اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چنیوٹ کا تاج_محل

یہ کہانی ہے ایک ایسی محل نما حویلی کی جس کے نصیب میں کوئی رہنے والا نہیں لکھا

چنیوٹ کا تاج_محل

تحقیق و تحریر : ڈاکٹر سید محمّد عظیم شاہ بخاری
شاہنامہ

یہ کہانی ہے ایک ایسی محل نما حویلی کی جس کے نصیب میں کوئی رہنے والا نہیں لکھا اور اِسے آسیبی قرار دے کر بند کر دیا گیا ہے۔

یہ کہانی ہے چنیوٹ کے عمر حیات محل یا گُلزار منزل کی۔
پنجاب کے شہر چنیوٹ کی یوں تو بہت سی چیزیں مشہورہیں لیکن ان میں سرفہرست یہاں کا نفیس اور پائیدار لکڑی کا کام ہے۔

اسی کام کا بہترین شاہکار شہر کے قدیم حصے میں واقع ایک گلابی و سرمئی رنگ کی عمارت ہے جو پتھر اور لکڑی کی آمیزش کا بہترین مرکب ہے اوراس کے بنانے والے کے اعلیٰ ذوق کا پتہ دیتی ہے۔

یہی چنیوٹ کا تاج محل عمر حیات محل ہے جِس کے دروازوں پر بنے نایاب نقش و نگار اور خوبصورت رنگوں والی کھڑکیاں اپنی مثال آپ ہیں۔ اس عمارت کے اندرونی حصے میں بنی چھتیں، لکڑی کی بالکونیاں،

چبوترا اور سیڑھیاں بھی شاندار فن تعمیر کا اعلی نمونہ ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اٹھارھویں صدی عیسوی کے اواخر میں شیخ خاندان نے کلکتہ سے چنیوٹ ہجرت کی جن میں شیخ عمر حیات بھی شامل تھے۔

مقامیوں کے مطابق شیخ عمر نے اپنے خاندان کے خلاف جا کہ شادی کی تھی جس کا خمیازہ انہیں معاشی بائیکاٹ کی صورت بھگتنا پڑا اور وہ کلکتہ چلے گئے۔

ان دنوں کلکتہ برصغیر کی ایک بڑی بندرگاہ اور تجارتی منڈٰی تھی جہاں بیسویں صدی کے اوائل میں چنیوٹی شیخ رہائش پزیرہوئے۔ شیخ عمر نے وہاں جہاز توڑنے کی صنؑت اور مختلف دوسرے کاروبار کیئے اور خود کو ایک کامیاب تاجر منوایا۔

جب 1920 میں ان کے ہاں ایک بیٹے کا جنم ہوا جس کا نام گلزار محمد رکھا گیا، تو چنیوٹ کی دھرتی پر بہتے چناب کی موجوں کی کشش نے ان کو اپنی جانب کھینچا اور انہوں نے یہاں اپنے بیٹے کے لیے ایک شاندار عمارت بنوانے کا فیصلہ کیا۔

چنانچہ عمر حیات نے اپنے قریبی عزیز سید حسن شاه کو اس شاندار عمارت بنانے پر مامور کیا۔ سید حسن شاہ کے ساتھ مختلف مقامات کے مشہور فنکار بھی مامور تھے جنہوں نے دس سال تک اس کام کے لیے دن رات ایک کر دیا۔

ان میں اس وقت کے مشہور کاریگر ”رحیم بخش پرجھا” اور ”الہی بخش پرجھا” بھی شامل تھے، جو ماہر منبت کار تھے۔ انھوں نے لکڑی، سنگ مرمر اور شیشے کا ایسا شاندار کام کیا کہ ہر دیکھنے والی آنکھ عش عش کر اُٹھی۔

دوسرے کاریگروں میں شامل مستری احمد دین نے جنہوں نے اینٹوں کا کام کیا، نیاز احمد جالندھری نے سٹکو جبکہ جان محمد نے فریسکو کا کام بہترین طریقے سے انجام دیا۔
تعمیر کا کام 1923 سے شروع ہو کر سات سال کی شبانہ روز محنت اور زرِ کثیر خرچ ہونے کے بعد 1930ء میں ختم ہوا۔ اس کی تعمیر نے اہلیانِ چنیوٹ کو ششدر کر دیا

جو یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ گارے ، مٹی اور لکڑی کے مرکب سے کسی جڑاؤ زیور جیسی خوبصورت عمارت بھی کھڑی کی جا سکتی ہے۔ اس کے لاجواب جھروکے، منابت کاری، دروازوں کے کام اور پتھروں کے نقوش نے پنجاب کے کاریگروں کو ہِلا کہ رکھ دیا۔
لکھنے والوں نے ضلعی گزٹ میں اسے ایک ”مقامی عجوبہ” قرار دیا ۔

لیکن شومئی قسمت کہ اس کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد ( کچھ احباب نے ذرا پہلے بھی لکھا ہے) 1935 میں شیخ عمر حیات وفات پا گئے۔ شیخ عمر حیات کا اکلوتا بیٹا گلزار محمد اس وقت 15 سال کا تھا۔ غم سے نڈھال شیخ عمر حیات کی بیوہ نے یہاں ناں رہنے کا فیصلہ کیا اور کافی عرصہ یہ محل بند پڑا رہا۔

کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ماں، بیٹا محل میں منتقل ہوگئے اور گلزار محمد نے 1937ء میں سترہ سال کی عمر میں اسی محل میں دھوم دھام سے شادی کی جسے چنیوت کے بزرگ آج بھی یاد کرتے ہیں کہ اس جیسی شاندار تقریب پھر کبھی نا ہوئی۔ مگر جو نصیب میں لکھا ہو وہ ہو کہ رہتا ہے،

ولیمے کے دن صبح کو گلزار محمد کی لاش غسل خانے کے فرش پر پڑی ملی۔ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ غسل خانے میں نصب حمام میں استعمال ہونے والے کوئلے سے زہریلی گیسوں کا اخراج تھا جس کی وجہ سے گلزار دم گھٹنے سے انتقال کرگیا۔

بہت سے توہم پرست لوگوں نے اسے جنات کا کام قرار دیا ۔ بیوہ ماں نے بیٹے کا جنازہ نہ اٹھنے دیا اور محل کے دالان ہی میں دفن کروا دیا۔ اکلوتے بیٹے کی موت کی خبر سن کر گلزار محمد کی والدہ کو ایک بڑا صدمہ لگا جسے وه برداشت نہ کر سکیں اور جلد ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ گلزار محمد اور ان کو والدہ دونوں کو ایک ساتھ عمارت کے برآمدے میں دفن کیا گیا ہے۔

شروع میں شیخ خاندان کے لوگوں نے اس محل پر قبضہ جمانے کی کوشش کی لیکن کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ بھی کچھ واقعات پیش آئے اور وہ یہ سوچ کر یہاں سے چلےگئے کہ یہ شیخ خاندان کے لیے ایک منحوس جگہ ہے۔اسی دوران میں ان کے ملازمین دو سال یہیں رہتے رہے اور جلد ہی یہاں کا حصہ بن گئے۔۔۔۔۔

پھر کئی دہائیاں گزریں یہ محل یونہی ویران پڑا رہا۔

ایک عرصہ بند رہنے کے بعد شہر کے چند معززین نے یہاں یتیم خانہ کھلوا دیا لیکن اسے بھی جلد بند کر دیا گیا۔

بدقسمتی سے اس کی اوپر والی دو منزلیں 1993 میں شدید طوفان اور بارش کی وجہ سے گِر گئیں جس نے ساری عمارت کو کافی حد تک نقصان پہنچایا ( کچھ لوگوں کے مطابق بالائی دو منزلوں کو میونسپل کمیٹی نے عمارت کو بچانے کی غرض سے ڈھا دیا تھا)۔
جتنی محنت سے اسے بنایا گیا تھا اتنی ہی بے دردی سے اسے تباہ کیا گیا۔ لوگوں نے اس کے دروازے نکال لیئت، فریسکو آرٹ ورک کو نقصان پہنچایا گیا اور تو اور کھڑکیوں اور سنگ مر مر کو بھی ناں چھوڑا۔

چنیوٹ کے تاج محل کا سامان پشاور، لاہور اور کراچی میں بکتارہا۔
ساری صورت حال دیکھتے ہوئے جون 1990 میں اس وقت کے جھنگ کے ڈپٹی کمشنر محمد اطہر طاہر نے اس عمارت کو سرکاری تحویل میں لے کر یہاں سے ناجائز قبضہ ختم کیا اور اسسٹنٹ کمشنر کو اس کی از سر نو تعمیر کا کام سونپا۔

قبضہ مافیا کی وجہ سے اس کی تاریخی اہمیت ختم ہوتی جا رہی تھی لیکن چنیوٹ کے اسسٹنٹ کمشنر محمد امجد ثاقب نے مقامی تاجروں کے ساتھ مل کر فنڈ اکٹھے کیئے اور اس کی مرمت کروائی جس سے اس محل کو عارضی ہی سہی ایک نئی زندگی مل گئی۔

ضلعی حکومت کی جانب سے گلزار منزل کو لائبریری اور میوزیم بنانے کا فیصلہ ہوا اور پھر اسے ہر عام و خاص کیلئے کھول دیا گیا۔ میوسپل لائبریری اور مقامی لوگوں کی طرف سے ہزاروں کتابیں یہاں رکھوائی گئیں۔

اس وقت اسے میونسپل کمیٹی نے سنبھال رکھا ہے۔ اب اس عمارت کو لائبریری، ثقافتی مرکز اورمیوزیم ہونے کا درجہ حاصل ہے لیکن نام کا کیوانکہ تمام کتابیں اور میوزیم کا سامان نچلی منزل میں بند کر دیا گیا ہے ۔

حکومت کی دلچسپی اس تاریخی ورثے میں نا ہونے کے برابر ہے۔
گلزار منزل میں واقع لائبریری کا نام شیخ عمر حیات لائبریری رکھا گیا ہے۔ بعد میں میونسپل کمیٹی نے عمارت پر مزید رقم لگانے سے انکار کر دیا۔

بدقسمتی سے اس وقت عمارت کی حالت خستہ ہو چکی ہے۔ عمارت کی بیرونی دیواروں میں دراڑیں آچکی ہیں۔ بارش کی وجہ سے لکڑیاں اپنا رنگ بھی کھوچکی ہیں۔

موجودہ صورت حال یہ ہے کہ عمارت کی بالائی منازل آہستہ آہستہ گر رہی ہیں اور اب یہاں میرے جیسے چند سیاحوں کے علاوہ کوئی بھی نہیں جاتا۔۔۔۔۔

%d bloggers like this: