لوئر باری کالونی: اگلا سب سے بڑ امنصوبہ لوئر باری دوآب کالونی تھا۔یہ منصوبہ 1910اور1925میں کولونائزیشن پالیسی ایکٹ کے تحت بنایا گیا ایک بڑا منصوبہ تھا جس میں سیاسی اور اقتصادی ضروریات کے ساتھ ساتھ فوجی مفادات کو ایک بار پھرمقدم رکھا گیا۔لوئر باری دوآب کالونی میں سویلین آباکاروں کیلئے ایک دفعہ پھر گھوڑا پال اسکیم کو یقینی بنایا گیا مگر اب کی بار اسے لازمی قرار نہ دیا گیا۔
25ایکڑ کے آباد کارجو کئی دیہاتوں میں موجو د تھے ان کے درمیان مقابلہ جاری ہو گیااور اس طرح گھوڑوں کی افزائش پیسہ کمانے کا ایک اضافی وسیلہ بن گئی۔اس منصوبے میں آبادکاروں کیلئے ہر دس سال بعد لیز کی تجدید کروانا لازمی تھا۔ایک وقت ایسا بھی آیا جب دیہاتوں کے اندر سے درخواست کنندگان کی کمی پڑ گئی تو فوجی حکام کو باہر کے لوگوں کو لیز پر زمین حاصل کرنے کی اجازت دینی پڑی۔
لوئر باری دوآب کالونی میں گھوڑا پال اسکیم کیلئے پانچ لاکھ ایکڑ زمین مختص کی گئی،جس میں سے180,000(ایک لاکھ اسی ہزار)ایکڑ سابقہ فوجیوں کیلئے تھی جبکہ 100,000 سولاکھ ایکڑ وراثتی زمینداروں کا حصہ تھا۔دوسری بہت سی کالونیوں کی طرح یہاں پر بھی سکھ زمینداروں نے نمائندگی کی اور کینال کالونیز میں زمینیں با نٹنے کا پیمانہ زرعی ذاتوں والے افراد پر رکھا گیا جبکہ بے زمین دیہاتی مزدو رطبقہ ایک بار پھر نظرانداذ کر دیا گیا۔لوئر باری دوآب کالونی میں بیس ہزار ایکڑ رقبہ مجرم قبائلیوں اور عیسائی مشنریوں کیلئے بھی رکھا گیا۔
لوئر باری دوآب کالونی کی تعمیر کے دوران پہلی جنگ عظیم پھوٹ پڑی جس کے باعث فوج کے حصے میں آنے والی زمین کچھ اس طرح متاثر ہوئی کہ اصل آبادکاری سکیم میں جو 105,000 ایکڑ زمین فوجی پینشنروں کے لیے مختص کی گئی تھی جنگ پھوٹ پڑ نے کے نتیجے میں فوجیوں کو مطمئن کرنے کی غرض سے اس میں اضافہ کرنا پڑا چنانچہ مزید 75,000 زمین شامل کر لی گئ
یہ اب کی بار برطانوی حکومت نے کوشش کی کہ زیادہ تر رقبہ سابقہ فوجیوں کوالاٹ کرنے کی بجائے ان فوجیوں کو دیا جائے جو محا زجنگ پر انگریز فوج کی جانب سے محاز جنگ پر لڑ رہے ہیں۔انگریز حکومت کا یہ فیصلہ نہ صرف فوج میں بھرتی بڑھانے کا موجب بنا بلکہ جنگ کے دوران خدمات سرانجام دینے والے فوجیوں کیلئے مغربی پنجاب وہ واحد صوبہ تھا جس میں ان کیلئے پرکشش انعامات کی شکل میں زمینیں شامل تھیں۔
فوج میں بھرتی کو وسیع تر سماجی بنیاد پر پھیلانے کیلئے اب کی بار غیر زرعی ذات والوں کیلئے بھی گرانٹس کھول دی گئیں مگر ا س شرط پر کہ وہ بوقت ضرورت فوج میں بھرتی ہو ں گے۔ اب کی بار پنجاب کے علاوہ دیگر علاقوں (کشمیر،شمال مغربی سرحدی صوبے)کے لوگوں کو بھی گرانٹس ملیں اور ہمیشہ کی طرح انڈ ین آرمی میں شامل سکھوں کو سب سے زیادہ حصہ ملا۔
لوئر باری دوآب کینالز کالونی میں دیہی اشرافیہ کے لئے 60000 ایکڑ رکھے گئے تھے۔ان گرانٹس کے حقداروں میں وہی خاندان شامل تھے جس کاتذکرہ گریفن اور میسی نے اپنی کتاب ”Chief and families of note in the Punjab“ میں کیا ہے،جس میں کئی انگریز حکومت کے درباری خاندان بھی شامل تھے۔یہ گرانٹ شدگان ہندوستان کے پانچوں انتظامی ڈویژنوں سے چنے گئے جن میں سے اکثریت پنجابیوں کی تھی۔
چونکہ یہاں کے کئی خاندانوں کی انگریز فوج میں ملازمت،جنگ کے دوران فوجیوں کی بھرتی اور انگریز فوج کے خلاف اٹھنے والی ہر عوامی بغاوت، تحریک خلافت اور اکالی دل جیسی تحریکوں کے خلاف انگریزوں کے تعاون میں یہ لوگ پیش پیش تھے اسی لیے اس کسوٹی کو بنیاد بنا کر انہیں گرانٹس سے نوازا گیا۔اس ضمن میں چند انفرادی مثالیں اہم ہیں مثلا ضلع منٹگمری (ساہیوال ڈسٹرکٹ) میں سردار جوگندرا سنگھ (جسے 1940ء میں ہندوستان ریلوے کا وفاقی وزیر بنایا گیا تھا)، اس شرط پر 2,000ایکڑ رقبہ الاٹ کیا گیا کہ وہ اس زمین سے نہ صرف بیج کی مخصوص پیداوار فراہم کر ے گا بلکہ زرعی مشینری پر تجربات کرکے زیادہ سے زیادہ فصل اگانے کے طریقے بھی دریافت کرکے انگریز سرکار کی مدد کرے گا۔
اس کے علاوہ 2,500 ایکڑ زرعی رقبہ کپور تھلہ کے سرداردِل جیت سنگھ کو الاٹ کیا گیا کہ وہ اس پر ٹیوب ویلوں کا جال بچھائے اور پانی کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ان دونوں اشخاص کو مالکانہ حقوق بھی تفویض کر دیئے گئے تھے۔اپر جہلم کالونی کا 4,000ایکڑ رقبہ ان افراد کو دیا گیا جنہوں نے جرائم کے خاتمے کیلئے انگریز انتظامیہ کی مد دکی تھی۔
یہ بھی پڑھیے:
مغربی پنجاب میں بنائی گئی کینال کالونیز کی تفصیلات(3)۔۔۔عباس سیال
مغربی پنجاب میں بنائی گئی کینال کالونیز کی تفصیلات(2)۔۔۔عباس سیال
برطانوی سامراج کے دوران مغربی پنجاب میں سکھوں کی آبادکاری۔۔۔ عباس سیال
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر