مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چین کا جگمگاتا شھر شنگھائی۔۔۔ گلزار احمد

شنگھائی میں بیرونی سرمایہ کاری کو اجازت ملنے سے بھت سے مالیاتی اداروں کو کام کرنے کا موقع ملا جس سے ترقی کا عمل تیز ھوا

جب جہاز شنگھائی ائیر پورٹ پر اترنے کے لئے نیچی پرواز کرنے لگا تو میں نے جہاز میں بیٹھے ہوئے کھڑکی سے نیچے دیکھا تو چین کا خوبصورت ترین شھر شنگھائی بالکل نیویارک کے مین ھاٹن
Manhatton
جیسا نقشہ پیش کر رہا تھا۔کیونکہ مین ھاٹن میں بڑی اونچی عمارتیں ہیں جن میں ایمپائیر سٹیٹ بلڈنگ ۔۔ٹایمز سکوایر وغیرہ ہیں اور یہ امریکہ کا فنانشل سنٹر بھی ھے۔ شنگھائی ائیرپورٹ سے ہوٹل پہنچ کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ اللہ پاک نے اتنا خوبصورت شھر دیکھنے کا موقع عطا کیا ورنہ ڈیرہ میں تو ہم شنگھائی کے نام کا ایک خوبصورت کپڑا جانتے تھے جس سے خواتین کے سوٹ بناۓ جاتے۔
خیر شنگھائی میں تو دیکھنے کے لئے بہت کچھ تھا۔ دوسرے روز ہم
Oriental pearl Tower
دیکھنے گئے تو چینیوں کی مہارت کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے ۔اس وقت تک یہ چین کی سب سے اونچی بلڈنگ تھی بعد میں شنگھائی ٹاور اس سے بھی بلند بنایا گیا۔ بہرحال 1536 فٹ اونچا پرل ٹاور دنیا کا چھٹا اونچا ٹاور تھا جو ایک موتی کی شکل میں بنایا گیا اور دنیا بھر کے سیاحوں کی دلکشی کا باعث تھا۔ اس بلڈنگ میں ڈبل ڈیکر لفٹ لگائی گئی ھے جو ایک وقت میں پچاس آدمیوں کو سات میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے اوپر لے جاتی ھے۔اوپر ایک ڈیک ھے جہاں کھڑے ہو کے آپ پورے شنگھائی اور اس میں بہتے دریا کا نظارہ کر سکتے ہیں ۔ ایک ریوالنگ ریسٹورنٹ ھے جس میں بیٹھ کر آپ چاروں جانب مناظر دیکھتے ہیں ۔ 25 کمروں کا ھوٹل بھی ھے۔اصل میں یہ ٹی وی اور ریڈیو کے چینلز کے لئے بنایا گیا اور یہاں سے نو ٹیلیوژن چینلز اور دس ایف ایم ریڈیو سٹیشن کی نشریات ہوتی ہیں ۔۔ اب شنگھائی میں ایک نئی سب سے اونچی بلڈنگ شنگھائی ٹاور کے نام سے بن چکی ھے جو 128 منزلہ ھے اور 2073 فٹ بلند ھے اس میں روزانہ سولہ ھزار سیاح سیر کر سکتے ہیں ۔ لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ برج خلیفہ دبئیی کو اب بھی دنیا کی بلند ترین بلڈنگ کا اعزاز حاصل ھے جس کی اونچائی 2722 فٹ ھے۔
خیر جب ہم شنگھائی کے اس پرل ٹاور کی بلندی سے نیچے اترے تو ایک اور حیرت ہمارے انتظار میں کھڑی تھی اور وہ تھی ایک 646.7 میٹر لمبی سرنگ جو دریا کے نیچے بنائی گئی ھے۔جب میں اس ٹنل کو دیکھنے اس سے گزرا تو جسم میں جُھرجھری سی محسوس ہوتی تھی جیسے دریا میرے سر کے اوپر سے گزر رہا ھو۔ شنگھائی میں جدھر بھی گئے بس حیرتیں ہی حیرتیں ۔دو تین منزلہ سڑکیں جب چوک پر پہنچتے تو سمجھ نہیں آتی کدھر جائینگے۔۔۔
اب دیکھتے ہیں شنگھائی دنیا کا سرمایہ کاری کا مرکز کیسے بنا اور پاکستان میں ہم کس طرح ایسے سرمایہ کاری کو لا سکتے ہیں ۔ آجکل شنگھائی میں جو بین الاقوامی صنعتی برانڈ کی پیداوار ھے وہ چین میں سب سے زیادہ ھے ایشیا میں شنگھائی کا ہانگ کانگ کے بعد دوسرا نمبر ھے۔ چین اس وقت 23.12 ٹریلین امریکی ڈالر کی پیداور کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن چکا ھے یورپین یونین 19.9 ٹریلین ڈالر کے ساتھ دوسری اور امریکہ 19.3 ٹریلین ڈالر کے ساتھ دنیا کی تیسری اقتصادی طاقت ھے۔لیکن چین کی آبادی 1.38 ارب ھونے کی وجہ سے معیار زندگی میں یہ دوسرے کئی ملکوں سے کمزور ھے۔کیونکہ چین کی فی کس آمدنی اب سولہ ھزار چھ سو ڈالر ھے جبکہ امریکہ کی انسٹھ ھزار پانچ سو۔ یہ بھی سمجھ لیں کہ آبادی کا بڑھتا ہوا سیلاب ملک کی اقتصادیات کو کس طرح متاثر کرتا ھے کہ دنیا کا سب سے امیر ترین ملک ھونے کے باوجود چین کی فی کس آمدنی کئی ملکوں سے کم ھے۔

شنگھائی میں بیرونی سرمایہ کاری کو اجازت ملنے سے بھت سے مالیاتی اداروں کو کام کرنے کا موقع ملا جس سے ترقی کا عمل تیز ھوا ۔میرے وہاں سفر کے وقت تقریباً 787 مالیاتی ادارے کام کر رھے تھے جن میں 170 غیر ملکی تھے۔ فری ٹریڈ زون بھی بنا لیکن ہماری طرح اندھا دھند بیرونی سرمایہ کار فیکٹریاں نہیں بنا سکتے بلکہ انہیں خاص شعبوں میں سرمایہ کاری کی اجازت ھے ۔ہمیں بھی اس ماڈل سے سبق حاصل کرنا چاھئے۔دوسری بات ترقیاتی عمل کو تیز کرنے کے لئے ضروری ھے کہ سرمایہ کاروں کے ون ونڈو اپریشن کے تحت ایک ہی جگہ پر تمام مسائل حل کئے جائیں ۔ skill labor تیار کی جاۓ جس کا ملک کے اندر اور باھر بھت ڈیمانڈ ھے اور ہمارے ہاں اس کا فقدان ھے۔ ہمیں فری ٹریڈ زون ضرور کھولنے چاھئیں مگر اس شرط کے ساتھ کہ لیبر مقامی ھو گی۔دوسرا ملک میں عرب ملکوں کی طرح کفالت کا نظام لانا ھو گا ورنہ غیر ملکی پاکستان کی زمین خرید لیں گے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ملک پر قابض ھو جائیں گے۔

سب سے اہم مسئلہ لا اینڈ آرڈر کا ھے اگر ملک میں امن و امان ھو تو بیرونی سرمایہ کار آپکی طرف رخ کرتا ھے ورنہ وہ کوئی اور پُر امن ملک چلا جاتا ھے۔ ہمارے ہاں بیرونی دشمنوں نے امن و امان کو خراب کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ھے اس پہ قابو پا بھی لیں تو آۓ روز پانی بجلی گیس کی کمی کی وجہ سے سڑکیں بلاک رہتی ہیں اور انتشار نظر آتا ھے ۔بیوروکریسی سرمایہ کار کو تنگ کرتی ھے یا پھر فرقہ واریت سر اٹھانے لگتی ھے۔ چین اور دوسرے ممالک تیس چالیس ارب ڈالر تو صرف سیاحت سے کما لیتے ہیں جبکہ ہماری ساری ایکسپورٹ چوبیس ارب ڈالر ھے۔

ہم سے صرف مری کے دکاندار کنٹرول نہیں ھوتے جو آۓ روز ملکی سیاحوں کو مار پیٹ پر اتر آتے ہیں اور تو اور ان کے ہاتھوں سے خواتین بھی محفوظ نہیں۔ ہمارے ملک میں سیاحت کیسے فروغ کرے؟ حکومت اور اپوزیشن ایک نہ ختم ھونے والی جنگ میں الجھے رھتے ہیں ملک کی پرواہ کس کو ھے؟ ؎
ایک ہنگامے پہ موقوف ھے گھر کی رونق۔۔۔نوحہِ غم ہی سہی نغمہِ شادی نہ سہی۔۔۔

%d bloggers like this: