انسان اپنی غلطی تسلیم کر لے تو اسے انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیئے، ھم سب انسان ہیں، بشری تقاضے غلطی پر مجبور کرتے ہیں مگر اس کا ادراک انسان کو اخلاقی سطح پر بلند کر دیتا ہے، اس لیے سوشل میڈیا پر صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد کے بیان کا دفاع کرنے والے سوشل میڈیا مجاہدین کو بھی اپنی غلطی کا ادراک کر لینا چاہیئے۔
وزیراعظم عمران خان نے بھی گزشتہ انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ ن کے سپورٹررز کو گدہے کا خطاب دیا تھا جس سے لاکھوں لوگوں کی دل آزاری ہوئی، انہیں بھی چاہیے کہ وہ محترمہ یاسمین راشد سے سبق لیتے ہوئے مختلف جماعتوں کے خلاف استعمال کئے گئے تضحیک آمیز کلمات پر معافی مانگ لیں۔
ایک وزیراعظم عمران خان پر ہی کیا موقوف، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور ہماری مذہبی جماعتیں اٹھتے بیٹھتے جو زبان وزیراعظم عمران خان اور ان کے حامیوں کے خلاف استعمال کرتیں ہیں وہ نامناسب ہے اس پر انہیں بھی معذرت کرنی چاہیئے۔
سیاست میں اختلاف برحق ہے، سیاسی شخصیات اور سیاسی جماعتوں پر تنقید فطری امر ہے لیکن تنقید اور تضحیک و دشنام طرازی میں فرق ہے، اس فرق کو مدنظر اور ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔
سیاسی کارکنوں کو بھی چاہیے کہ وہ حق بات کریں اور سیاسی رواداری اور بھائی چارے کو فروغ دیں۔ اپنا اخلاقی معیار برقرار رکھیں آج اگر آپ اپنے سیاسی لیڈر کی تائید میں طوفان بدتمیزی برپا کر رہے ہیں تو کل آپ کا لیڈر معافی مانگ لے گا لیکن آپ کے اپنے دوست احباب سے مراسم میں جو دراڈ پڑ چکی ہو گی وہ ٹھیک نہ ہو سکے گی۔
اچھا ہوا کہ صوبائی وزیر یاسمین راشد نے لاہور کے عوام کو جاہل کہنے پر معذرت کرلی ورنہ میں آج کے کالم میں تفصیل سے زندہ دلان لاہور کی جہالت پر روشنی ڈالنا چاہتا تھا، اب مختصراً عرض ہے کہ زندہ دلان لاہور نے امرتسر میں ھونے والے سانحہ جلیانوالہ باغ کے خلاف بھرپور احتجاج کر کے انگریز سرکار کے چھکے چھڑا دیے تہے۔
پھر جب مسلم لیگ قائد اعظم کی قیادت میں نمائندہ جماعت بن کر ابھری تو لاہور کے منٹو پارک میں قائد اعظم کی زیر صدارت لاکھوں لاہوریوں نے قرارداد پاکستان منظور کی جو بعد میں قرارداد پاکستان کہلائی اور جس کی یاد میں ہم ہر سال ھم 23 مارچ کو یوم پاکستان مناتے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد والٹن لاہور کے مقام پر جو مہاجر کیمپ بنے ان میں بھارت سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی جس طرح آؤ بھگت کی گئی وہ ہماری تاریخ کا روشن باب ہے ۔
محترمہ فاطمہ جناح جب ایوب آمریت کو لکارنے لاہور آئیں تو اسی شہر کے ملک غلام جیلانی، میاں محمود علی قصوری اور لاہور کے عوامی شاعر حبیب جالب ان کی انتخابی مہم کے روح رواں تھے۔
اور پھر جب ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب آمریت کے خلاف تحریک چلائی تو لاہور ریلوے سٹیشن پر ان کے پہلے عوامی استقبال نے انہیں عوامی لیڈر کے طور پر تسلیم کیا۔
70 کے انتخابات میں لاہور کے جاہل لوگوں نے علامہ اقبال کے بیٹے جاوید اقبال کے مقابلے میں لاڑکانہ کے ذوالفقار علی بھٹو کو منتخب کیا۔
جنرل ضیاء الحق کی آمریت میں قذافی اسٹیڈیم لاہور کے باہر جب پولیس نے محترمہ نصرت بھٹو پر تشدد کرکے انہیں لہولہان کیا تو لاہور کے جاہل لوگوں نے ہی انہیں چادر پیش کی۔
جب جنرل ضیاء الحق نے خواتین کے خلاف امتیازی قوانین بنائے تو خواتین کے حقوق کی تحریک لاہور کی ایک بیٹی عاصمہ جہانگیر نے چلائی۔
جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف محترم بینظیر بھٹو جب جلاوطنی ختم کرکے دس اپریل 86 کو آئیں تو انہوں نے لاہور کے جاہل لوگوں کا ہی انتخاب کیا۔
لاہور کی تاریخ میں اس سے بڑا اجتماع اور فقید المثال استقبال کسی اور سیاسی لیڈر کے حصے میں نہیں آیا۔
جنرل مشرف دور جب اختتام کو پہنچا تو لاہور کے لوگوں نے میاں نواز شریف کا تاریخی استقبال کیا اور ان کی سعودی عرب موجودگی کے باوجود اپنی وابستگی مسلم لیگ ن سے برقرار رکھی۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان یوں تو 96 سے قومی سیاست میں ہیں لیکن اکتوبر 2011 کے تحریک انصاف کے لاہور میں کامیاب جلسے کے بعد ان کی جماعت کو سنجیدگی سے لیا جانے لگا اور زندہ دلان لاہور نے ان کی سیاست کو چار چاند لگا دیے۔
جب وزیراعظم نواز شریف اقتدار سے رخصت ہوئے اور سویلین بالادستی کا نعرہ لگایا تو لاہور کے لوگوں نے انہیں خوش آمدید کہا۔
نامساعد اور ناموافق حالات میں بھی لاہور کے شہریوں نے ہمایوں اختر کے مقابلے میں خواجہ سعد رفیق کو منتخب کیا۔
ان حوالوں کے بعد بھی اگر چکوال سے تعلق رکھنے والی یاسمین راشد کو لاہور کے عوام کی جہالت پر مزید معلومات درکار ہیں تو انہیں اپنے سسر پیپلزپارٹی کے سابق رکن اسمبلی اور بھٹو کے ساتھی ملک غلام نبی کی کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیئے لیکن سوشل میڈیا کے اس دور میں اتنا وقت کہاں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر