ پھوڑ میں اپنا حصہ ڈالا،

مقامی لوگوں نے حکومت اور محکمہ آثار قدیمہ سے اس ورثہ کے تحفظ کا بھی مطالبہ کیا۔

 عمارت کی زبوں حالی کی وجہ شائید اس کا بلوچستان میں واقع ہونا بھی ہو سکتا ہے کیونکہ  بلوچستان میں موجود آثار قدیمہ میں سے اکثر کے حالات اسی عمارت ملتےجلتےہی ہیں۔

 

%d bloggers like this: