جنرل مشرف اور ان کے حکومتی رفقاء کا موقف تھا کہ بے نظیر بھٹو کو تحریک طالبان پاکستان نے قتل کیا کیونکہ طالبان کی نظر میں وہ امریکی یہودی- نصرانی لابی کی ایجنٹ تھیں اور اُن کے مفادات کا تحفظ کررہی تھیں-
……………..
وہابی جہاد ازم اور خود کو افغان جہاد و کشمیر جہاد کا باوا سمجھنے والے آئی ایس آئی کے سابق چیف جنرل حمید گُل کے خیال میں بے نظیر بھٹو کو امریکہ نے قتل کروایا تھا کیونکہ اُن کے خیال میں بے نظیر بھٹو امریکہ سے ہونے والی ڈیل سے منحرف ہوگئی تھیں-
…………….
پاکستان میں بھٹوز اور پیپلزپارٹی سے بغض رکھنے میں پاگل پن کا شکار ہونے والوں کا ایک سیکشن دور کی کوڑی لایا اور وہ یہ تھی کہ بے نظیر بھٹو کو آصف علی زرداری نے قتل کروایا- جنرل پرویز مشرف نے بھی ایک بار اس گھٹیا الزام کو آگے بڑھایا تھا- پیپلزپارٹی اور اُس کی قیادت جو بے نظیر بھٹو کی شہادت پر مظلوم تھی اُسے ایک دم سے مظلوم کی بجائے ظالم اور قاتل قرار دے ڈالا گیا- 2008ء سے ابتک یہ جھوٹا واویلا ہر جگہ سننے کو مل جاتا ہے-
…………..
محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بارے میں اگر ہم پیپلزپارٹی کے موقف کا جائزہ لیں تو ہمیں آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری سمیت پارٹی کے انتہائی سینئر رہنماؤں کے بیانات کو جمع کرنا ہوگا- اُن سب کا خیال یہ ہے اور تھا کہ بے شک بے نظیر بھٹو پر قاتلانہ حملہ کرنے والے، خود کُش بمبار سانحہ کارساز سے لیکر راولپنڈی لیاقت باغ تک عالمی وہابی جہاد ازم، ریڈیکل پولیٹکل (وہابی-دیوبندی) اسلام کے حامی دہشت گرد تھے جن کا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے تھا- لیکن وہ تو بس ٹریگر اور خود کُش جیکٹوں کا بٹن پُش کرنے والے تھے لیکن اس قتل کے ماسٹر مائینڈ وہی تھے جن کی جڑیں پاکستان کی باوردی اسٹبلشمنٹ میں ہیں جن کو ضیاءالحقی باقیات کہا جاتا ہے، جن کے تعلقات مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی مذھبی دہشت گرد نیٹ ورکس سے ہیں-
پاکستان پیپلزپارٹی جنرل مشرف اور اُن کی حکومت کو بے نظیر بھٹو کے قتل کا ذمہ دار اس لیے خیال کرتی ہے کہ اس نے ایک طرف تو اُن کو سابق وزیراعظم کے طور پر وہ سیکورٹی فراہم نہ کی جو اُن کا حق تھی- دوسرا اس نے فارنزک شواہد اکھٹا کرنے کی بجائے جائے واردات پر سارے نشانات دھوڈالے جو صریحاً بددیانتی اور بے نظیر بھٹو کے قتل پر پردہ ڈالنا تھی- اس لیے پی پی پی نے جنرل مشرف اور دیگر زمہ داران کے خلاف مقدمہ قتل کے اندراج اور بے نظیر قتل میں اُن کا ٹرائل کرنے کا مطالبہ کیا، یہ کیس ابھی تک عدالت میں اور اس کیس کی پیروی کرنے والے ایک پبلک پراسیکوٹر کا قتل بھی ہوچُکا-
………
پی پی پی نے اقوام متحدہ کے کمیشن سے بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اس لیے کروائی تھیں کہ اس سے یہ بات تو سامنے آئے بے نظیر بھٹو کے قتل میں ‘انتظامی غفلت’ کہاں پر ہوئی اور ٹھیک ٹھیک کون اس غفلت کے زمہ داران ہیں؟
اقوام متحدہ کی رپورٹ سے پتا چلتا ہے جنرل مشرف کے اُس زمانے میں حاضر سروس کئی فوجی افسران نہ صرف کمیشن سے تعاون میں انکاری رہے بلکہ وہ اس قتل پر پردے ڈالتے رہے-
بے نظیر بھٹو کی قتل کی راہ ہموار کرنے میں سب سے بڑی ذمہ داری اور الزام مشرف، بریگئڈر اعجاز شاہ اور دیگر پر تھا اور ہے-
بے نظیر بھٹو کے قتل میں اُس وقت کی امریکی انتظامیہ کے ملوث ہونے کا الزام دراصل اصل قاتل قوتوں کے کردار کو چھپانے کے سوا کچھ نہ تھا-
جنرل مشرف سمیت پاکستان کی جرنیل اشرافیہ عالمی دباؤ کی وجہ سے بے نظیر بھٹو کے مطالبات کے آگے سرنگوں ہونے پر مجبور ہوئی تھی –
وہ بےنظیر بھٹو کی جانب سے عسکریت پسندی اور ایٹمی صلاحیت کو کاروبار بناکر بیچنے کے عمل کو مکمل طور پر مسترد کیے جانے اور پاکستان میں پارلیمنٹ کو مکمل طور پر بااختیار بنانے اور ڈاکٹر قدیر تک عالمی برادری کی رسائی ممکن بنانے اور امریکہ کا جنگ میں ساتھ دینے بدلے ملنے والی رقوم کا آآڈٹ کرائے جانے جیسے مطالبات سے انتہائی گھبرائے ہوئے تھے جرنیل- جنرل مشرف نے اسی لیے بے نظیر کی سیکورٹی پر کمپرومائز کیا –
بے نظیر بھٹو اور اُن کی جماعت عالمی سیاست کے سیاق و سباق میں بھی اور علاقائی و مُلکی سیاست کے سیاق و سباق میں ریڈیکل پولیٹکل اسلام کے جتنے بھی ایڈیشن اور ڈسکورس تھے اُن کے خلاف عوامی جمہوری راج کے ڈسکورس کے ساتھ کھڑے تھے-اس ڈسکورس میں پاکستان کی طالع آزما ضیاءالحقی جرنیل شاہی کی پس پردہ بالادستی کی جہاں گنجائش نہیں تھی وہیں پر ضیاءالحقیت کے سیاسی چہرے کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں تھی اور یہ دونوں چہرے بے نظیر بھٹو سے جان چھڑانا چاہتے تھے-
بے نظیر بھٹو کے قتل بارے آخری بات یہ ہے کہ آصف علی زرداری نے بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد بے نظیر بھٹو کے عالمی، علاقائی اور قومی سیاسی ڈسکورس کو ترک کرنے کی بجائے سینے سے لگائے رکھا اور یہی وجہ ہے کہ اُن کو اس عمل کی سزا دینے کے لیے سب سے پہلے سرگرم چیف آف آرمی اسٹاف اور آئی ایس آئی کے دفاتر میں بیٹھے سربراہ ہوئے اور انھوں نے افتخار چوہدری کی عدلیہ سے اس ڈسکورس کے خلاف فیصلے لیے جبکہ حسب سابق نواز-شہباز، عمران خان اور رجعتی ملائیت اور پاکستانی پریس کے غالب سیکشن نے اُن کے خلاف محاذ بنایا-
کیا یہ اتفاق تھا کہ ایک طرف تو عدالتی/ جوڈیشل ایکٹو ازم پی پی پی کی حکومت کو مفلوج بنانے کی کوشش میں مصروف تھا تو دوسری جانب پورے ملک میں خودکُش بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے بٹن پُش تھے اور پاکستان میں سرگرم مذھبی دہشت گرد تنظیموں کی سب سے بڑی دُشمن پی پی پی تھی-
پنجاب میں پی پی پی کے خلاف بلاسفیمی کارڈ استعمال کیا جارہا تھا اور پہلے ہی ھلے میں سلمان تاثیر، ملک شہباز بھٹی جان سے گئے اور وفاقی وزیر برائے مذھبی امور پر طالبان نے قاتلانہ حملہ کردیا- بطور وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ، آفتاب شعبان میرانی پر حملہ ہوا-
اور 2012ء میں پی پی پی اور اے این پی تھیں جن کو طالبان نے اعلانیہ ایک بار پھر الیکشن کمپئن چلانے سے روک دیا اور پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے کچھ نہ کیا-
بے نظیر بھٹو کے قتل پر روشنی مزید مابعد قتل پی پی پی کے خلاف ہوئے اقدامات اور ان میں ملوث قوتوں کے کردار سے پڑتی ہے-
آصف علی زرداری سے بلاول بھٹو کی قیادت تک کا سفر اور آج بلاول بھٹو کا سیاسی بیانیہ اس بات کا ثبوت فراہم کرتا ہے کہ پیپلزپارٹی خون کا ایک دریا پار کرنے کے بعد بھی عوامی راج کی سیاست کا عَلم تھام کر کھڑی ہے- اور یہی بیانیہ غیر جمہوری قوتوں کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ لگتا ہے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر