اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان (قسط8 )۔۔۔عباس سیال

گزیٹئیرڈیرہ اسماعیل خان 1882-1884 میں شائع ہوا تھا ۔ یہ دستاویز انگریز سرکار نے اپنی نگرانی میں تیار کروائی تھی جس میں ڈیرہ اسماعیل خان کے مختلف زاویوں سے اعدادوشمار اکٹھے کئے گئے۔ عباس سیال نے اسکا ترجمہ کیا ہے ،قسط وار ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر
ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے درخت اور تھل کی صحرائی جھاڑیاں
تھل کی زمین ریتلی اور قدرے ہلکی ہے۔یہاں سال میں تقریباً ایک بار ہی بارش ہوتی ہے‘اسی لیے اس کا زیادہ تر حصہ بے آباد ہے اورمیلوں تک ریت ہی ریت اڑتی نظر آتی ہے۔یہاں کی ریت میں مخصوص قسم کی چمبر جھاڑیاں اُگتی ہیں۔تھل کے طول و عرض میں لانا درختوں کی بہتات ہے جبکہ ایک بڑے رقبے پر جال یعنی پیلو پھل کے درخت بھی اُگے دکھائی دیتے ہیں۔اس کے درمیانی حصے پر پھوگ کے درخت ہیں اورپتوں کے بغیر والی خشک جھاڑیاں بھی ہیں۔ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے قابل ذکر درخت شیشم‘بیری‘بھانی‘ کھجور‘فراش‘لانا‘جال‘جنڈ‘پُھلاہ‘کیکر‘ببول‘کریٹہ‘کِپ اوربوئی وغیرہ ہیں۔
شیشم: شیشم کو ٹاہلی بھی کہا جاتا ہے‘ مناسب قد وقامت کا حامل یہ درخت کافی گھنیرا ہوتا ہے‘ اس کی شاخوں پر گول گول‘ چکنے پتے لگتے ہیں اوراس میں پیلی پیلی چپٹی پھلیوں کے گچھے دور سے لٹکے دکھائی دیتے ہیں۔یہ خوشنما منظر ایسے نظر آتا ہے جیسے درختوں نے بالیاں پہن رکھی ہوں۔شیشم کا درخت اکثر پانی کے قریب پیدا ہوتاہے‘اس کی لکڑ ی چکنی‘ وزنی اور مضبوط ہونے کے باعث کافی مہنگی بکتی ہے۔شیشم کا درخت ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں بکثرت پیدا ہوتا ہے‘ خصوصاً کچی میں یہ جگہ جگہ پر دکھائی دیتا ہے۔یہاں کے ہنر مند اس کی لکڑی سے کواڑ‘چو کھٹیں‘میز‘ کرسیاں‘ پلنگ‘ سنگھار میز‘صندوقچے اور ڈھیروں دوسری اشیاء بناتے ہیں۔
بیری: بیری کا درخت خاصا اونچا ہوتاہے‘ اس پرمیٹھے میٹھے بیر لگتے ہیں اوراس کے تنے کو کاٹ کر اس کی لکڑی کے تختے بنائے جاتے ہیں۔ڈیرہ کے لوگ اسے عموماً اپنے گھروں کے کچے صحنوں میں لگاتے ہیں۔ یہ درخت چہتربہار(مارچ) کے موسم میں خوب پھل دیتا ہے۔اس کی لکڑی سے چار پائیوں کے سرے (پائے) اورپیٹیا ں بنائی جاتی ہیں جبکہ اس کے پتے اونٹ اور بکریاں بڑے شوق سے کھاتی ہیں۔ شیشم اور بیری کے درخت کچے کے علاقے میں بھی بکثرت پیدا ہوتے ہیں۔
بھانی: اس درخت کی چھال بید کے درخت کی طرح ہوتی ہے۔یہ دیکھنے میں بھی بید کے درخت جیسا دکھائی دیتا ہے۔یہ عموماً پندرہ بیس فٹ اونچا ہوتاہے۔بھانی گرم اور ریتلے علاقوں میں پیدا ہوتاہے۔ جب یہ چھوٹا پودا ہوتا ہے تو اس کے پتے چھوٹے چھوٹے سکڑے ہوئے لگتے ہیں لیکن جب یہ بڑا ہو کر تناور درخت بنتا ہے تو اس کے پتے چوڑے اور دندانے دار ہو جاتے ہیں۔اس کی لکڑی سفید رنگ کی ہوتی ہے‘ جو عمارتوں کے کام آتی ہے۔ ڈیرہ کے ہندو اس کی لکڑ ی سے داتن بناتے ہیں‘بعض مقامات پر اس کی لکڑی سے صندوقچے بھی تیار کیے جاتے ہیں۔بھانی درخت کی لکڑ ی جلانے کے کام بھی آتی ہے۔
کھجور: یہ بہت اونچا درخت ہوتاہے۔شکل میں نرالہ‘تنا سیدھا اور اس کے اوپر آٹھ نو فٹ لمبے پتوں کا گچھا ہوتاہے‘ جو چھتری کی طرح چاروں طرف پھیلا دکھائی دیتا ہے۔اس کی لکڑی سے دستی پنکھے اور پنکھیاں بنتی ہیں‘ چھتوں کی کڑیاں اور کنوؤں کی نالیاں بھی بنائی جاتی ہیں۔اس پر چھوارے جیسا میوہ لگتا ہے‘جسے کھجور کہتے ہیں۔ گرمیوں میں کھجور ڈیرہ کے بازاروں میں خوب بکتی ہے۔دریائے سندھ کے کناروں کے قریب کھجور کے درختوں کی بھرمار ہے‘ کچے میں بھی کھجور کے بہت زیادہ درخت پائے جاتے ہیں۔
فرّاش: فرّاش کا درخت بھی کافی اونچا اور خاصاموٹا ہوتا ہے‘ ایندھن کے علاوہ اس کی لکڑی سے قمچیوں کے ٹوکرے اور ٹوکریاں بنتی ہیں۔یہ دواؤں میں بھی کام آتا ہے۔ خشک زمین ہو چاہے نم دار‘ یہ درخت ہر جگہ اُگ آتاہے‘ اس کی شاخیں کاٹ کر دوسری جگہ لگائیں تو بہت جلد پھوٹ پڑ تی ہیں‘ اسی لیے جہاں پر پانی کے بند باندھتے ہیں‘وہیں اِن بندوں کے کنارے فراش کے درخت لگا دئیے جاتے ہیں۔یہ درخت دریا کے کٹاؤ کو روکنے میں کافی معاون ثابت ہوتے ہیں۔
لانا: یہ فرّاش سے ملتا جلتا درخت ہے‘ یہاں پر اس کی تین قسمیں پیدا ہوتی ہیں‘ گورا لانا‘ کھار لانا اور پھیساک لانا وغیرہ۔ان میں سے کھار لانے کی سجی بنتی ہے جسے کھار کہا جاتا ہے۔ نیلی رنگت کی کھار پتھریلی سی ہوتی ہے جو پنساریوں کے ہاں بکتی ہے۔ دھوبی اس کھار(سجی) کو ابلتے پانی میں ڈال کر اس کے پانی سے کپڑے دھوتے ہیں جبکہ پاپڑ بنانے والے اسے پاپڑوں میں بھی ڈالتے ہیں۔
جال: ہرے بھرے‘پتلے‘لمبوترے اور سہانے پتوں والا جال کا درخت ڈیرہ اسماعیل خان کے اُرواری علاقے (تھل) کی انوکھی پہچان ہے۔ یہ درخت تھل اور دامان میں بھی جگہ جگہ دکھائی دیتا ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں اکثر کنوؤں کے قریب اس کے باغات اُگائے گئے ہیں‘مگردریاخان سے لے کر دُلے والا اور تحصیل لیّہ کے اوپر ڈھنگانہ کے علاقوں میں جال کے درختوں کی بھرمار ہے۔لانا اور پیلو کبھی ایک ساتھ ایک جگہ پر اکھٹے نہیں اُگتے۔جہاں پیلو کے درخت شروع ہوتے ہیں وہیں پر لانا کے درخت عموماً ختم ہو جاتے ہیں۔جال کے درخت کی لکڑی اتنی مضبوط اور کارآمد نہیں ہوتی مگر تھل کے لوگ اس کی کڑیاں اور شہتیر بناتے ہیں۔ اس کا پھل(پیلو) انتہائی میٹھا اور رسیلا ہوتا ہے۔ننھامنھا‘گول مٹول‘ سرخ رنگت مٹھا س بھرا پیلو تھل کے غریب غرباء کیلئے کسی نعمت سے کچھ کم نہیں‘جسے بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے۔ گرمیوں کے موسم میں سینکڑوں مرد‘ عورتیں اور بچے اس کے گھنیرے سائے میں بیٹھ کر اور پیلو چن چن کر کھاتے ہیں۔ پیلو کے پھل کے اندر ایک ننھی سی گٹھلی ہوتی ہے جو انتہائی کڑوی اور کسیلی ہوتی ہے۔یہ اگردانت کے نیچے آجائے تو منہ کڑوا زہر کر کے رکھ دیتی ہے‘اسی لیے اسے کھانے کا بھی ایک خاص طریقہ ہے‘ جو یہاں کے لوگوں کو خوب آتا ہے۔ پیلو کی پتلی شاخیں اور جڑوں سے اعلیٰ قسم کا مسواک بھی تیار کیا جاتا ہے۔
جنڈ: اونچی جسامت کے جنڈ کے درخت اگرچہ تھل میں کافی عام ہیں‘مگر یہ زیادہ تر کنوؤں کے قریب اور بستی میں نظر آتے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں جب گھا س پھونس نہیں ملتی تو جنڈ کے درختوں کی شاخوں کو کاٹ کر اسے بھیڑ بکریوں کو کھلایا جاتا ہے۔ اس کی جڑ یں ز مین کے نیچے بے ڈھنگے انداز میں ٹیڑھی میڑ ھی پھیلی ہوتی ہیں۔پوس سے پھاگن تک اس کی شاخیں اور پتے مویشیوں کے چارے کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ تپتی دوپہروں میں اس کے گھنیرے سائے میں آرام بھی کیا جاتاہے۔ جنڈ کا درخت پیروں اورفقیروں کی خانقاہوں پر بھی بکثرت نظر آتا ہے۔ جنڈ کے درخت پر گول‘پتلی اور لمبی پھلیاں لگتی ہیں‘انہیں سانگر یا سانگری کہتے ہیں‘ان پھلیوں کو سالن میں پکا کر روٹی کے ساتھ بھی کھایا جاتا ہے‘اور اسے گرمیوں کے موسم میں سکھا کر رکھ چھورتے ہیں اورسردیوں میں جب جی چاہے سوکھی پھلیوں کو پانی میں بھگو کر ہری پھلیوں کی طرح سالن میں استعمال کرتے ہیں۔جنڈ کی لکڑ ی بھی خوب جلتی ہے اس کا کوئلہ سُچا ہوتا ہے۔ہندوؤں میں اس درخت کو بہت متبرک مانا جاتا ہے‘خصوصاً تھل کے ہندو اس کی لکڑی کو پوتر تصور کرتے ہیں‘ اسی لیے ان کی شادی بیاہ کی رسموں میں جنڈ کی لکڑ ی یا اس کی شاخ کا ہونا لازمی ہوتاہے۔
پُھلاہ: اس کی لکڑی سیاہ‘مضبوط اور کافی وزنی ہوتی ہے۔ اس سے گاڑیوں کے پہیے‘ ہل کے پھالے اور کئی دوسری مضبوط چیزیں بنائی جاتی ہیں۔پُھلاہ درخت کی چھال پر ایک خاص قسم کا گوند بھی لگتا ہے جسے دو اؤں میں جڑی بوٹیوں کے ساتھ استعمال کیا جاتاہے۔
کیکر: کیکر کے درخت دامان کے آس پاس بہت زیادہ ہیں۔ کیکر ایک بے رونق سا درخت ہوتا ہے اور اگر اسے گھر کے آگے لگا ئیں تو گھر اجاڑ سا دکھائی دیتا ہے اور خاک اڑتی دکھائی دیتی ہے‘لیکن کیکر کے درخت کا ہر حصہ کار آمد ہے۔ کیکر کی لکڑی مضبوط ہوتی ہے جس سے سینکڑ وں اشیاء بنائی جاتی ہیں۔اس کا کوئلہ پکا ہوتاہے‘اس پر بھی سفید گوند لگتا ہے جو بڑ ے کام آتا ہے۔اس کی چھال چمڑ ارنگنے کے کام آتی ہے‘ جبکہ اس کی چھال سے دیسی شراب بھی کشید کی جاتی ہے۔ کیکر کے پتے اور پھلیاں جانور خصوصاًبکریاں بڑی رغبت سے کھاتی ہیں۔اس کا کانٹا کافی لمبا اور تیز ہوتاہے‘ اگر چبھ جائے تو شدید درد کرتاہے‘مگر کسی حد تک اس کا کانٹامفید بھی ہے‘ یعنی اس کے کانٹوں کی باڑ کو کھیتوں کے گرد پھیلا کر رکھ دیا جاتا ہے جس سے گیدڑ‘سوراور دوسرے ضرر رساں جنگلی جانور کھیتوں کا رخ کرنے سے کتراتے ہیں۔
ببل(ببول): شکل و صورت میں جھاڑی کی طرح نظر آنے والے ببل درخت کو ببول بھی کہا جاتا ہے۔تھل کے ریتلے ٹیلوں پر اس کے جھنڈ کے جھنڈ اُگے دکھائی دیتے ہیں۔یہ دو سے تین گز تک اونچا ہوتا ہے۔کیکر کی طرح اس میں بھی سفید سفید کانٹے لگتے ہیں‘ لیکن کیکر کی نسبت ببول میں کانٹے بے شمار ہوتے ہیں۔اس کی جڑ کی چھال سے دیسی شراب بھی کشید کی جاتی ہے۔
کریٹہ: اسے کرِیر یا کرِیل بھی کہتے ہیں‘یہ بھی جھاڑی کی شکل کا ہوتا ہے۔اس میں ننھا ننھا بیج دار گول پھل لگتا ہے جسے ٹینٹ یا ڈیلا کہتے ہیں۔تھل اور دامان کے لوگ اس کے پھل کا اچار بھی ڈالتے ہیں۔اس کی لکڑی کافی پائیدار ہوتی ہے‘جسے دیمک نہیں لگتی۔ دامان اور تھل میں کریٹے کی لکڑی سے چھت کی کڑیاں بنائی جاتی ہیں‘کنوؤں کی بہت سی چیزیں بھی اس کی لکڑ ی سے تیار کی جاتی ہیں۔
کِپ: لمبے لمبے ریشوں والا یہ درخت کوئی دس فٹ تک اونچا ہوتا ہے‘ اس کے ریشے آپس میں جڑے ہوتے ہیں۔کِپ کی لمبی لمبی بے برگ پتلی شاخیں چابک کی طرح سیدھی ہوتی ہیں۔اس کی شاخوں کو بھگو کر ریشے نکال لیں تو کافی عمدہ رسیاں بنتی ہیں‘جوکافی پائیدار ہوتی ہیں اور انہیں نمی سے بھی کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ ببول‘ کریٹہ اور کِپ تھل میں پیدا ہونے والے درخت ہیں۔ بوئی درخت بھی تھل میں جدھر دیکھو اُگا دکھائی دیتا ہے۔تھل‘دامان اور کچے کے علاوہ شیخ بدین کی پہاڑ یوں میں کِءُو‘پِستوانہ‘اُوری وغیرہ کے درخت بکثرت پیدا ہوتے ہیں۔تھل‘دامان اور کچے میں پیدا ہونے والے یہ سب وہ درخت ہیں جو خود بخود ہی اس ضلع میں اُگ آتے ہیں۔تھل کی خودرو گھا س اور صحرائی جھاڑیوں میں سے چمبار نامی پودا کافی پیدا ہوتا ہے۔یہ اکثر ریت کے اندر نمو پاتاہے اورموسلادھار بارش برسنے کے بعد حیران کن طریقے سے اوپر بڑھتا ہے۔اسے کھایا بھی جاتا ہے۔دوسری گھاس پھوس میں سینڑ ں اور پھٹ سینڑں بھی عام اگتی ہے‘یہ بھی خودرو اور خاردار پودوں میں شمار ہوتے ہیں۔
تھل مویشیوں کی چراگاہ کیلئے نہایت ہی موزوں خطہ گردانا جاتاہے‘خصوصاً اس کا جھنگ‘شاہ پور بار اور شمال مشرقی جانب میانوالی تک کا علاقہ چارہ پید اکرنے میں مشہور ہے‘کیونکہ وہاں پر بارشیں نسبتاً زیادہ ہوتی ہیں‘جبکہ کچی کی طرف چراگاہیں کم ہیں۔تھل کے علاقے چاؤبارہ اور نواں کوٹ کے علاوہ کوٹ سلطان کی پچھلی جانب مظفر گڑھ کے قریب چراگاہیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: پیش لفظ گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔عباس سیال

سلسلہ وار گزیٹیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔ عباس سیال

جاری ہے۔۔۔۔۔

%d bloggers like this: