نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میڈیا جھوٹ بولتاہے۔۔۔ طاہر ملک

رپوٹرر دفتر واپس پہنچ کر جب خبر کو فائنل کرنے کی غرض سے لفافہ کھولتا ھے تو اس میں موقف کے ساتھ ایک خطیر رقم بھی نظر آتی ھے

وزیراعظم عمران خان کے کرونا وائرس متاثرین کے امدادی ٹیلی تھون اور معروف عالم دین مولانا طارق جمیل کی دعا اور گفتگو کے نتیجے میں میڈیا کے حوالے سے ایک بحث نے جنم لیا. میڈیا کو جھوٹا اور جھوٹ بولنے کا مرتکب قرار دیا گیا بعدازاں مولانا طارق جمیل نے اپنے ان ریمارکس پر میڈیا سے معزرت کرلی لیکن مولانا کے فالوورز اور تحریک انصاف کے سپورٹرز میڈیا اور اس سے وابستہ شخصیات کو بخشنے کو تیار نہیں.

الزام طرازی دشنام طرازی اور تضحیک کا سلسلہ بد دستور جاری و ساری ھے. چونک میں درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ھوں میرے کئی طالب علم آج معروف صحافی ہیں بہت سے کئی ماہ کی تنخواہ کے منتظر زندگی کی تگ و دو میں مصروف ہیں ۔

لہذا میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں بھی اپنے حصے کا سچ بیان کروں جیسا کہ قرآن مجید میں واضح ھدایت ھے کہ جو دیکھو و بیان کرو.

میرے ایک شاگرد نام لینا مناسب نہیں آج ایک بڑے اخبار میں رپوٹرر ھیں. یونیورسٹی سے فراغت کے بعد کئی سال کی ریاضت اور بلا معاوضہ نوکریوں کے بعد نیشن اخبار میں رپوٹرر بھرتی ھوئے. اخبار کی ایڈیٹر محترمہ شیریں مزاری تھیں.اور یہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت کا واقعہ ھے کہ اسلام آباد کچہری میں لینڈ مافیا سے منسلک دو گروپوں میں تصادم ھوا کئی افراد زخمی ھوئے اسلام آباد پولیس کے ایک ڈی ایس پی زخمی ھوئے اس واقعہ کی اخبار میں خبر فائل کرنا میرے شاگرد رپورٹر صحافی کی ذمہ داری تھی وہ اپنے موٹر سائیکل پر کچہری پہنچے فریقین کا موقف لیا عوام سے گفتگو کی اور دفتر خبر تحریر کی جب انہوں نے ھاوسنگ سوسائٹی کے مالک جن کی دولت ریاضت مشہور ھے سے ان کا موقف جاننے کے لئے فون کیا تو انہوں نے سوالات تحریری شکل میں ارسال کرنے کو کہا جب وہ بھی ان تک پہنچ گئے تو ان کا فون آیا کے موقف کے لئے ملاقات پر گھر تشریف لائیں .

رپوٹرر گھر پینچا ملاقات ھوئی کہا گیا کہ آپ ابھی نووارد ہیں بہتر ھے خبر پر اصرار نہ کریں. جب رپوٹرر اس پر رضا مند نہ ھوئے تو انہیں تحریری موقف لفافے کی شکل میں دیا گیا..

رپوٹرر دفتر واپس پہنچ کر جب خبر کو فائنل کرنے کی غرض سے لفافہ کھولتا ھے تو اس میں موقف کے ساتھ ایک خطیر رقم بھی نظر آتی ھے. ایک جانب گھر کے حالات کھٹارا موٹر سائیکل دوسری جانب اعلیٰ صحافتی اصولوں کی پاسداری اور سچ کی لگن ھمارے شاگرد کی آنکھ میں آنسو چھلک پڑے اور وہ اخبار کی مدیر ڈاکٹر شیریں مزاری کے آفس داخل ھو گیا صورت احوال بتائی.

شیریں مزاری بھی حیران اور پریشان ھوئیں لیکن انہوں نے کہا کہ میرٹ پر خبر کرو اگلے روز اکثریت اخبارات میں ھاوسنگ سوسائٹی کا موقف چپھا سچائی سیٹھ کے لفافے تلے دب گئی. لیکن نیشن اخبار میں بھرپور خبر چھپی خبر کے ساتھ ایڈیٹر کا ایک نوٹ بھی شائع ھوا جس میں رپوٹرر اور اخبار کو دباؤ میں لانے کی مذمت کی گئی.

خبر کے نتیجے میں سیشن جج اسلام آباد نے وقوع کی انکوائری آرڈر کی. اخبار کی مدیر نے نوٹوں سے بھرالفافہ واپس بھجوایا. میرے شاگرد رپوٹرر آج بھی ایک بڑے انگریزی اخبار میں رپوٹر ہیں لیکن آج بھی ان کے پاس سفر کے لئے موٹر سائیکل اور رھنے کے لئے کرایہ پر مکان ھے.

اور یہ صرف ایک مثال نہیں ایسی کئی مثالیں ھمارے اردگرد موجود ہیں. اس کے باوجود میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ دیگر شعبوں کی طرح میڈیا کو بھی اصلاحات کی ضرورت ھے اس شعبہ سے وابستہ لوگوں نے اپنے قلم کو چھوٹے موٹے مفادات کی خاطر بیچا دام وصول کئے.

جھوٹ پر مبنی خبریں بھی نشر کیں چینل اور اخبارات کو جرمانے بھی ھوئے تردید اور معزرت نامہ بھی شائع کرنا پرا لیکن سارا میڈیا جھوٹا نہیں ساری خبریں جھوٹی نہیں اور سارے صحافی کرپٹ نہیں اس کی گواہی ھماری قائداعظم یونیورسٹی کی استاد نیشن اخبار کی سابق مدیر اور آج وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کی وفاقی وزیر محترمہ شیریں مزاری دے سکتی ہیں اور یقیناً وہ کابینہ کے اجلاس میں اس کی گواہی دیں گی اور وزیر اعظم عمران خان اور ان کی پارٹی کے میڈیا سے ناراض کارکنوں کو یہ سوچنا ھوگا کہ میڈیا اپنے تمام تر نقائص کے باوجود حکومت کو عوامی مسائل کی نشاندہی میں اھم کردار ادا کررہا ہے۔

جب ملک میں آٹا چینی بحران تھا آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کرکے ذخیرہ اندوز اور سرمایہ دار نفع کما رھے تھے چینی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا تھا اور حکومت سے اربوں روپے سبسڈی لی جارھی تھی تو میڈیا اس پر تنقید کرکے عوامی جذبات کی ترجمانی کررھا تھا بالآخر وزیراعظم عمران خان نے تحقیقاتی اداروں کو تحقیق کرنے کا حکم دیا جس کی رپورٹ نے ان میڈیا رپورٹس کو سچا قرار دیا جن کے مطابق اس سارے عمل میں حکومتی شخصیات ملوث ہیں اور وزیر اعظم کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جب وہ قطر کے دورہ پر تھے تو ساھیوال کے قریب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے معضوم بچوں کے بے گناہ والدین کو جان بحق کردیا انہیں دھشتگرد قرار دیا گیا پنجاب کے وزیر اطلاعات اور اعلیٰ حکومتی شخصیات نے اس کارروائی پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مبارکباد دی لیکن میڈیا نے اس جھوٹ پر مبنی ساری کارروائی کو بے نقاب کیا اور یوں حکومت کے پاس اپنے ابتدائی بیان کو واپس لینے کے سوا کوئی چارہ نہ رھا.

جناب آج اگر سارا میڈیا جھوٹا ھے تو اس میں کیا وہ میڈیا بھی شامل ھے جو دن رات آپ کی تعریف خوشامد میں زمین آسمان کے قلابے ملا رھا ھے یا وھی میڈیا جھوٹ بول رھا ھے جو آپ کی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کر رھا ھے.

About The Author