نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ذوالفقار علی بھٹو کی 92 ویں سالگرہ۔۔۔ ظہور دھریجہ

تم نے کھانا کھانے سے انکار کر دیا ۔ایک مردہ طوطے نے 1957ء کے موسم سرما میں لاڑکانہ میں ایک چھوٹی سی لڑکی کو رلا دیا تھا ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ منائی گئی ۔
ہزار اختلاف کے باوجود یہ ماننا پڑے گا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ بھٹو کے تذکرے کے بغیر نامکمل ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو غریبوں کو روٹی ، کپڑا اور مکان نہ دے سکے البتہ ان کو ان کے اپنے ہونے کا شعور دے دیا ۔
بھٹو کے بعد بھٹو جیسا زیرک سیاستدان ابھی تک پاکستان کو نہیں ملا ۔ البتہ میاں شہباز شریف جیسے بہت سے سیاستدان بھٹو کی نقل اتارنے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر اصل اور نقل میں بہت فرق ہے ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو سیاست میں بھی بھٹو کی بیٹی تھی ، اب بلاول سیاست میں بے نظیر کا بیٹا ہی بن جائے تو غنیمت ہے ۔ بھٹو ایک شخص نہیں ایک سوچ کا نام ہے ۔
تاریخ کے اوراق پلٹنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو 5جنوری 1928کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد شاہ نواز بھٹو(1888 ئ1957-ئ) سندھ کے زمیندار اور با اثر سیاست دان تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی والدہ خورشیدبانو شاہ نواز کی دوسری بیوی تھیں۔ ہندو مذہب سے تعلق رکھتی تھیں‘اصل نام لکھی بائی تھا لیکن شادی سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا اور اسلامی نام خورشید رکھا گیا تھا۔
آپ نے ابتدائی تعلیم بمبئی سے اور اعلیٰ تعلیم برگلے یونیورسٹی کیلی فورنیا اور اوکسفورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ کچھ عرصہ سائوتھمپٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے لیکچرر بھی رہے۔1962ء میں آپ کو وزیر خارجہ بنایا گیا تو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔
ستمبر1965ء میں پاک بھارت جنگ کے دوران میںذوالفقارعلی بھٹو نے اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کے مسئلے پر ایک شاندار تقریر سے اقوام عالم کو ہم نوا بنایا جب جنوری 1966ء میں پاکستان اور بھارت نے ’’اعلان تاشقند‘‘ پر دستخط کیے تو یہیں سے ایوب خان اور بھٹو کے اختلافات کا آغاز ہوا۔ آپ وزارت خارجہ سے مستعفی ہو گئے۔
وزارت خارجہ سے علیحدگی کے بعد 30نومبر1967ء کو آپ نے اپنے ہم خیال احباب کے ساتھ مل کر لاہور میں ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کی بنیاد رکھی۔ پچھلے دنوں ذوالفقار علی بھٹو کے دیرینہ ساتھی ملک الطاف کھوکھر سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی سرائیکی سے محبت کے بہت حوالے دیئے، وہ بتا رہے تھے کہ ، بھٹو ایک مرتبہ ملتان آئے تو بھکر کے ایک ایم پی اے جو سرائیکی تھے انہوں نے اپنے ساتھیوں سے پنجابی میں بات کی تو بھٹو نے برا منایا اور کہا کہ تم سرائیکی میں بات کرو ،
وہ بتاتے ہیں کہ بھٹو ہمارے ساتھ سرائیکی میں بات کرتے تھے جس سے ہمیں حوصلہ ہوا اور ہمارا اعتماد بڑھا ، وہ بتاتے ہیں کہ جب ہم بھٹو کے ساتھ ملتان کے مزارات پر گئے تو بھٹو نے مزار پر لگی بلیو ٹائلز پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ یہ ابدیت کی نشانی ہے ۔
ایک مرتبہ انہوں نے بتایا کہ سرائیکی صرف وادیٔ سندھ ہی نہیں پورے برصغیر جنوبی ایشیا کی قدیم اور اصل زبان ہے۔ اس موقع پر میں ایک اور واقعے کا ذکر کرونگا جو کہ سرائیکی صوبہ تحریک کے بانی ریاض ہاشمی مرحوم کے حوالے سے ہے ، وہ بتاتے تھے کہ ہم بہاولپور صوبے کی تحریک شروع کیے ہوئے تھے اور برسر اقتدار آنے کے بعد بھٹو مجھے اپنے طیارے میں کراچی سے لاڑکانہ لے گئے اور مجھے اپنے کمرے میں بٹھا کر حقائق سے آگاہ کیا اور کہا کہ تم لوگ تین اضلاع کے صوبے کی بجائے تہذیبی و ثقافتی بنیادوں پر صوبے کا مطالبہ کرو ، مجھے بات سمجھ آئی اور آج ہم سرائیکی قوم کی حیثیت سے عوام کی عدالت میں پیش ہیں۔
سرائیکی وسیب کے حوالے سے غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا سرائیکی وسیب سے جذباتی لگائو تھا، ان کو سندھی کا شاید ہی کوئی شعر یا د ہو لیکن بہت سی سرائیکی کافیاں انہیں زبانی یاد تھیں،
ذوالفقار علی بھٹو ایوان وزیر اعظم میں خصوصی محافل سجا کر پٹھانے خان سے صرف سرائیکی کافیاں سنتے۔ سرائیکی سے محبت کا اس سے بڑھ کر کیا اظہار ہو سکتا ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کو یقین ہو چکا تھا کہ ضیاء الحق کورٹ اسے نہیں چھوڑے گی تب بھی آمر سے زندگی کی بھیک مانگنے کی بجائے سرائیکی زبان سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے عدالت میں سرائیکی زبان کی قدامت عظمت اور مٹھاس کو زبر دست الفاظ میں خرا ج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ سرائیکی شعر سنائے’’ درداں دی ماری دلڑی علیل اے‘‘ سنائے یا پھر اس سے پہلے جیل میں ہر وقت ان کی زبان پر ’’کیکوں حال سنْاواں دِل دا،کوئی محرم راز نہ مِلدا‘‘کے بول ہوتے ۔
سوال یہ ہے کہ آج جو پیپلزپارٹی ہے اس میں ذوالفقار علی بھٹو کی کوئی ایک جھلک بھی موجود ہے؟ بھٹو کی سالگرہ ہے، سالگرہ کا تحفہ اور کوئی پیغام ضرور ہوتا ہے ، مجھے یاد آ رہا ہے کہ بے نظیر بھٹو کی سالگرہ تھی اور ذوالفقار علی بھٹو ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی 21 جون 1978ء کو اپنی عظیم بیٹی کی سالگرہ کے موقع پر خط لکھا جس میں انہوں نے لکھا کہ’’ایک سزا یافتہ قیدی کس طرح اپنی خوبصورت اور ذہین بیٹی کو اس کے یوم پیدائش پر تہنیت کا خط لکھ سکتا ہے ۔
آپ کے دادا نے مجھے فخر کی سیاست سکھائی اور تمہاری دادی نے غربت کی سیاست کا درس دیا۔ بڑے آدمیوں کے نزدیک تو یہ چھوٹی باتی ہیں لیکن میرے جیسے چھوٹے آدمی کیلئے یہ حقیقتاً بڑی باتیں ہیں ، تم بڑی نہیں ہو سکتی ہو جب تک کہ تم زمین کو چومنے کے لئے تیار نہ ہو ، یعنی عاجزی کا رویہ اختیار نہ کرو ۔
تم زمین کا دفاع نہیں کر سکتی جب تک کہ تم زمین کی خوشبو سے واقف نہ ہو ، میں اپنی زمین کی خوشبو سے واقف ہوں ۔ذوالفقار علی بھٹو مزید لکھتے ہیں پیاری بیٹی ! میں اس جیل کی کوٹھڑی سے میں تمہیں کیا تحفہ دے سکتا ہوں ، جس سے میں اپنا ہاتھ بھی نہیں نکال سکتا لیکن میں آپ کو عوام کا ہاتھ تحفہ میں دیتا ہوں ۔
تم سب سے قدیم تہذیب کی وارث ہو۔ میری پیاری بیٹی! کیا تمہیں یاد ہے 1957ء کے موسم سرما میں جب تم چار سال کی تھیں، تو ہم ’’ المرتضیٰ‘‘ کے بلند چبوترے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے ہاتھ میں دو نالی بندوق تھی ۔ میں نے بغیر سوچے سمجھے ایک جنگلی طوطا مار گرایا۔ جب طوطا چبوترے کے قریب آ گرا تو تم نے چیخ مار دی ۔
تم نے کھانا کھانے سے انکار کر دیا ۔ایک مردہ طوطے نے 1957ء کے موسم سرما میں لاڑکانہ میں ایک چھوٹی سی لڑکی کو رلا دیا تھا ۔
21 سال بعد وہ چھوٹی سی لڑکی ایک جوان لڑکی بن گئی ہے۔ جس کے اعصاب فولادی ہیں اور جو ظلم کی طویل ترین رات کی دہشت کا بہادری سے مقابلہ کر رہی ہے ۔ حقیقتاً تم نے بلا شبہ یہ ثابت کر دیا کہ بہادر سپاہیوں کا خون تمہاری رگوں میں موجزن ہے۔ ‘‘

About The Author